اگر دنگائیوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا

انسانی قتل کا سلسلہ رکے گا کیسے ؟
مودی کا اظہار افسوس یا حملوں کی حوصلہ افزائی

رشیدالدین
مودی راج میں عدم رواداری کے بڑھتے واقعات اور گاؤ رکھشا کے نام پر بے قصور و معصوم مسلمانوں کے قتل کا سلسلہ آخر کب رُکے گا۔ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق ایک طرف جمہوریت پسند طاقتیں انسانیت سوز واقعات پر احتجاج کے ذریعہ حکومت کو اس کے فرائض یاد دلانے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف حکومت کی بے حسی کی آڑ میں جارحانہ فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیوں میں روز افزوں اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے نریندر مودی حکومت نے گائے رکھشکوں کے بھیس میں موجود دہشت گردوں کو لائسنس دے رکھا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کسی بھی واقعہ کے بعد خاطیوں کے خلاف کارروائی اور احتیاطی اقدامات کے بجائے حکومت اور بی جے پی کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات جاری کئے جاتے ہیں تاکہ اشرار کی حوصلہ افزائی ہو۔ ستمبر 2015 ء کو دادری میں اخلاق حسین کے بہیمانہ قتل سے شروع ہوا قتل و خون کا یہ کھیل ملک کی مختلف ریاستوں بالخصوص بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں جاری ہے ۔ رمضان المبارک میں بھی ظالموں کو روزہ داروں پر رحم نہیں آیا اور ہریانہ میں 16 سالہ جنید اور ان کے بھائیوں پر چاقوؤں سے حملہ کیا گیا۔ چلتی ٹرین میں مسافرین کی بھیڑ کے درمیان ہوئے اس حملہ میں جنید کی موت واقع ہوگئی۔ جنید کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ جھارکھنڈ میں ایک مسلمان کے گھر کو آگ کے حوالے کردیا گیا۔ آخر ان مسلمانوں کا قصور کیا ہے؟ گائے کے نام پر کیوں انسانوں کی جان لی جارہی ہے ۔ جن علاقوں میں مسلم اقلیت کی آبادی کم ہے ، وہاں انہیں آسانی سے شکار بنایا جارہا ہے۔ روزانہ ملک کے کئی حصوں میں مسلمان ظلم کا شکار ہیں اور قانون کی حکمرانی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ایسے میں حکومت اور حکمرانوں پر انحصار کرنا نادانی بلکہ خودکشی کے مترادف ہے۔ ان حالات میں اب بیوہ کی طرح آہ و بکا کرنے سے کام نہیں چلے گا ۔ پانی چونکہ سر سے اونچا ہوچکا ہے، لہذا جمہوریت اور قانون کے دائرہ میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ یہی ایک واحد راستہ ہے جس کے ذریعہ گاؤ رکھشکوں کو ظلم سے روکا جاسکتا ہے ۔ اگر خاموشی سے ظلم سہتے جائیں تو اس سے ظالم کی مدد ہوگی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ مظلوم اور ظالم کی مدد کرو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ مظلوم کی مدد کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد کس طرح کی جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ظالم کو ظلم سے روک دو یہی اس کی مدد ہے۔ معاشرہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف صف آراء ہوجائے۔

ظلم بھلے کسی مذہب کے ماننے والوں پر کیوں نہ ہو دراصل یہ انسانیت پر ظلم ہے ۔ کوئی طبقہ یہ سوچ کر اپنی خیر نہ منائے کہ ہم تو محفوظ ہیں۔ آج کسی کی تو کل ان کی باری آسکتی ہے۔ حالیہ واقعات میں کسی ایک نے بھی سماج میں ظالم کا ہاتھ تھامنے اور مظلوم کی مدد کی کوشش نہیں کی۔ سماج میں فرقہ پرستی کا زہر کچھ اس طرح گھول دیا گیا ہے کہ لوگ تماش بین بن جاتے ہیں یا پھر زعفرانی بریگیڈ کے خوف کا شکار ہیں۔ ان حالات میں صرف مزاحمت کا راستہ جسے حفاظت خود اختیاری کہا جاتا ہے، واحد حل دکھائی دے رہا ہے ۔ دستور اور قانون نے اس کی اجازت دی ہے اور حفاظت خود اختیاری کے تحت کی گئی کارروائی مستوجب سزا نہیں، لہذا مظلوم طبقات کو اپنی حفاظت آپ کے فارمولے کو اختیار کرنا ہوگا۔ دستور اور قانون نے انسانی جان کو بڑی اہمیت دی ہے اور اس کے اتلاف سے بچانے ہر شہری کو اپنے بچاؤ کا اختیار دیا ہے ۔ دستور اور قانون کی آڑ میں آر ایس ایس نے ملک بھر میں اپنی شاکھاؤں کا جال بچھادیا ہے جہاں سیلف ڈیفنس کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی جانب سے باقاعدہ ہتھیار چلانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ 125 کروڑ کی آبادی میں جب100 کروڑ ہندو ہیں تو پھر ان کو خطرہ کس سے ہے۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کو اپنے لئے خطرہ تصور کرنا مضحکہ خیز ہے۔ ان تنظیموں کی سرگرمیوں پر کسی بھی حکومت نے پابندی عائد کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ قانون کے دائرہ میں حفاظت خود اختیاری کی گنجائش موجود ہے۔ اگر اسی طرح کی تربیت کا اہتمام کسی مسلم ادارہ کی جانب سے کیا جائے تو اس پر امتناع اور ملک سے غداری کا الزام عائد کردیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے تربیت یافتہ افراد تو دیش بھکت اور کسی مسلم تنظیم کا کارکن ہو تو دیش دروہی ۔ یہ ملک کا عجیب قانون ہے ۔ قانون کو نافذ کرنے والے ادارے اور عدلیہ کے نقطہ نظر میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ صرف احتجاج سے قتل و خون کا یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے ۔ واقعات کا تدارک خود اپنے ہاتھ میں ہے۔ کم سے کم مزاحمت کا احساس تو دلانا ہوگا ۔ حفاظت خود اختیاری کا مقصد ہتھیار اور اس کی ٹریننگ نہیں بلکہ مزاحمت کیلئے جذبہ ہی کافی ہے۔ علامہ اقبال کے بقول ’’نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ ۔ سماج میں اس جذبہ کی ضرورت ہے کہ انسانیت کے ناطے کسی مظلوم اور بے قصور کا خون بہنے نہ پائے۔

گزشتہ 22 ماہ میں عدم رواداری اور گائے کے نام پر حملوں کے 19 واقعات پیش آئے جن میں دو واقعات کو چھوڑ کر باقی میں مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا گیا۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خون کی کوئی اہمیت نہیں۔ پانی مہنگا ہے لیکن مسلمانوں کے خون کی قیمت نہیں ہے ۔ اسلامی تاریخ ان واقعات اور مسلمانوں کی عزیمت کے کارناموں سے بھری پڑی ہیں ، جب دنیا کو مسلمانوں کے خون کی قیمت معلوم تھی ۔ جنگی ساز و سامان سے محروم 313 نفوس قدسیہ ایک ہزار کے لشکر پر بھاری تھے جو ہتھیاروں سے لیس تھا۔ آخر یہ کیا راز تھا کہ بے سر و سامانی کے عالم میں بھی فتح و کامرانی مسلمانوں کے حصہ میں تھی ۔ آج ہمیں اسی جذبہ کی ضرورت ہے اور مسلمان اسلام اور اسلامی تعلیمات کو اپنا شعار بنائیں۔ دوسری طرف ہریانہ میں جنید کی ہلاکت کے ایک ہفتہ بعد وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی خاموشی کو توڑا اور گاؤ بھکتی کے نام پر عوامی ہلاکتوں کو ناقابل قبول قرار دیا۔ ایک ہفتہ بعد سہی نریندر مودی کو ہلاکتوں کا خیال تو آیا۔ دادری میں اخلاق کے قتل کے 8 دن بعد مودی نیند سے بیدار ہوئے تھے ۔ وزیراعظم کا یہ تبصرہ اور اظہار افسوس محض رسمی ہے اور حالات میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔ مودی کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد جھارکھنڈ میں ایک مسلم شخص کو ہجوم نے حملہ کر کے ہلاک کردیا ۔ اس طرح وزیراعظم کے بیان سے حالات سدھرنے کے بجائے مزید بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اخلاق کے قتل کے بعد نریندر مودی کے بیان سے حملوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا تو پھر جنید کے واقعہ کے بعد کس طرح توقع کی جاسکتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وزیراعظم اظہار افسوس کر رہے ہیں یا پھر شرپسندوں کی حوصلہ افزائی ۔ وزیراعظم کا کام افسوس کرنے سے زیادہ کارروائی کرنا ہے۔ اس طرح کا بیان کوئی اپوزیشن لیڈر دے تو سمجھ میں آئے گا لیکن جس کے ہاتھ ملک کا اقتدار ہو، وہ اس طرح کا بیان دیں تو کمزوری ظاہر ہوتی ہے ۔ دراصل حکومت کا ریموٹ کنٹرول تو سنگھ پریوار کے ہاتھ میں ہے اور حکومت میں شامل افراد محض کٹھ پتلی ہیں۔ 56 انچ کا سینہ رکھنے والے نریندر مودی نے آج تک زعفرانی بریگیڈ کے خلاف بیان دینے کی ہمت نہیں کی ۔ گجرات کے سابرمتی آشرم کی تقریب میں مودی نے حملوں پر افسوس کم گاؤ رکھشا کے حق میں پرچار زیادہ کیا۔ انہیں اس تقریب میں گاؤ رکھشا کی اہمیت اور ملک بھر میں نفاذ کے تذکرہ کی ضرورت کیوں پڑگئی۔ گاندھی اور ونوبھا بھاوے کو گاؤ رکھشا سے جوڑ کر مودی نے کس کے حوصلے بلند کئے ہیں، کہنے کی ضرورت نہیں۔ مودی نے دراصل عیدالاضحیٰ سے قبل گاؤ رکھشا کا ایجنڈہ طئے کردیا ہے۔ گجرات میں جاریہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کا ایجنڈہ بھی مودی نے گاؤ رکھشا کے تذکرہ کے ذریعہ طئے کیا۔ عید الاضحیٰ سے عین قبل صورتحال بگاڑنے کی سازش کی جاسکتی ہے۔ مودی نے گجرات میں یہ پیام دینے کی کوشش کی کہ تمام طبقات کو گاؤ رکھشا اور گاؤ بھکتی کو اختیار کرنا ہی پڑے گا ، اسی میں ان کی بھلائی ہے۔ مودی کے یہ تیور حال ہی میں مرکز کے اس قانون کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں ذبیحہ کیلئے جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے ۔ بیف پر پابندی عائد کرنے والی حکومت کو بیف اکسپورٹرس سے دوستی ترک کرنی چاہئے۔ کیا بی جے پی ملک کے بڑے بیف اکسپورٹرس سے الیکشن فنڈ حاصل نہیں کرے گی؟ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کو سب سے زیادہ فنڈس بیف اکسپورٹرس کی جانب سے وصول ہوتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیف پر پابندی کا مقصد صرف مسلم تاجروں کو نشانہ بنانا ہے جبکہ درپردہ طور پر اپنے قریبی افراد کو اس کی اجازت دی جائے گی ۔ ملک میں جاری ہلاکتوں پر نریندر مودی کو اتنا ہی افسوس ہے تو انہیں من کی بات پروگرام میں اس پر گفتگو کرنی چاہئے ۔ مودی کو من کی بات میں ایمرجنسی کے تذکرہ کیلئے وقت ہے۔ وہ اس لئے کہ ایمرجنسی کے نام پر کانگریس کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے لیکن عدم رواداری اور ہلاکتوں کی ان کے پاس کوئی اہمیت نہیں۔ کیا یہی ہے اچھے دن اور سب کا ساتھ سب کا وکاس جس کا مودی نے 2014 ء میں وعدہ کیا تھا ۔ منور رانا نے ہلاکتوں پر اپنی ناراضگی کا کچھ اس طرح اظہار کیا جس میں حکومت کیلئے پیام بھی ہے ؎
اگر دنگائیوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا
تو سن لے حکومت ہم تجھے نامرد کہتے ہیں