پروفیسر شکیل الرحمن
یونانی اساطیر میں ایفرو ڈائٹ (Aphrodife) اور ایڈونس (Adonis) کی محبت کی کہانی کا انجام یوں ہوا کہ محبت کی دیوی ایفرو ڈائٹ کے پہلے عاشق آرس (Ares) نے جنگی سور کی صورت اختیار کی اور ایڈونس پر حملہ کردیا اور پھر اسے ختم ہی کر ڈالا اور ایفرو ڈائٹ کو جب اس کی خبر ملی تو وہ جنگل میں آئی اور پھر ایڈونس کو خون میں لت پت دیکھا ، اس کے لہو سے زمین سرخ ہوچکی تھی ۔ ایفروڈائٹ بے اختیار رونے لگی اور پھر اس کے گرم آنسو ایڈونس کے لہو میں جذب ہونے لگے اور پھر وہاں ہر طرف سرخ و سفید پھول ہی پھول اگنے لگے۔
محمد مظہرالزماں حاں کی کہانیوں کو پڑھ کر مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوا اور یوں لگا جیسے دنیا کے کئی علاقوں ، کئی ملکوں میں بہتے ہوئے لہو اور اپنے معاشرے میں گزرتے وقت کی مجروح کہانی کے ساتھ ساتھ ، قدروں کے ٹوٹنے ، بکھرنے اور گہرے المیہ کے بطن سے لہو کے مسلسل بہاؤ کے اوپر فرد کے آنسوؤں کے قطرے کچھ اس تیزی سے گرے کہ چاروں طرف سرخ و سفید پھولوں کا جنم ہونے لگا اور پھر یہ سرخ و سفید پھول ہمیں بڑی لیکن بہ ظاہر چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی صورت جگہ جگہ نظر آنے لگیں۔ ’’فریم کے اندر کے لوگ‘‘ آسمان ’’آخری پینٹنگ‘‘ باغ ’’خوف کے حصار میں‘‘ اس آباد خراب میں سیڑھیاں وغیرہ۔ مظہرالزماں خاں کی ایسی عمدہ ، فکر انگیز تہہ در تہہ کہانیاں ہیں، جو لہو (معاشرہ ، اقدار، گزرے لمحے، فرد اور اس کے وجود کا سارا لہو) اور اس کے آنسوؤں کی آمیزش سے سرخ و سفید پھول بن گئی ہیں اور یہ پھول اپنے المیے کی کہانیوں کو اپنے اندر اندر چھپائے بیٹھے ہیں ۔
وقت گزرتا ہے کہ اسے گزرنا ہے ، لیکن گزرتے لمحوں کے المیات کم اہم نہیں کہ انہیں ماضی گرفت میں لئے رہتا ہے ، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں، مگر ان حادثوں کے اندر جھانکتے رہنے اور ان کے المیوں کو فنکارانہ سطح پر استعاروں اور علامتوں میں اجاگر کرتے رہنے کا جو فن ہے، وہ بہت مشکل ہے کیونکہ سب کہاں جاپاتے ہیں، حادثوں کے اندر جھانکنے کیلئے اور انہیں وقت کی ہتھیلی پر رکھنے کیلئے اور پھر کہاں اتنی تخلیقی صلاحیتیں رکھتے ہیں سب کہ ان المیوں کو فنکارانہ سطح پر علامتوں اور استعاروں میں عمیق معنویت کے ساتھ پیش کرنے یا بیان کرنے کی ۔ ہمیں بتائیے اور سامنے لائے؟ ۔ چنانچہ محمد مظہرالزماں خاں کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ہمیں ایک بڑے حساس فنکار کی ذہنی کیفیتوں کا پتہ چلتا ہے اور حسی کیفیتوں کے بکھرے ہوئے بہت چمکتے ہوئے نقوش ہمیں مظہر الزماں خاں کی کہانیوں میں نظر آتے ہیں، جن سے ایک نئی حسیت کا منظرنامہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ مثلاً
’’آج تقریباً زمین اعلیٰ حضرتوں کی شکار گاہ بن گئی ہے اور ہم سب کے سب نادان اور بیوقوف اور بے خبر جانور بن گئے ہیں اور ان کے شکار گاہ میں اپنی اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور تمام اعلیٰ حضرات اپنی اپنی مچانوں پر سفید چادریں بچھائے گپ چپ گپ چپ بیٹھے ہوئے ہیں اور جب جی چاہا اور جب ان کی طبیعت مائل ہوئی ہمارا شکار کرلیتے ہیں‘‘۔
’’ اس نے اپنے پاؤں کو گھر کی دہلیز کے اندر کھینچتے ہوئے کہا ، دیکھو کہ اگر میں اس زمین پر اپنا پاؤں رکھ دوں تو یہ ایک زوردار دھماکہ کے ساتھ بھک سے اڑجائے گی اور پھر میں بھی دونوں کی طرح فنا ہوجاؤں گا کہ زمین کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور وہ جگہ جگہ سے اچھل رہی ہے کہ موسم بتا رہا ہے ۔ یہ کہہ کر وہ سرعت سے پلٹا اور پھر دونوں کھلونوں کو اپنے پیٹ کے نیچے رکھ کر سوگیا تھا !
(خوف کے حصار میں)
’’وہ سب کی سب چادریں چھینی ہوئی بوسنیائی عورتیں تھیں، جو اپنی کھرچی ہوئی رانوں اور اپنے ورم زدہ گھٹنوں کے درمیان ، اپنے حیا در سر ڈال کر اپنی اپنی شرمیلی زمینوں پر ابلیوں کی جبراً تخم ریزی کو زیر و زبر کرنے اپنی اپنی کوکھ سے چاروں سمتوں کو بلا رہی تھیں ، لیکن چاروں سمت کے خود ساختہ سفید زادے اپنی اپنی مسندوں پر بیٹھے ڈھولگ بجا بجا کر مراثنوں کی طرح لہک لہک کر گیت گانے میں مشغول تھے کہ ہمارے عشرت کدے ہمارے تیغوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ہم اپنے نیفوں سے باہر نہیں نکل سکتے کہ ہمیں اپنے اپنے نیفے عزیز ہیں‘‘۔
(کہانی’’آسمان‘‘)
’’وہ دونوں کرگسوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہاں جانور اور انسان تو کجا کسی کی بھی کوئی نعش موجود نہیں تھی لیکن ان گنت گدھ دیرائیروں کی شکل میں جگہ جگہ سے زمین کو نوچ رہے تھے۔اس منظر کو دیکھ کر دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں تھیں ، کیونکہ کرگسوں کے چہروں کے بجائے ان سبھوں کے انسانوں کے چہرے تھے اور وہ بھی ان کے اپنے ملک ، اپنے شہر، اپنی بستی اور اپنے عزیزوں ، دوستوں کے علاوہ مختلف ممالک کے بڑے بڑے نامور لوگوں کے جانے پہچانے چہرے ۔ لگتا ہے کہ اس کرۂ ارض بر بسنے والے تقریباً لوگ گدھ بن گئے ہیں اور پھر دونوں نے جب اپنے اپنے چہروں پر ہاتھ پھیر کر دیکھا تو واقعی وہ دونوں بھی گدھ بن گئے تھے‘‘۔ (کہانی’’جہان کر گس‘‘)
ایک اور اقتباس کیونکہ اس طرح جملوں کو Underline کرتا جاؤں تو پوری کتاب انڈر لائین ہوجائے گی ۔ یہ Online کہانیاں ہیں، لہذا ان کہانیوں کو آن لائین (On line) ہی پڑھیئے:
’’ہوائیں مشتعل ، آدمی پاگل ، سارے موسم الٹے پانو، ہر طرف شریر طاغوتی شعلوں کا رقص ، رقصِ بسمل، فلسطین، بغداد، افغانستان اور لبنان کی گرم گرمائی ہوئی ، چیختی چلاتی ، زخم خوردہ زمینوں پر نصرانی و عبرانی و عبرانی زخم اور زخم پر مسلسل گرتے ہوئے سورجوں کے بم اور پیلیو لوگس کی زبان ، سراسر جہنم اور سامری و مارضحاک کی گردنوں پر جلتے ہوئے خواب اور اوپر آسمان کی کھلی کھڑکی سے جھانکتی ہوئی عیسیٰ کی آنکھ اور آنکھ میں بیٹھی ہوئی مریمؑ اور مریمؑ کی آنکھ میں ٹھہری ہوئی آنسو زمین ، آدمی پاگل ، سارے موسم الٹے پاؤں‘‘۔
محمد مظہر الزماں کے افسانوں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ فنکار جانتا ہے کہ وقت زندگی کا سب سے بڑا کردار ہے اور وہ اس کردار کے ساتھ ساتھ بلکہ ساتھ ہی چلتا رہتا ہے اور پھر ان کے ساتھ حادثوں اور المیوں کے آئینے کو چاروں طرف گھماتا رہتا ہے کہ آئینہ زمین کا چہرہ ہے اور زمین کے اس چہرے پر سرخ و سفید پھولوں کے ساتھ خون کے چھینٹے ہی چھینٹے بکھرے ہوئے ہیں اور ان چھینٹوں میں موسم ، ماحول ، حالات اور لمحے کہانیوں کی صورت گردش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جیسے ایک گھومتا ہوا پیالہ۔
محمد مظہرالزماں خاں کی جو کہانیاں ہیں وہ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتی ہیں، کیونکہ ان میں مظہرالزماں خاں نے سوچنے ، سمجھنے اور بوجھنے کی کئی نفسیاتی مسائل بھی رکھ دیئے ہیں ۔ اہم اور بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ شعوری طور پر یہ مسائل بیان نہیں کرتے، بلکہ واقعات ہی ایسے وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ مسائل اور سوالات آپ ہی آپ ابھرنے اور پیدا ہونے لگتے ہیں اور قاری ان کی کہانیوں میں گم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر کہانی ختم کر کے بھی وہ سوچتے رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ آپ ہی بتائے ہمیں ایسے افسانہ نگار کتنے اور کہاں ہیں؟