رشیدالدین
اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں لیکن دوسروں کی بھلائی اور ترقی کیلئے خود کو وقف کرنا خدمت خلق کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ ابوالفقیر زین العابدین عبدالکلام نے ملک اور انسانیت کی خدمت کی ایسی مثال قائم کی ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرپائے گی۔ ٹاملناڈو کے پسماندہ علاقہ رامیشورم کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے عبدالکلام نے بچپن سے ہی بلندیوں کو چھونے کا خواب دیکھا تھا۔ ان کی محنت ، لگن اور صلاحیتوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور اخبار فروخت کرنے والے لڑکے کو ملک کے اعلیٰ ترین دستوری عہدہ تک پہنچا دیا۔ اے پی جے عبدالکلام آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن انہوں نے ملک کے کونے کونے میں طلبہ اور نوجوانوں کو اپنی طرح تیار کرنے کی کوشش کی اور آخری سانس تک بھی وہ اسی مشن پر قائم رہے۔ ڈاکٹر کلام نے ملک کو کئی اہم شعبوں میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کردیا۔ ان کا ماننا تھا کہ جب تک ہندوستان طاقتور نہیں ہوگا ، اس وقت تک اس کی آواز سنی نہیں جائے گی۔
سائنسداں ہونے کے ساتھ ساتھ عبدالکلام ایک بہترین انسان بھی تھے۔ سادگی اور انکساری کے پیکر عبدالکلام عوامی صدر کی حیثیت سے مقبول ہوئے اور وہ ملک کی تاریخ کے سب سے معروف اور پسندیدہ صدر جمہوریہ رہے۔ ان کی صلاحیتوں کی ساری دنیا معترف تھی۔ اندرون ملک بعض جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو بھی ان کے احترام میں سرنگوں ہونا پڑا۔ نیوکلیئر ، میزائیل ، خلائی ٹکنالوجی، میڈیسن ، سائنس و ٹکنالوجی، انفارمیشن ٹکنالوجی، تعلیم ، الغرض زندگی کا ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جس میں ڈاکٹر کلام کی صلاحیتوں کا دخل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں خود کو طاقتور ترین سمجھنے والے ملک امریکہ کو بھی وائیٹ ہاؤز پر اپنا قومی پرچم سرنگوں کرنا پڑا۔ اس طرح دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی ڈاکٹر کلام کی صلاحیتوں کے آگے جھک گئی۔ امریکہ کی تاریخ کا شاید یہ پہلا واقعہ ہے ، جب کسی ہندوستانی قائد کے احترام میں وائیٹ ہاؤز پر قومی پرچم سرنگوں کیا گیا۔ ڈاکٹر کلام نے یہ ثابت کردیا کہ صلاحیتوں اور قابلیت کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا اور ترقی کی راہیں بڑھ کر باصلاحیت افراد کا استقبال کرتی ہیں۔ ملک میں مٹھی بھر تعصب پرست عناصر کے باوجود ملک کا دستور اس قدر وسیع ہے کہ وہ ہر مذہب کے ماننے والے کیلئے ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ دستور ہند کی یہی خوبی ساری دنیا میں ہندوستان کا سر فخر سے اونچا کئے ہوئے ہے۔ عبدالکلام کا رشتہ ملک اور قوم کے ساتھ ہمیشہ احسان کا رہا جنہوں نے ہر ہندوستانی کے دل میں جگہ بنالی تھی۔ ڈاکٹر کلام نے ایسے وقت میزائیل ٹکنالوجی کو کامیابی سے ہمکنار کیا ، جب کئی برسوں کی ناکامیوں سے دفاعی سائنسداں مایوس ہوچکے تھے ۔ ڈاکٹر کلام نے نہ صرف میزائیل کا تجربہ کامیاب کیا بلکہ مختلف نئے میزائیلس کو زائد صلاحیتوں کے ساتھ کامیابی سے تیار کیا۔ اس طرح وہ ہندوستان کے میزائیل میان بن گئے۔ اٹل بہاری واجپائی کے دور میں پوکھرن II نیوکلیئر تجربے میں ڈاکٹر کلام کی صلاحیتوں کا بڑا دخل ہے اور یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تجربہ کی کامیابی اے پی جے عبدالکلام کلام کی مرہون منت ہے ۔ غربت اور کرپشن کا خاتمہ ان کا خواب تھا اور سیاستدانوں کو مشورہ دیتے کہ صرف 30 فیصد وقت سیاست پر صرف کریں اور 70 فیصد وقت ملک کی تعمیر اور عوامی بھلائی پر صرف کریں۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے صدر جمہوریہ کے عہدہ سے سبکدوشی کے بعد بھی خود کو تعلیم و تدریس کے مشن سے جوڑے رکھا۔ انہوں نے ماہر امراض قلبط ڈاکٹر سوما راجو کے ساتھ ملک کر قلب کے مریضوں کیلئے کم لاگتی Stent تیار کیا تاکہ غریب مریضوں کا فائدہ ہو۔ میزائیل ٹکنالوجی کی کامیابی کے بعد اچانک دفاعی تحقیقی ادارہ سے ہٹائے جانے پر ڈاکٹر کلام کسی قدر رنجیدہ ضرور تھے لیکن انہوں نے حوصلوں کو پست نہیں کیا۔ ڈاکٹر کلام کے کارناموں سے ان کیلئے بھارت رتن کا اعزاز بھی معمولی ہے کیونکہ وہ حقیقی معنوں میں ہندوستان کے انمول رتن تھے۔ ان کی زندگی سے عزم و حوصلے میں اضافہ کا درس ملتا ہے۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ اپنی صلاحیت اور قابلیت کے ذریعہ ناگزیر بن جائیں تو ترقی خود قدم چومے گی۔ مخالفین بھی صلاحیتوں کے اعتراف پر مجبور ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر کلام اسلام کے ساتھ دیگر مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرچکے تھے اور انہوں نے خلفائے راشدین کی زندگی سے درس لیتے ہوئے صدر جمہوریہ جیسے جلیل القدر عہدہ پر سادگی کو برقرار رکھا۔ ان کے کئی واقعات آج کے سیاستدانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔ ایک بار ان کے رشتہ داروں نے کچھ دن کے لئے راشٹرپتی بھون میں قیام کیا تو ڈاکٹر کلام نے سارا خرچ ادا کیا ، حتیٰ کہ چائے کا معاوضہ بھی ادا کردیا۔
اس کا انکشاف ان کی سبکدوشی کے بعد ہوا۔ راشٹرپتی بھون میں دعوت افطار کے بجائے اس کی رقم یتیم خانوں کے بچوں پر خرچ کی اور اپنی جانب سے ایک لاکھ روپئے شامل کئے ۔ ان کی سبکدوشی کے بعد جب سامان کی منتقلی کیلئے اسٹاف گاڑیوں کے ساتھ پہنچا تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ صرف ایک سوٹ کیس اور کچھ سامان منتقلی کا منتظر تھا۔ ڈاکٹر کلام کی صلاحیتوں کا نتیجہ تھا کہ این ڈی اے حکومت نے انہیں صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز کیا۔ اس جلیل القدر اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدہ پر ماموری حکومت یا این ڈی کا کوئی احسان نہیں تھا بلکہ ڈاکٹر کلام نے اس ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے نہ صرف عہدہ کی شان میں اضافہ کیا بلکہ ملک کے وقار کو دنیا بھر میں سربلند رکھا۔ ڈاکٹرکلام کی زندگی سے مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو درس ملتا ہے کہ وہ حالات کا رونا رونے کے بجائے خود میں صلاحیت پیدا کریں تاکہ ہر شعبہ میں ناگزیر بن جائیں۔ مسلمان ایک زندہ قوم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں داعی کے منصب پر فائز کیا ہے لہذا تحفظات ، مراعات ، مہربانی یا احسانات کی پرواہ کئے بغیر قابلیت پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں آج بھی مسلمان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، چاہے وہ فلم ہو یا کھیل۔ سائنس ہو یا میڈیسن۔ سیاست ہو یا اڈمنسٹریشن۔ کسی کے انتقال پر اکثر رسمی طور پر یہ جملہ ادا کیا جاتا ہے کہ ’’انتقال سے خلاء پیدا ہوگیا جس کا پر ہونا مشکل ہے‘‘۔ یہ جملہ حقیقی معنوں میں ڈاکٹر عبدالکلام کے انتقال پر صادق آتا ہے۔
ہندوستان اپنے مقبول رہنما ڈاکٹر عبدالکلام کی جدائی کے غم میں تھا اور ایک طرف ٹاملناڈو کے رامیشورم میں ان کی تدفین کی تیاریاں جاری تھیں تو دوسری طرف مہاراشٹرا کے ناگپور میں 1993 ء ممبئی بم دھماکوں کے ملزم یعقوب میمن کو عدالت کے حکم پر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ اگرچہ سزا کی تکمیل سے قبل ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے پھانسی کے وقت سے 3 گھنٹے قبل بھی درخواست رحم کی سماعت کی اور اپنی غیر جانبداری کا ثبوت دیا لیکن قانونی سیاسی مبصرین ابھی بھی قانونی کارروائیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران ان تمام قانونی قواعد کی تکمیل نہیں کی گئی جن کے ذریعہ یعقوب میمن کی سزا کو کم کیا جاسکتا تھا۔
ماہرین نے قانونی امور کی تکمیل میں مروجہ طریقہ کار سے انحراف کی شکایت کی ہے جس طرح انصاف میں تاخیر ، انصاف سے محروم کرنے کے مترادف ہے، ٹھیک اسی طرح 100 گناہ گار سزا سے بچ جائیں تو پرواہ نہیں لیکن ایک بے گناہ کو سزا نہیں ملنی چاہئے اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یعقوب میمن ممبئی بم دھماکوں میں راست طور پر ملوث نہیں تھے۔ حتیٰ کہ ان کے خود سپرد ہونے اور گرفتاری کا معاملہ بھی ابھی تک ایک معمہ ہے۔ ان باتوں کے قطع نظر سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف پسند سماج اور حقوق انسانی کے جہد کاروں کیلئے مایوسی کا سبب بنا جنہوں نے لمحہ آخر تک میمن کی پھانسی کو ٹالنے کی کوشش کی ۔ تحقیقات ایجنسیوں یعقوب میمن کے ملوث ہونے کے بارے میں لاکھ دعوے پیش کریں لیکن ہندوستانی خفیہ ایجنسی Raw کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار نے میمن کی خودسپردگی اور تحقیقات میں تعاون کا اعتراف کیا۔ اس عہدیدار نے بم دھماکوں سے میمن کے بے قصور ہونے کی بات کہی ہے لیکن افسوس کہ تحقیقاتی ایجنسیوں اور عدلیہ نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ملک کے کئی سابق ججس اور ماہر قانون داں نے یعقوب میمن کے مقدمہ کے سلسلہ میں قانونی رواج اور طریقوں کو پس پشت ڈالنے کی شکایت کی ہے۔
سزائے موت کے خلاف 300 سے زائد اہل دانش افراد نے صدر جمہوریہ سے اپیل کی کہ لیکن ایسا محسوس ہورہا تھا کہ مرکز اور مہاراشٹرا کی بی جے پی حکومتوں نے یعقوب میمن کو پھانسی دینے کا من بنالیا ہے ۔ جس طرح سابق میں افضل گرو اور اجمل قصاب کو پھانسی کے ذریعہ سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی اسی طرح میمن کی پھانسی کے مسئلہ کو ہوا دیتے ہوئے ملک کے دیگر سلگتے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی ۔ حکومت کی ناکامیوں اور مختلف اسکامس کے خلاف پارلیمنٹ کی کارروائی نہیں چل رہی ہے ۔ ایسے میں یعقوب میمن کی پھانسی پر عمل آوری میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش کی گئی ۔ جس طرح ایک ہی دن میں صدر جمہوریہ اور گورنر مہاراشٹرا کی جانب سے رحم کی درخواست مسترد کی گئی، اس پر قانونی ماہرین نے سوال اٹھائے ہیں۔ صدر جمہوریہ نے رحم کی درخواست مسترد کرنے سے پہلے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے تفصیلی مشاورت کی۔ بتایا جاتا ہے کہ مرکزی حکومت نے صدر جمہوریہ کو رحم کی درخواست مسترد کرنے کی سفارش کی تھی۔ مہاراشٹرا حکومت نے پھانسی کی تاریخ اور وقت پہلے ہی طئے کردیا تھا اور اس مشن کی تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے مقررہ وقت سے پہلے ہی پھانسی دیئے جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔ بی جے پی اگر یعقوب میمن کی پھانسی کو بہار اسمبلی انتخابات میں سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کی بھول ہوگی۔ عوام باشعور ہیں اور بہار میں بی جے پی کا حشر دہلی کی طرح ہوگا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیوں کو اس بات پر غصہ تھا کہ یعقوب نے داؤد ابراہیم اور ٹائیگر میمن کے ٹھکانوں کا پتہ نہیں بتایا۔ ظاہر ہے کہ جب یعقوب میمن ہندوستان آئے اور قانونی کارروائی کا سامنا کیا تو داؤد ابراہیم اور ٹائیگر میمن نے اپنا ٹھکانہ یقینی طور پر تبدیل کرلیا ہوگا۔ جب میمن کو ٹھکانہ کا پتہ ہی نہیں تو وہ کس طرح بتاسکتے تھے۔ اسی بنیاد پر عدالت میں چارج شیٹ داخل کی گئی اور استغاثے کی دلیلوں کی بنیاد پر عدالت نے موت کی سزا سنائی۔
یعقوب کی پھانسی کے بعد بھی کئی قانونی سوال ابھی بھی برقرار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی دن میں دو مسلمانوںکی تدفین ہوئی لیکن دونوں کی موت اور تدفین کی نوعیت میں واضح فرق تھا۔ ایک شخصیت وہ کہ جس نے ملک پر احسانات کئے تھے تو دوسرا وہ جس پر ملک میں تباہی پھیلانے کا الزام تھا۔
عبدالکلام کی فوجی اعزازات اور ملک کی اہم شخصیتوں کی موجودگی میں تدفین کی گئی جہاں ہزاروں سوگوار بھی تھے جبکہ یعقوب میمن کی تدفین کے وقت پولیس تو موجود تھی لیکن وہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کی نگرانی کر رہی تھی۔ جنازہ میں چند افراد خاندان ضرور تھے لیکن ہزاروں افراد اس خاندان کی بے بسی پر آنسو بہانے کیلئے جمع ہوئے تھے۔ اسے محض اتفاق کہا جائے یا کچھ اور کہ میمن کی سالگرہ کے دن انہیں پھانسی دی گئی۔ اس طرح سالگرہ کا دن منتخب کرتے ہوئے ان کے اور ان کے خاندانوں والوں کیلئے دہری تکلیف کا سامان کیا گیا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ڈاکٹر عبدالکلام ملک میں سزائے موت کے سخت خلاف تھے لیکن ان کی تدفین کے دن ہی میمن کو پھانسی دی گئی ۔ کیا حکومت کے نزدیک عبدالکلام کا یہی احترام ہے کہ ان کے نظریات کی کھلی خلاف ورزی کی جائے؟ حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ ڈاکٹر کلام کے سوگ میں پھانسی کی تاریخ کو کسی اور دن کیلئے ٹال دیتی ۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
اٹھ کے اس ہنستی ہوئی دنیا سے جاسکتا ہوں میں
اہل محفل کو مگر مرا بدل بھی چاہئے