ایشیاء میں طاقت کا توازن

تعمیر آشیاں کی لگن ہے تو دیکھنا
اک دن غرورِ برق و شرر ٹوٹ جائے گا
ایشیاء میں طاقت کا توازن
چین میں صدارتی مسئلہ پر ہونے والی تبدیلیاں عالمی طاقتوں کے لیے غور طلب ہیں خاص کر امریکہ کے بعد چین کے پڑوسی ملکوں ہندوستان اور پاکستان کے لیے یہ تبدیلی مختلف زاوئیوں سے کسی کے لیے خوشی اور کسی کے لیے تشویش کا باعث ہوسکتی ہے ۔ چین کے صدر ژی ژپنگ کو غیر معینہ مدت کے لیے صدارت پر فائز رہنے کا اختیار دینے کے لیے چین کی حکمراں پارٹی کمیونسٹ پارٹی نے چین کے دستور میں درج اس شق کو ختم کرنے کی تجویز رکھی ہے جس کے تحت ایک شخص مسلسل دوبار میں پانچ پانچ برس کی مدت کے لیے صدر منتخب کیا جاسکتا ہے ۔ چین میں اگر یہ شق ختم کی جاتی ہے تو موجودہ صدر ژی ژپنگ کی صدارت کو کوئی چیلنج درپیش نہیں ہوگا ۔ موجودہ صدارت کی مدت 2023 کو ختم ہوگی ۔ اس کے بعد صدر ژی ژپنگ کو ہی توسیع دینے کا فیصلہ کسی بھی طرح سے کئی گوشوں کے لیے ناقابل ہوگا ۔چین میں سابق حکمرانوں میں سب سے طاقتور ماوزے تنگ کو ہی مانا جاتا تھا ۔ اب ژی ژپنگ ان کی جگہ لے چکے ہیں ان کے والد بھی کمیونسٹ انقلاب کے ہیرو سمجھے جاتے تھے ۔ ان کی صدارت میں چین کی داخلی و خارجی پالیسیوں کی اندرون ملک زبردست ستائش کی جاتی رہی ہے ۔ معاشی اصلاحات کے ذریعہ چین کو مضبوط ملک بنانے اور بدعنوانیوں کے خاتمہ کے لیے ان کی مہم کا زبردست و کامیاب اثر دکھا گیا ہے لیکن ان کی پالیسیوں نے چین میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھا گیا ۔ چین کے مسلم ابادی والے علاقوں میں سخت پابندیوں سے اندر ہی اندر شدید ناراضگیاں پائی جاتی ہیں ۔ چین میں حقوق انسانی کے کارکنوں کے خلاف تلاشی مہم کے بعد صدر چین کو اپنے مخالفین کے خلاف کارروائی کرنے اور انہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش کرنے کے الزامات کا سامنا ہے ۔ چین کے مستقبل کی صدارتی لڑائی کے لیے ان کے سامنے کوئی طاقت کھڑی نہ ہوسکے ۔ اس لیے انہوں نے اپنے ملک کے دستور میں اس شق کو ہی ختم کرنے کی تجویز کو آگے بڑھایا ہے ۔ 1953 میں پیدا ہونے والے صدر ژی ژپنگ 1974 سے چین کی کمیونسٹ پارٹی میں سرگرم ہیں ۔ چین کے سیاسی نظام پر ان کی گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے ہی ان کے مد مقابل کوئی طاقتور لیڈر نہیں ابھر سکا ۔ اب اگر صدارتی میعاد کی حد برخاست کردینے کا فیصلہ ہوتا ہے تو یہ ژی پنگ کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہوگی اور وہ ایشیا میں اپنے ملک کو طاقتور بنانے کے لیے اہم پراجکٹس جیسے بیلٹ اینڈ روڈ انسیٹیو (BRI) اور چین ، پاکستان ، معاشی راہداری کو وسعت دی جائے گی ۔ اس سے ہندوستان کو عدم اطمینان کا شکار ہونا پڑے گا ۔ چین کے دو سابق طاقتور قائدین جیسے موزے تنگ اور ڈینگ ژسبانگ نے اپنے ملک کو طاقتور بنانے میں اہم رول ادا کیا تھا اب ان کی جگہ صدر ژی ژپنگ کو دیکھا جارہا ہے ۔ اس لیے چین اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ژی پنگ کو ہی غیر معینہ مدت کی صدارت حوالے کرنا چاہتا ہے تو انہیں بے پناہ اختیارات بھی حاصل ہوجائیں گے ۔ 64 سالہ ژی کو موزے تنگ کی طرز حکمرانی پر گامزن سمجھا جاتا ہے ۔ اس سے ایشیا کی جغرافیائی سیاست پر غیر معمولی اثر پڑے گا ۔ امریکہ نے چین کی اس تجویز پر فی الحال کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن اس تبدیلی کا اثر مستقبل میں دیکھا جاسکے گا ۔ لیکن اس تبدیلی کے لیے تیار رہنے کی ہندوستان کو ضرورت ہوگی ۔ چونکہ ہندوستان بھی ایشیا میں ابھرتی ہوئی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے ۔ ایسے میں ہند ۔ چین کے مفادات جو سارے ایشیا میں وسعت پذیر ہیں تحفظ کے لیے باہم مصروف جدوجہد رہیں گے ۔ ہندوستان کو یہ غور کرنے کا موقع ملے گا کہ ژی پنگ کے دور صدارت میں چین کی فوجی طاقت میں بے پناہ اضافہ کیا جائے تو اسے کیا متبادل اقدامات کرنے ہوں گے ۔ اب تک اس ایشیائی خطہ میں طاقتور ملکوں کا توازن برقرار ہے لیکن آئندہ ژی ژپنگ کی غیر معینہ مدت کی صدارت سے چین کے توسیع پسندانہ عزائم ہندوستان کے لیے تشویشناک ہوں گے ایسے میں چین ۔ پاکستان تعلقات بھی ہندوستان کے لیے جو پہلے سے چیلنج بنے ہوئے ہیں مزید پریشان کرسکتے ہیں لہذا ہندوستان کی حکومت کو مستقبل کے چین کے تعلق سے دور اندیشی کے ساتھ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہوگی ۔