کے این واصف
موت ایک ناقابل فراموش حقیقت ہونے کے باوجود جب کبھی ہم کسی اپنے کے اس جہانِ فانی سے اٹھ جانے کی خبر سنتے ہیں تو ایک جھٹکا سا لگتا ہے ۔ ایسا ہی ایک جھٹکا ہمیں تب لگا جب ہم نے ہفتہ کے روز انٹرنیٹ کھولا ۔ خبر تھی کہ زبیر رضوی صاحب نہیں رہے ۔ زبیر رضوی ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ زبان و ادب کی خدمت کیلئے انھوں نے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا ۔ نیز ایک ادبی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا اچانک گرپڑنا اور وہیں جاں بحق ہوجانا اس بات کا ہی ثبوت ہے کہ اس شخص نے آخری سانس تک اردو کی خدمت کی ۔
نئی دہلی سے جاری خبر کے مطابق زبیر رضوی دہلی اردو اکیڈیمی کے منعقد ایک سنیمار میں اپنی صدارتی تقریر کرتے ہوئے اچانک گرپڑے اور اسی لمحے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ بتایا گیا کہ چند ماہ قبل ہی ان کی برین سرجری ہوئی تھی ۔ زبیر رضوی کی موت دیوار اردو سے ایک اینٹ کم ہونا نہیں ہے بلکہ ادب کی عمارت کے ایک ستون کا گرناہے ۔ انٹرنیٹ پر زبیر رضوی کی موت کی خبر پڑھتے ہی کوئی نصف صدی قبل کی کچھ یادیں اور منظر ہمارے ذہن کے پردے پر پھیل گئے ۔
یہ 1960ء کی دہائی ہوگی ہمارا بچپن تھا ۔ ہم معروف شاعر سلیمان اریب کے گھر جمع رہتی ادبی کہکشاں میں زبیر رضوی کو بھی دیکھا کرتے تھے ۔ ماہنامہ ’’صبا‘‘ کے بانی و ایڈیٹر سلیمان اریب ہمارے ہم محلہ اور ہمارے والد (خواجہ غیاث الدین عزیز) کے قریبی دوست تھے ۔ زبیر رضوی سے ویسے ہمارے کوئی شخصی روابط تھے نہ کوئی جان پہچان ۔ بس اردو ادب کے ایک ادنی قاری و سامع کی حیثیت سے ہم اردو کی اس عظیم شخصیت کو جانتے تھے ۔ اس کے علاوہ بچپن کی وہ دھندلی یادیں ، مگر ہمیں یہ نہیں معلوم تھا نہ کبھی جاننے کی کوشش ہی کی کہ زبیر رضوی کا حیدرآباد سے کیا تعلق تھا یا وہ حیدرآباد میں کیوں قیام پذیر تھے ۔ یہ تحریر لکھتے ہوئے یہ سوال جب ہمارے ذہن میں آیا تو ہم نے فوراً زبیر رضوی کے حیدرآباد اور دہلی میں قریب ترین ساتھی اور ہمارے کرم فرما محترم مجتبیٰ حسین سے رابطہ کیا۔ مجتبیٰ حسین نے بتایا کہ آزادی کے بعد خصوصاً شمالی ہند میں بڑی افراتفری کا ماحول تھا ۔ کئی خاندان بکھر گئے ۔ کچھ سرحد پار گئے تو کچھ نے ملک کے پرامن حصوں میں نقل مکانی کی ۔ انھوں نے مزید بتایا کہ زبیر رضوی کے ایک بھائی حیدرآباد دکن آبسے تھے ۔ زبیر رضوی بھی اپنے آبائی شہر سے حیدرآباد آگئے ۔ انھوں نے کاچی گوڑہ ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور یہاں سے میٹرک کامیاب کیا ۔ زبیر رضوی کا تعلق امروہہ (یوپی) کے ایک دینی و علمی خاندان سے تھا ۔وہ 1936 میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم امروہہ اور حیدرآباد دکن میں حاصل کی ۔ ایم اے دلّی یونیورسٹی سے کیا ۔ آل انڈیا ریڈیو میں ایک مقبول براڈکاسٹر کی شبیہ بنائی اور بطور ڈائرکٹر سبکدوش ہوئے ۔ دو سال اردو اکادمی کے سکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔ مرکزی سرکار کے ایک سینئر فیلو شپ کے تحت ’’اردو کا رشتہ ہندوستانی فنون لطیفہ سے‘‘ کے موضوع پر کام کیا ۔ اس کے علاوہ ہندوستانی فنون لطیفہ پر غالب کے اثرات پر بھی انھوں نے بڑا وقیع کام کیا ،جو کتابی صورت میں شائع بھی ہوا ۔ ٹیپو سلطان اور قلی قطب شاہ پر ان کے اوپیرا بڑی کامیابی سے کئی بار اسٹیج ہوئے ۔ ڈرامہ نگاری سے انھیں فطری لگاؤ تھا ۔ان کی وفات کو اردو ڈرامہ کے ایک عہد کے خاتمے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ دہلی منتقلی سے قبل زبیر رضوی نے حیدرآباد میں خاصہ عرصہ گزارا ۔ زبیر رضوی کا تعلق ادب کی زرخیز زمین امروہہ سے تھا ۔ شعر و ادب ان کی گھٹی میں پڑا تھا اور اس دور کے حیدرآباد میں جب ادبی ماحول اور ادبی سرگرمیاں عروج پر ہوا کرتی تھیں اس دور میں زبیر رضوی کو اچھے ادباء شعراء کا ساتھ ملا ۔ جن میں مجتبیٰ حسین ، وحید اختر ، مغنی تبسم ، عوض سعید ، شاذ تمکنت ، راشد آذر ، تاج مہجور ، کیف رضوانی وغیرہ وغیرہ شامل تھے ۔ بے شک اسی دور میں مخدوم محی الدین اور سلیمان اریب وغیرہ بھی تھے مگر ان کا شمار سینئرز میں ہوتا تھا ۔ زبیر رضوی کو حیدرآباد سے خاصا لگاؤ تھا ۔ حیدرآباد میں منعقد ہونے والے ادبی ٹرسٹ کے مشاعروں میں وہ پابندی سے شریک رہا کرتے تھے ۔
زبیر رضوی سمینارز میں شرکت کرنے اور مشاعرے پڑھنے کی غرض سے ملک اور بیرون ملک کافی سفر کیا کرتے تھے ۔ اس دور میں جب مشاعرے واقعی مشاعرے ہوا کرتے تھے زبیر رضوی مشاعروں کی جان تصور کئے جاتے تھے ۔ زبیر رضوی بحیثیت ناظم مشاعرہ بھی ایک مقبول اور کامیاب ترین ناظم مشاعرہ مانے جاتے تھے ۔ان کی زبان ، انداز بیان اور حاضر جوابی مشاعروں میں جان ڈال دیتی تھی ۔ زبیر رضوی نظم و غزل دونوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے ۔ ان کا اپنا ایک مخصوص ترنم تھا۔ وہ سفارت خانہ ہند ریاض اور انڈین قونصلیٹ جدہ کے سالانہ مشاعروں میں شرکت کیلئے دو مرتبہ 2004 اور 2005 ء میں سعودی عرب آئے تھے ۔ یہاں ہم نے انھیں ایک عرصہ بعد سنا اور ان سے شخصی ملاقات کا موقع بھی حاصل کیا ۔ 2005 میں جدہ قونصلیٹ نے اپنے سالانہ مشاعروں کی سلور جوبلی منائی تھی ۔ اس مشاعرے میں اردو شعر و ادب کا اعلی ذوق رکھنے والے سفارت کار ڈاکٹر حفظ الرحمن نے اردو ادب کی کہکشاں جمع کی ۔ اس مشاعرے میں زبیر رضوی کے علاوہ ڈاکٹر مغنی تبسم ، شہریار ، مظفر حنفی ،ندا فاضلی ، راحت اندوری ، ظفر گورکھپوری ، پروفیسر وسیم بریلوی ، ڈاکٹر ملک زادہ منظور ، طالب خوندمیری ، ساغر خیامی اور محترمہ صدیقہ شمیم شامل تھے ۔ ہماری خواہش پر ڈاکٹر حفظ الرحمن نے اپنے ریکارڈ سے اس مشاعرے کی یادگار تصویریں اور زبیر رضوی سے متعلق کچھ معلومات بھی ہمیں فراہم کیں ۔
زبیر رضوی نے ادب کی خدمت میں ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہوئے 1991 ء میں ایک رجحان ساز سہ ماہی رسالہ ’’ذہن جدید‘‘ کے نام سے جاری کیا جو ادب اور ثقافت دونوں کا ترجمان تھا ۔ ان کے قریبی احباب کے مطابق زبیر رضوی نے اس رسالے کے پیچھے تن تنہا محنت کیا کرتے تھے ۔انھوں نے ’’ذہن جدید‘‘ کو ایک تحریک کی طرح چلایا ۔ جس نے نئی نسل کی ذہن سازی کی ۔ ذہن جدید کے ذریعہ زبیر رضوی نے نئے لکھنے والوں کو متعارف کرایا اور ان کی ہمت افزائی کی ۔ پتہ نہیں اب ذہن جدید کے اس سلسلے کو کوئی جاری رکھے گا کہ نہیں ۔ عام اردو کے رسائل کی طرح ذہن جدید بھی مالی مسائل کا شکار رہا ۔ 2004 میں جب وہ ریاض آئے تھے ،تو انھوں نے ذہن جدید کے مالی مسائل کا ذکر کیا تھا ۔ تب ’’ہندوستانی بزم اردو ریاض‘‘ نے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا اور اس محفل میں شہر کے اہل ذوق و متمول حضرات کو مدعو کرکے ذہن جدید کیلئے کچھ مالی اعانت کا انتظام کیا تھا۔ اس محفل میں ہماری زبیر رضوی سے تفصیلی گفتگو بھی رہی تھی۔ جب ہم نے اپنے بچپن کی یادوں اور ان کا حیدرآباد میں سلیمان اریب کے گھر آنے جانے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ ذہن جدید میں بیاد سلیمان اریب ہی شائع کرتا ہوں ان ہی خطوط پر ذہن جدید کو چلانے کی کوشش کرتا ہوں جو ماہنامہ ’’صبا‘‘ کا وطیرہ رہا تھا ۔ ذہن جدید جیسا معیاری ادبی رسالہ شائع کرنے میں جو مشکلیں اور مسائل درپیش تھے وہ توصرف زبیر رضوی ہی جانتے تھے مگر پھر بھی زبان و ادب کے اس دیوانے نے اسے کوئی 25 سال تک مسلسل جاری رکھا ۔ اب اس سلسلے کو کوئی آگے لیکر چلے تو یہ ادب کی بڑی خدمت ہوگی ۔ ادب عالیہ کی ایک اعلی مثال حیدرآباد سے شائع ہونے والا رسالہ ’’شعر و حکمت‘‘ تھا۔ جو ادب کی ایک معروف جوڑی پروفیسر مغنی تبسم اور پروفیسر شہریار کی کاوشوں کا نتیجہ ہوا کرتا تھا ۔ادب کے یہ دو خدمت گزار اور گہرے دوست چند برس قبل دو ایک روز کے فرق سے اس دنیا سے کوچ کرگئے ۔ ان کے سانحہ ارتحال پر مجتبیٰ حسین نے ایک تعزیتی مضمون لکھا تھا ۔ مضمون کا اختتام کرتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا ’’شہریار کے ساتھ شعر گیا اور مغنی تبسم کے ساتھ حکمت‘‘ اور ہم کہیں گے کہ زبیر رضوی کے ساتھ ذہن جدید چلاگیا ۔
بہرحال اردو کی بقا، ترقی و ترویج کی راہ میں جلنے والے چراغ ایک ایک کرکے گُل ہورہے ہیں ۔ زبیر رضوی کی صورت میں اردو دنیا میں ایک روشن چراغ تھا جو آخری دم تک اپنی روشنی لٹا کر گل ہوگیا۔ اردو دنیا میں نئی چراغ جلنے چاہئیں ۔ مخالفین اردو زبان کی تاریکیوں کی طرف ڈھکیلنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔ ہمیں اس شدت سے اس کی مدافعت کرنی چاہئے ۔ کیونکہ اردو ہماری زبان ہی نہیں ہماری تہذیب بھی ہے ۔
knwasif@yahoo.com