کرنسی مسئلہ پر سپریم کورٹ عام آدمی کے ساتھ
مودی پارلیمنٹ سے دور… ممتا اور کجریوال کا الٹی میٹم
رشیدالدین
کرنسی کے مسئلہ پر عوام کو سڑکوںاور قطاروں میں دیکھ کر مودی خوش ہیں اور وہ عوام کے دکھ درد کو محسوس کرنے کے بجائے مصیبت اور پریشانی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ نریندر مو دی جو خود کو چائے والے سے وزیراعظم تک پہنچنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہوں نے کرنسی کی تنسیخ کو ’’کڑک چائے‘‘سے تعبیرکیا لیکن شائد انہیں پتہ نہیں کہ یہ کڑک چائے عام آدمی کیلئے سلو پائزن بن چکی ہے۔ کاش مودی عوام کو چائے تقسیم کرنے سے قبل خود اس کا مزہ لیتے۔ مودی اپنے فیصلے کے خلاف کچھ بھی اور کسی کی سننے تیار نہیں۔ عوام تو کجا وہ اپوزیشن کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے ہیں۔ ا یسے وقت جبکہ عاملہ اور مقننہ عوام کیلئے راحت کا سامان نہیں کرسکے، عدلیہ نے اپنا حق ادا کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے عوام کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف حکومت کی سرزنش کی بلکہ اندیشہ ظاہر کیا کہ موجودہ صورتحال میں کرنسی کیلئے فسادات رونما ہوسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکومت کی اس اپیل کو مسترد کردیا کہ کرنسی کی تنسیخ کے خلاف ملک کے مختلف ہائیکورٹس اور تحت کی عدالت میں درخواستوں کو قبول نہ کیا جائے۔ عدالت نے یہ کہتے ہوئے عوام کے دکھ درد کی ترجمانی کی ہے کہ ہم عوام کیلئے اپنے دروازے بند نہیں کرسکتے کیونکہ عوام مصیبت سے راحت کیلئے عدالت سے رجوع ہوتے ہیں۔سپریم کورٹ کے تیور یقیناً مودی حکومت کی آنکھ کھولنے کیلئے کافی ہیں۔دوسری طرف غیر معلنہ مالیاتی ایمرجنسی کے ذریعہ عدم استحکام اور نراج کی صورتحال کے خلاف اپوزیشن جماعتیں حرکت میں آچکی ہیں۔ پارلیمنٹ اور اس کے باہر حکومت کو گھیرنے کا آغاز ہوچکا ہے اور دوسری طرف کرنسی کی تبدیلی کیلئے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے عام آدمی کو حکومت کے خلاف ووٹ کے ذریعہ اپنے فیصلہ کا انتظار ہے۔ مالیاتی عدم استحکام سے جڑے اس مسئلہ پر اپوزیشن نے راشٹرپتی بھون تک مارچ کیا اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی کو روک دیا۔ 500 اور 1000 کے کرنسی نوٹس کی اچانک تنسیخ سے عوام میں جیسے افرا تفری مچ گئی اور اپنی محنت کی کمائی کے تحفظ کے لئے بینکوں کی قطار میں ٹھہر گئے ۔ اب جبکہ اپوزیشن نے عوام کی آواز، تکالیف اور درد کو حکومت تک پہنچانے کی ٹھان لی ہے تو امکان ہے کہ یہ باقاعدہ عوامی تحریک کی شکل اختیار کرلے گی ۔ عوام اور زمین سے جڑی دو شخصیتوں ممتا بنرجی اور اروند کجریوال نے حکومت کو فیصلہ سے دستبرداری کیلئے تین دن کا الٹی میٹم دیا ہے جو یقیناً انقلابی فیصلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ نریندر مودی حکومت کے عوام دشمن فیصلہ سے عام آدمی عاجز آچکا ہے اور کرنسی کی تبدیلی میں ناکامی اور بینکوں سے مایوسی نے خاموشی کو برہمی میں تبدیل کردیا ۔ اپوزیشن جماعتیں اگر دیانتداری کے ساتھ عوام سے جڑ جائیں تو ناراضگی سڑکوں پر نظر آئے گی ۔ نریندر مودی جنہوں نے گجرات سے دہلی تک کے سیاسی سفر میں کبھی عوامی برہمی کا سامنا نہیں کیا لیکن کرنسی کے مسئلہ پر عوامی غیض و غضب کی گرمی کا اثر نریندر مودی کو ضرور محسوس ہوگا۔ اندرا گاندھی کے ایمرجنسی نفاذ کے بعد جس طرح عوام سہمے ہوئے تھے، آج وہی خاموشی ہے ۔ حکمراں اکثر اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ آواز کے سناٹے اور سناٹے کی بھی آواز ہوتی ہے۔ نریندر مودی حکومت عوامی خاموشی کو کمزوری یا پھر فیصلہ کی تائید تصور نہ کریں۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف جئے پرکاش نارائن اور مرارجی دیسائی نے آواز بلند کی تو انقلاب کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور خاتون آہن اندرا گاندھی کو شکست کا سامناکرنا پڑا۔ آج تاریخ خود کو دہرانے کیلئے بے چین دکھائی دے رہی ہے۔ خود کو سردار پٹیل یا آئرن میان تصور کرنے والے مودی کا بھرم ٹوٹ سکتا ہے۔
مودی کو عوام نے 2014 ء میں جس بھاری اکثریت سے اقتدار عطا کیا تھا، سیاسی مبصرین انہیں ناقابل تسخیر تصور کرنے لگے تھے۔ اپوزیشن بھی اس اکثریت کے آگے بے بس دکھائی دے رہا تھا لیکن اقتدار کے ٹھیک ڈھائی برس میں مودی کو اکثریت اور اقتدار راس نہیں آیا اور اپنے غلط فیصلوں سے اپوزیشن کے مردہ جسم میں روح پھونکنے کا کام کیا۔ دولت ، شہرت اور اقتدار ایسے عناصر ہیں کہ ان کے حصول کے بعد بہت کم لوگ ہی بے قابو ہونے سے بچے رہتے ہیں، ورنہ بہت سوں کو ’’یہ کھیر نہیں پچتی‘‘ جس طرح مودی حکومت نے اچانک عوام دشمن فیصلہ سے عام آدمی کو سڑکوں پر لا دیا۔ اب انہیں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے ۔ وہ کروڑہا افراد جنہوں نے خون پسینہ کی کمائی پائی پائی کر کے جمع کی ۔ اب انہیں اپنی کمائی حاصل کرنے سڑکوں پر دھکے کھانے پڑ رہے ہیں۔ گھریلوں خواتین جنہوں نے کبھی بینک یا اے ٹی ایم کی صورت نہیں دیکھی ، وہ دو چار ہزار کیلئے گھنٹوں قطار میں ٹہرنے پر مجبور ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے مودی کو اقتدار سے نوازا ۔ نریندر مودی کے اس فیصلہ پر ماہرین معاشیات بھی چپ ہیں، حتیٰ کہ دو سابق گورنر آر بی آئی سبا راؤ اور رگھورام راجن نے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ حکومت نے بعض ٹی وی چیانلس اور اخبارات کو اپنے حق میں پرچار کیلئے خریدلیا ہے۔ کرنسی نوٹ کی تنسیخ کا فیصلہ صرف اور صرف نریندر مودی کا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ وزیر فینانس ارون جیٹلی کو بھی اس فیصلہ سے تاریکی میں رکھا گیا۔ موجودہ گورنر ریزرو بینک جن سے یہ سارے معاملات وابستہ ہیں، وہ خود بھی خاموش ہیں۔ کرنسی سے متعلق فیصلوں کا اعلان گورنر آر بی آئی کو کرنا چاہئے۔ نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا اور دیش بھکتی کے دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کردیا۔ آخر ملک کو معاشی بدحالی کا شکار کرتے ہوئے مودی کس سمت لیجانا چاہتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ہندوستان میں یونان سے بدتر حالات پیدا ہوں گے۔ ہندوستان کی مملکت کی حیثیت دنیا بھر میں مشکوک ہوجائے گی۔ نریندر مودی کے اس ناعاقبت اندیش فیصلہ نے دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی کا سامان کیا ہے۔ وزیراعظم نے جس طرح قطار میں کھڑے افراد کو کالا دھن رکھنے والوں سے منسوب کیا ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قطاروں میں کھڑے ہوئے غریب اور متوسط افراد چور ہیں۔ ملک کے 86 فیصد عوام کو کالا دھن رکھنے والا قرار دیا گیا۔ دنیا میں یہ پیام گیا کہ ہندوستان کی معیشت دراصل کالے دھن سے چلتی ہے۔
کالے دھن کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کے نام پر کرنسی نوٹ منسوخ کئے گئے لیکن عوام نریندر مودی کی ان تقاریر کو بھولے نہیں ہیں ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کالا دھن سوئز بینک میں ہے اور ان کی حکومت اسے واپس لائے گی۔ ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے کا بھی وعدہ تھا۔ بیرون ملک سے کالا دھن لانے کی ہمت تو نہیں لیکن اندرون ملک عوام کے گھروں سے محنت کی کمائی چھینی جارہی ہے ۔ یہ آپ کی یا حکومت کی نہیں بلکہ عوام کی ملکیت ہے۔
حکومت کو کس قانون اور دستور کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عوامی کھاتوں پر پابندی اور حد مقرر کرے۔ وزیراعظم کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں۔ عوام اپنی محنت کی کمائی نکالنے کیلئے کیا حکومت سے بھیک مانگیں؟ حکومت کے ڈھائی برس کی تکمیل 16 نومبر کو ہوئی اور اسی وقت مودی نے عوام کو یہ تحفہ دیا ۔ کالا دھن لانا ہو تو وجئے مالیا اور للت مودی کو وطن واپس لائیں جو ہزاروں کروڑ لوٹ کر ملک کے باہر عیش کر رہے ہیں۔ امبانی اور اڈانی کے کالے دھن پر نظر کیوں نہیں ؟ بی جے پی کے ہمدرد صنعت کار گالی جناردھن ریڈی نے کرنسی بحران میں لڑکی کی شادی پر 500 کروڑ خرچ کئے لیکن مودی حکومت خاموش ہیں ۔ عام آدمی 50000 اکاؤنٹ میں ڈپازٹ کرے تو انکم ٹیکس کو اطلاع دی جارہی ہے لیکن 500 کروڑ کا کوئی حساب نہیں۔ کرنسی بحران نے 40 افراد کی جان لے لی اور غریبوں کے پاس فاقے ہیں، اس کیلئے ذمہ دار کون ہیں۔ اس صورتحال پر غلام نبی آزاد نے تبصرہ کیا کہ دشمن کے حملہ سے زیادہ اموات حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب ہورہی ہے۔ بی جے پی اس تبصرہ پر چراغ پا ہے اور انہیں ملک دشمنی سے جوڑ دیا گیا۔ دوسروں کو ملک دشمن کہنے والے اپنے ہی عوام کا کیا حشر کر رہے ہیں، اس کا محاسبہ کریں۔ غریب اور متوسط طبقات کی آفت اور مصیبت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ نریندر مودی نے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کے دن ہی اس فیصلہ کا اعلان کیوں کیا ؟ مودی نے آخر کس کے اشارہ پر یہ فیصلہ کیا ہے؟ کس کے مشورہ پر ایک پرامن اور تیز رفتار معاشی ترقی والے ملک میں بدامنی معاشی عدم استحکام اور بے چینی کی صورتحال پیدا کی گئی۔ نریندر مودی نے ہندوستانی عوام کے ساتھ کیوں اس طرح کی دشمنی کی ہے۔ عوام کا قصور کیا تھا کہ انہیں سڑکوں پر لادیا گیا۔ عوام کے ہاتھ میں کرنسی تو ہے لیکن وہ غذائی اشیاء خرید نہیں سکتے۔ آخر میں مودی بھی فرانس کی ملکہ کی طرح کہیں گے کہ اگر عوام کو کھانا میسر نہیں تو وہ کیک کھائیں۔ مودی نے گجرات میں ووٹ مانگا تو انہیں عوام نے چیف منسٹر بنایا ۔ مودی نے ملک سے ووٹ مانگا تو انہیں وزارت عظمی پر فائز کیا ۔ کیا یہ عوام کی غلطی تھی ؟ نریندر مودی کرنسی کی تبدیلی کے موقع پر پارلیمنٹ کا سامنا کرنے تیار نہیں ہیں اور عوامی جلسوں میں جذباتی تقاریر کر رہے ہیں۔ اگر وہ فیصلہ میں ایماندار اور سچے ہوں تو پھر پارلیمنٹ کا سامنا کرناچاہئے ۔ بی جے پی دوسروں کو کالا دھن سے پہلے اس بات کی وضاحت کرے کہ حکومت کے فیصلہ سے قبل مختلف ریاستوں میں پارٹی فنڈ کے طور پر کتنی رقم جمع کی گئی۔ پارٹی نے اترپردیش اور دیگر ریاستوں کے انتخابات کیلئے کن کن سے فنڈس حاصل کئے ہیں۔ نریندر مودی حکومت کو اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرنی چاہئے یا پھر عوامی غیض و غضب کیلئے تیار رہیں۔ شہود آفاقی نے کہا ہے ؎
اک گونج ہے فضاء میں نئے انقلاب کی
وہ کیا سنیں گے جن کی سماعت نہیں رہی