ایسا کیوں کرتے ہیں لوگ؟

معراج یوسف علی خان
یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ موجودہ دور میں تعلیمی ترقی زور و شور سے جاری ہے ۔ لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے جان توڑ کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تعلیمی ترقی کتابوں کی حد تک سمٹ کر رہ گئی ہے ۔ حالانکہ تعلیم سے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی ہونی چاہئے تھی ، لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آتا ۔ لوگوں کے خیالات و احساسات اور اخلاقیات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو پھر کسی تقریب میں آزما کر دیکھئے ۔ تقریب کی شروعات کچھ اس انداز سے ہوتی ہے کہ رات دس بجے کے بعد سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اس وقت بھی میزبان ندارد ۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلتا ہے کہ دلہن کو بیوٹی پارلر سے آنے میں دیر ہوگئی ۔ ادھر مہمان اس آس و امید میں جلد چلے آتے ہیں کہ جلد آکر جلد واپسی کو یقینی بنایا جائے ۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ یوں دیکھا جائے تو عموماً رات 10 بجے سونے کا وقت ہوا کرتا ہے ۔ اکثر و بیشتر لوگ 10بجے سونے کے عادی ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ صبح سویرے اٹھ کر اپنے کام کاج اور زندگی کی مصروفیت میں لگ جاتے ہیں اور بعض تو ناسازی مزاج کی وجہ سے جلد سونے کو ترجیح دیا کرتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جلد سونا اور صبح جلد اٹھنا صحت کیلئے مفید ہوا کرتا ہے اور اللہ تعالی کا نظام بھی اسی طرح کا ہے کہ رات کوآرام کرلو اور دن میں اپنی روٹی روزی اور زندگی کے کام پورے کرو ، لیکن تقاریب کا عالم یہ ہے کہ آدھی رات سے شروع ہو کر صبح فجر تک جاری رہتی ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ فجر کی نماز بھی چھوٹ جائے ۔ کیا کریں سماج کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے لوگوں کے ڈر سے ناچاہتے ہوئے بھی تمام رسومات انجام دینے پڑتے ہیں ۔ رات دیر گئے تک جاگنا اور پھر آدھی رات کے بعد چکنائی سے بھرپور غذا کا استعمال صحت کیلئے ٹھیک نہیں ہوا کرتا ۔ اسکے باوجود بھی لوگ ان باتوں پر دھیان نہیں دیتے ۔ آخر میں یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ایسا کیوں کرتے ہیں لوگ‘‘ ؟۔

اتنا ہی نہیں فنکشن ہال میں کرسیوں کا جو arrangement کیا جاتا ہے ، اس کو بکھیرنے میں مہمانوں کا جواب نہیں ۔ بعض لوگ پیچھے یا درمیان میں بیٹھنا شان کے خلاف سمجھتے ہیں ہر صورت میں وہ کسی طرح آگے آکر نوکر یا کام کرنے والوں سے کرسیاں منگوا کر آگے ہی بیٹھتے ہیں ۔ اخلاقی تقاضہ تو یہ ہے کہ آپ کو جدھر جگہ ملے بیٹھ جانا چاہئے ، لوگوں کے بیچ سے ہوتے ہوئے آگے جا کر جگہ بنانا مناسب بات نہیں ۔ اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ جوان نسل بھی بڑوں کی تقلید پر اتر آئی ہے وہ بھی نہیں چاہتی کہ خالی جگہ پر بیٹھے بلکہ اپنے بڑوں کی طرح کرسیوں کو آگے لے جا کر ہی بیٹھتی ہے ، آگے بیٹھنے سے کوئی بڑا اور پیچھے بیٹھنے والا چھوٹا نہیں ہوا کرتا ۔ ایسی انسانی سوچ گری ہوئی حرکت اور جھوٹی شان کم از کم آج کے معاشرے میں یعنی میری مراد تعلیم سے ہے ، اس تعلیم یافتہ دور میں زیب نہیں دیتی ۔ ہاں ہم مانتے ہیں کہ کوئی بزرگ ، عمر رسیدہ ، بڑے لوگوں کیلئے آگے جگہ بنائی جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ۔ اگر آپ آگے بیٹھنے کے خواہشمند ہیں تو پھر وقت پر تشریف لاکر آگے جگہ بنالیں ورنہ پھر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ایسا کیوں کرتے ہیں لوگ‘‘؟۔

یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ شادی میں باجے اور آتشبازی لازمی سمجھی جاتی ہے ۔ آج کل توایک باجے سے کام نہیں چلتا دو قسم کے باجے ضروری سمجھے جارہے ہیں ۔ آتش بازی جو ہوتی ہے وہ آدھی رات کے بعد زوردار دھماکوں سے ہوتی ہے ، جس سے سونے والے نیند سے بیدار ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کی دل کی دھڑکن بھی تیز ہوجاتی ہے ۔ معصوم بچے اور ضعیف لوگ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں ۔ ہم بھی کوئی دودھ کے دھلے نہیں ۔ ہم نے بھی اپنے بچوں کی شادی میں باجے اور آتشبازی کااہتمام کیا تھا البتہ بنا آواز کے بٹاخے استعمال کئے تھے ۔ سچ پوچھئے تو انسان ٹھوکر کھا کر ہی سنبھلتا ہے ۔ سنبھلنے کے بعد خیال آیا کہ ہمیں غیر شرعی رسوم کو ترک کرتے ہوئے اسراف سے بچنا چاہئے ۔ جب اسراف کی بات آہی گئی تو کھانے کے لوازمات پر نظر ڈالتے چلیں ۔ آج کل شادی کے دن کھانے میں یا پھر ولیمہ میں چار قسم کاچکن ، دو تین قسم کا مٹن ، نہاری ، پائے ،

مچھلی ، جھینگے ، دو قسم کے میٹھے اور اس کے بعد آئسکریم وغیرہ یہ سبھی لوازمات میں شامل ہوچکے ہیں ۔ غور کیجئے انسان کس حد تک ان تمام چیزوں کا استعمال کرسکتا ہے ۔ ہوتا یوں ہے کہ ہر چیز بطور ذائقہ لی جاتی ہے اگر پسند نہ آئے تو پھر کچرے کے حوالے کردی جاتی ہے ۔ ایسا کرنا اسراف نہیں؟ اور اسراف اللہ تعالی کو پسند نہیں ۔ اب رہی بات کھانے کی میز تک پہنچنے کی تو اللہ اللہ قیامت کا نظارہ ہوا کرتا ہے ۔ سنتے ہیں قیامت کے دن نفسا نفسی کا ماحول رہے گا ، کوئی کسی کو پہچانے گا نہیں ۔ بالکل اسی طرح ساڑھے دس یا گیارہ بجے سے لوگوں کی نظریں میزبان کی نقل و حرکت پر جمی رہتی ہیں کہ کب میزبان اٹھنے کا اشارہ کردے ۔بعض اوقات ہم نے دیکھا کہ بنا بلائے ہی مہمان کھانے کی میزوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔ خیر جو بھی ہو جب کھانے کیلئے ہری جھنڈی دکھائی جاتی ہے تو پھر سمجھئے کہ بھاگ دوڑ شروع ، کرسیوں کو راستے سے ہٹاتے ، لوگوں کو ڈھکیلتے ہوئے ، بچوں اور بوڑھوں کاکوئی پاس و لحاظ نہیں ۔ بہرحال کھانے کی میز تک جا کر ہی دم لیتے ہیں ۔ کھانے کی میز پر ایک آدمی کا پہنچ جانا بس یوں سمجھئے کہ سارا میز reserve ہوچکا ۔ پیچھے آنے والے سارے میزوں پر نظر دوڑاکر سرجھائے شرمندگی سے واپس لوٹ جاتے ہیں ۔ ان حالات کے پیش نظر ہمیں کھانے کی دعوتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ اکثر دفعہ ہم دعوت سے بنا کھائے ہی لوٹ جاتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو ہمارا جانے کا مقصد صرف دلہا دلہن اور ان کے افراد خاندان کو مبارکباد دینا اور ان کی خوشیوں میں شریک ہونا ہوا کرتا ہے ۔

دراصل خواتین ہی رسوم کوطول دیتی ہیں ، غیر شرعی رسوم کو ترک کرتے ہوئے شادی بیاہ کو سادگی کے ساتھ آسان بنایا جاسکتا ہے ۔ اسکے لئے خاص کر تعلیم یافتہ سمجھدار لوگ آگے آئیں اور دولت مند اپنی دولت کا اظہار شادی بیاہ کے موقع پر نہ کریں ۔ کروڑ ہا روپے کا دان جہیز اور لاکھوں روپیوں کے لوازمات سے بھرپور کھانے کا اہتمام نہ کریں ، کیونکہ سماج کے دوسرے طبقوں پر اسکا اثر پڑتاہے ۔ اتنا جانتے ہوئے بھی ’’ایسا کیوں کرتے ہیں لوگ‘‘ ؟۔