ایفائے عہد کی اہمیت

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ

اسلام نے زبان سے جھوٹ کہنے کو منع کیا ہے اور سچ کہنے کی تاکید کی ہے، جس طرح قولًا جھوٹ مذموم ہے اسی طرح عملی جھوٹ کی بھی ممانعت ہے، جس طرح قول کی سچائی مطلوب ہے اسی طرح عمل کی سچائی بھی مطلوب ہے، وعدہ خلافی عملی جھوٹ کی تعریف میں آتا ہے، اور وعدہ وفائی عملی صدق کہلاتا ہے، معاشرہ میں رائج غیر اخلاقی صفات میں ایک مذموم صفت جھوٹ اور کذب بیانی ہے جو بڑے پیمانے پر مروج ہے، کذب بیانی کے ساتھ کذبِ عملی یعنی وعدہ خلافی بھی معاشرہ کا وطیرہ بن گیا ہے،وہ قول ہی کیاجس میں سچائی نہ ہو، وہ وعدہ ہی کیا ہوا جو پورا نہ ہو، اسلام نے قولی و عملی صدق کی تحسین کی ہے، اس کے برعکس قولی و عملی کذب کی مذمت بیان کی ہے، حضرت نبی پاک سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث پاک میں کئی ایک اخلاق فاضلہ کا ذکر فرمایا، اور ان میں ایک صفت ایفاء عہد بھی ہے ، فرمایا:’’ جو کوئی ان پر کاربند ہو میں اس کیلئے جنت کی بشارت سناتا ہوں، اور اس کیلئے جنت کا میں اپنے اوپر ذمہ لیتا ہوں‘‘۔ حدیث پاک میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے جو اپنے عہد کا پابند نہ ہو اس کا دین میں کوئی حصہ نہیں، ایک اور حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ جھوٹ (جو قولی کذب ہے) اور وعدہ خلافی (جو عملی کذب ہے) یہ اور اس طرح کے بعض رزائل اخلاق نفاق کی علامت ہیں،

بعض احادیث پاک میں ان اعمالِ ناپسندیدہ کی قباحت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ جھوٹ اور وعدہ خلافی کرنے والا نماز روزہ کا ہی پابند کیوں نہ ہو اور اپنے زعم و خیال میں اپنے آپ کو مسلمان ہی کیوں نہ سمجھتا ہو تب بھی وہ منافق ہے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایمان و عقیدہ اگر اس کا درست ہو تو وہ اعتقادی منافق تو نہیں کہا جاسکے گا لیکن قول و عمل، سیرت و کردار میں نفاق سے بری نہیں قرار پائے گا، قولی و عملی نفاق کا داغ تو اس کے دامن پر ضرور لگا رہے گا، اعتقادی منافقین کا ٹھکانہ تو دوزخ کے اسفل یعنی نچلے درجہ میں ان کی جگہ ہے، (۴؍۱۴۵)۔ اللہ فضل فرمائے ورنہ عملی نفاق بھی بسااوقات جہنم کی ہوا کھلا سکتا ہے،اوربقدر گناہ اس کی سزا مل سکتی ہے ۔ ایک حدیث پاک میں منافقین کی تین صفات بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ جب کچھ کہے تو جھوٹ کہے جب کوئی وعدہ کرے تو اس کو پورا نہ کرے اگر کسی چیز کا اس کو امین بنایا جائے تو اس میں خیانت کرے، ایک اور حدیث پاک میں وعدہ کو بھی ایک طرح کا قرض بتایا گیا ہے، ’’العدۃ دین‘‘ معاشرہ میں جس طرح بوقت ضرورت ایک دوسرے کے ساتھ بطور قرض مال یا اشیاء ضروریہ کا لین دین ہوتا ہے ، کتاب وسنت میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے، حسب وعدہ اس کو پورا کرنا جس طرح لینے والے پر واجب ہوتا ہے اسی طرح اگر کسی نے کسی اور کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہو تو اس وعدہ کو پورا کرنا بھی گویا قرض کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کو قرض ہی کی طرح پورا کیا جائے۔

عملی زندگی میں جہاں ساری امت کو اس بات کی کوشش کرنی ہے کہ وہ فضائل اخلاق کا ایک عملی پیکر بنے، وہیں رزائل اخلاق کے داغ دھبوں سے اپنا دامن پاک رکھے، لیکن خواص امت، علماء، دانشوران، و قائدین کو تو ایک مثالی جماعت ہونا چاہئے جن کے قول و عمل کی مطابقت کو دیکھ کر عام افراد امت اپنی روش درست کر لیں ۔ اسلامی قائدین بھی احکام اسلام کے پابند ہیں اور سیاسی قائدین بھی، سیاسی قائدین میں مسلم اصحاب کے ساتھ ہمارے غیر مسلم بھائی بھی ہیں، اخلاقی تعلیمات جیسی کچھ اسلام نے دی ہیں اس کی نظیر کہیں مل سکے یہ تو ناممکن ہے لیکن اس کے باوجود دیگر مذاہب کی مقدس کتابیں بھی ان اخلاقی تعلیمات سے خالی نہیں ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والے مسلم قائدین جیسے سچ بات کہنے اور جھوٹ سے پرہیز کرنے اور جو کچھ انہوں نے قوم و ملت سے وعدے کئے ہیں ان کو پورا کرنے کے پابند ہیں اسی طرح ہمارے وہ غیر مسلم بھائی بھی جو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیںوہ بھی ایفاء عہد کے پابندہیں، انسانی نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو حقیقت میں انسان وہی انسان کہلانے کا مستحق ہے جواگر کچھ کہے تو اس کو پورا کرے اور جو کچھ وعدہ کرے اس کو وفا کرے۔

حدیث پاک میں وارد ہے ۔حقیقی معنی میں مومن کہلانے کا تو وہی مستحق ہے جو عہد کا پاپند ہو ۔المؤمن اذا وعد وفی۔ انتخابات کا جب زمانہ آجاتا ہے تو کئی ایک سیاسی پارٹیاں میدان عمل میں کود پڑتی ہیں ان کی تقریروں سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کے درد سے ان کے سینے پھٹے جارہے ہیں، اور یہ احساس ان کے الفاظ سے جھلکتا ہے کہ گویا ان کے سینوں میں انسانی ہمدردی کے چشمے موجزن ہیں، دن رات اگر کوئی فکر ان کو کھائے جارہی ہے تو وہ صرف مصیبت زدہ انسانیت کی ہے، یقینا یہ درد یہ تڑپ بہت بڑی نعمت ہے جس کو نصیب ہو جائے وہ حقیقت میں انسان ہے اس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے، لیکن یہ درد و تڑپ مصنوعی نہ ہو حقیقی ہو، اللہ کے ہاں ایسے ہی درد کی بڑی قدر ہے جو حقیقی اور سچا ہو، بناوٹی درد کی حیثیت کاغذ کے پھولوں سے بڑھ کر نہیں، کیونکہ کاغذ کے حسین پھول خواہ کتنے ہی خوش رنگ و خوش وضع ہوں وہ خوشبو سے عاری ہوتے ہیں اصلی پھولوں کی جگہ نہیں لے سکتے، بناوٹ کبھی حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتی حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے بناوٹ اس کو متاثر نہیں کر سکتی، سچائی اپنی جگہ سچائی ہے جھوٹ و فریب کبھی سچائی کو داغ دار نہیں کرسکتے ۔

حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
سچے اور حقیقی درد سے جس کا دل عاری ہو وہ دل ہی کیا، انسانیت کی نفع رسانی کی فکر کے بجائے کوئی اور فکر دامن گیر ہو تووہ فکر ہی کیا، حقیقی درد و تڑپ رکھنے والے اور انسانیت کی فکر میں گھلنے والے انسان ہی حقیقت میں انسان ہوتے ہیں اور اللہ کے وہ بڑے پسندیدہ ہیںاور ایسے قائدین ہی دراصل اچھے اور قوم کے نمائیدہ قائد کہے جانے کے مستحق ہوتے ہیں۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

کہا تو کچھ نہ جائے لیکن بساط بھر کوشش کر کے انسانیت کیلئے کچھ کر دکھایا جائے تو یہ زیادہ اچھا ہے اس بات سے کہ کہا تو بہت جائے لیکن کیا کچھ نہ جائے، انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے، الیکشن کے موقع پر ہر پارٹی اپنا منشور جاری کرتی ہے جس میں ببانگِ دہل وعدے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن یہ وعدے پھر کبھی وفاء نہیں ہوتے ، ہندوستان کو حقیقی معنی میں سیکولر ملک برقرار رکھنا ہو تو خدمتِ خلق کے جذبہ سے آگے آنے والوں پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی قول و عمل کے تضاد کو دور کریں، اپنا کچھ بھلا کر لیں تو شاید یہ اس وقت برا نہیں سمجھا جائے گا جب کہ وہ جائز راہ سے ہو اور انسانیت کا بھلا کرنے کیلئے کچھ اچھے اقدامات کئے گئے ہوںکہ جس سے بلا لحاظ مذہب و ملت ساری انسانیت کو نفع پہونچے ۔

زمانے کو آج ایسے قائدین قوم کی ضرورت ہے، جن کی زندگی بے داغ ہو جو کچھ وہ کہتے ہیں کر دکھانے کی ان کے اندر تڑپ ہو۔ دلوں کو موہ لینے کی یہی وہ ادا ہے جو آج بہت حد تک مفقود ہے، انسانوں کو آج ایسے ہی قائد و رہنما کی ضرورت ہے جو صرف انسانی ہمدردی کی بات نہ کرے بلکہ اپنے کردار و عمل سے انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھ کر انسانوں کے دل جیتے۔
٭٭٭