ایران کے تائید ی حوثیوں پر سعودی قیادت میں حملوں کی مخالفت

صنعاء۔ 29 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) اقوام متحدہ نے جنگ زدہ یمن سے اپنے عملہ کا تخلیہ کردیا۔ اس دوران روس نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں ایران کے تائید یافتہ حوثی باغیوں پر سعودی عرب کی قیادت میں فضائی حملوں سے تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جاری نیوکلیئر مذاکرات کا عمل متاثر ہوگا۔ یمن کے صدر عبد ربو منصور ہادی نے اپنے عرب حلیفوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے ملک پر فضائی حملوں کا سلسلہ بدستور جاری رکھیں تاوقتیکہ حوثی باغی خود سپرد نہ ہوجائیں۔ انہوں نے شیعہ حوثیوں کو ایران کے ہاتھ کٹھ پتلی قرار دیا۔ غربت اور قبائیلی وابستگیوں سے دوچار یہ جزیرہ نما عرب ملک القاعدہ کے خلاف امریکہ کی مہم کا ایک اہم محاذ رہا ہے لیکن اب یہ سرزمین مشرق وسطی کی طاقتوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کیلئے اپنے فرضی مہروں کے ذریعہ لڑی جانے والی جنگ کا نیا میدان بن رہا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج عرب کی دیگر شاہی مملکتوں کے زیرقیادت ایک سنی عرب اتحاد دراصل ایران کی حامی کسی حکومت کو یمن کی دہلیز پر پہونچنے سے روکنے کیلئے جنگ میں مصروف ہے، جبکہ حوثی باغیوں نے صدر منصور ہادی کا طاقتور گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی شہر عدن پر اپنی گرفت مضبوط کرلیا ہے۔

منصور ہادی نے گزشتہ روز مصر کے شرم الشیخ میں واضح طور پر کہا تھا کہ ’’میں ایران کے کٹھ پتلیوں اور ان کے ساتھ جو بھی ہیں، ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم بھی ان میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی ناپختہ کاری کے ذریعہ یمن کو تباہ و برباد کیا ہے‘‘۔ منصور ہادی بعدازاں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ ریاض روانہ ہوگئے اور اس وقت تک یمن واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تاوقتیکہ وہاں کی صورتحال ٹھیک نہیں ہوجاتی۔ یمن کے وزیر خارجہ ریاض یٰسین نے کہا کہ ’’حوثیوں نے عرب چوٹی کانفرنس کے اختتام سے قبل کسی بھی طرح عدن پر قبضہ کے ساتھ ایک نئی زمینی حقیقت مسلط کرنے کا منصوبہ بنایا ہے‘‘۔ اس دوران حوثیوں کی مخالف عوامی کمیٹیوں کے جنگجوؤں نے عدن ایرپورٹ پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ اس لڑائی میں ان کے پانچ جنگجوؤں ہلاک ہوگئے۔ روس کے نائب وزیر خارجہ اور ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر اپنے ملک کے مذاکرات اعلیٰ سرجئی ریابکوف نے کہا کہ ماسکو اُمید کرتا ہے کہ یمن میں جاری لڑائی سوئٹزرلینڈ میں تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جاری مذاکرات کو متاثر نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’بدقسمتی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس ملک (یمن) میں جو سانحہ وقوع پذیر ہورہا ہے، اس کے اثرات نیوکلیئر مذاکرات پر مرتب ہوسکتے ہیں‘‘۔