کے این واصف
اس جہانِ فانی سے ہر روز بے شمار نفوس کوچ کرجاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے درخت کے پتے دن رات ایک ایک کر کے گرتے ہیں ۔ بے صوت ، بے آواز ، لیکن جب ایک تناور درخت گرتا ہے تو ماحول میں ایک کہرام بپا ہوجاتا ہے۔ زمین دہل جاتی ہے ۔ لوگ سہم جاتے ہیں۔ ہفتہ کی رات قہر قضا کی آندھی سے ایسا ہی ایک تناور درخت زمین بوس ہوا۔ حیدرآباد سے افسوسناک خبر آئی کہ افضل ثنائی صاحب نہیں رہے۔ ہر نفس کو ایک دن ا پنے خالق حقیقی کی طرف لوٹنا ہے۔
ہم نہ تھے، کل کی بات ہے فانی
ہم، نہ ہوں گے ، وہ دن بھی دور نہیں
اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود ہم جب کسی اپنے کے جدا ہوجانے کی اطلاع پاتے ہیں تو ہمیں ایک جھٹکا سا لگتا ہے ۔ دفعتہً ہم حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ذہن کے ایک حصہ میں غالب کا شدتِ احساس میں کہا وہ مصرعہ گونجنے لگتا ہے ’’کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور‘’ جو لوگ ہمارے قلب و جان سے قریب ہوتے ہیں ان کے بچھڑنے پر ایسی کیفیت کا طاری ہونا ایک فطری بات ہے لیکن فطرت کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہمارا ایقان و ایمان ہے۔
حضرات ! افضل بھائی ہم سب کیلئے ایک عزیز اور محترم شخصیت تھے ۔ ان کے ساتھ کوئی ظاہری رشتہ نہ ہونے کے باوجود ریا ض میں ہر شخص ان سے ایک تعلق خاطر رکھتا تھا ۔ وہ ایک غیر نزاعی شخصیت تھے ۔ ہر گروپ ،ہر مکتبِ خیال کے افراد سے ان کا یارانہ رہتا ۔ یارباشی ان کی فطرت تھی ۔ خوش رہنا اور خوشیاں بکھیرنا ان کا مزاج تھا ۔ شاید اب وہ قالب ٹوٹ گئے جن میں ڈھل کر ایسی شخصیات آتی تھیں۔ افضل بھائی ایک ٹھنڈی مٹی کے بنے آدمی معلوم ہوتے تھے۔ میں نے کبھی انہیں شدید غصہ کی حالت میں یا جھلاتے چلاتے نہیں دیکھا ۔ دو سال قبل جب وہ یہاں سے جارہے تھے تو ان کی ایک وداعی تقریب میں، میں نے ان پر لکھا ایک خاکہ’’الخرج کے کولمبس افضل ثنائی‘’ کے عنوان سے پڑھا تھا ۔ افضل ثنائی کی شخصیت پر یہ ایک قلم برداشتہ خاکہ تھا ۔ باوجود اس کے کہ افصل بھائی علم و فضیلت ، عمر و تجربہ ، فہم و فراست ، مال و متاع ، جاہ و منزلت ،ر تبہ و حیثیت وغیرہ وغیرہ کے آڑ میں میں نے اس مضمون میں کچھ زیادہ ہی آزادی حاصل کرلی تھی۔ مگر سلام کرتا ہوں میں افضل بھائی کی اعلیٰ ظرفی کو کہ انہوں نے میرے قلم کی بے لگامی کارمق برابر بھی برا نہیں مانا۔ بلکہ وہ خوش ہوئے اور میرے اس خاکہ کی بے حد ستائش بھی کی۔ ثنائی صاحب کے نام میں جلال ضرور تھا لیکن وہ فطراً جمالی واقع ہوئے تھے ۔ افضل بھائی نے حیدرآبادی تہذیب کے دور عروج میں آنکھیں کھولی تھیں اور انہوں نے اس تہذیب کو زوال پذیر ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ مگر انہوں نے اس زوال کو کبھی قبول نہیںکیا ۔ وہ ہمیشہ حیدرآبادی تہذیبی روایات کے امین رہے ۔ خوش اخلاقی ، خوش گفتار ، خوش شکل ، خوش لباس و خوش خصال افضل سنائی اپنے فن خطابت اور قادر الکلامی کیلئے بھی جانے جاتے تھے ۔ وہ کبھی بھی ، کسی بھی موضوع پر محفل کو اپنے پر اثر خطاب سے متاثر کرتے تھے ۔ افضل ثنائی صاحب نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا تھا ۔ ا نگریزی زبان پر بڑا عبور رکھتے تھے لیکن آپ نے حیدرآباد میں جس دور میں آنکھیں کھولیں تھیں اس وقت اردو زبان اپنے بامِ عروج پر تھی ۔ لہذا اردو ان کی گھٹی میں پلی تھی ۔ انہیں اردو شعر و ادب سے بڑا گہرا لگاؤ تھا ۔ گوکہ کبھی سخن گوئی کا شغف نہیں کیا مگر ایک اعلیٰ معیار کے سخن فہم ضرور تھے ۔ اردو شعر و ادب کی محافل میں بڑی پابندی سے شریک ہوتے تھے۔
سابق سفیر ہند ایم او ایچ فاروق صاحب مرحوم افضل بھائی کے بڑے مداح تھے۔ وہ افضل بھائی کو ہمیشہ ’’نظام نواب‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ ویسے بھی افضل بھائی اپنے رکھ رکھاؤ ، وضع قطع سے کسی نواب سے کم بھی نظر نہیں آتے تھے۔ افضل بھائی کے سابق سفیر ہند اور موجودہ نائب صدر جمہوریہ عزت مآب حامد انصاری سے بھی بڑے گہرے مراسم تھے ۔ افضل بھائی کا یہاں اور وطن ایک بہت وسیع حلقہ احباب تھا جس میں وہ ایک مقبول و محترم حیثیت رکھتے تھے۔ وہ اپنے احباب کو اور احباب انہیں بڑا عزیز رکھتے تھے ۔ افضل بھائی کی محافل اور ملنے والوں میں ہر طبقہ کے لوگ نظر آتے تھے۔ وہ لوگوں سے ان کے رتبہ اور حیثیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے حسن سلوک ، کردار اور اخلاق کی بنیاد پر مراسم قائم کرنے میں یقین رکھتے تھے ۔ یہی ان کی ہردلعزیزی کا راز تھا ۔
حضرات! زمین کے سارے رشتے ، ناطے ، مراسم، یاریاں، دوستیاں سب کچھ بے حیثیت و بے توقیر ہوجاتے ہیں جب آسمان کا بلاوا آتا ہے ۔ ’’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ، کے مصداق انسان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اچانک اپنے ابدی ٹھکانے کی طرف نکل پڑتا ہے ۔ افضل بھائی بھی 21 جون 2014 ء کو اپنے آخری سفر پر چلے گئے ۔ افضل بھائی کا اس جہانِ فانی سے کوچ کرجانا ایک عہد کا خاتمہ ہے ۔ اتوار کے روز جس لمحہ افضل ثنائی کا جسد خاکی سپرد لحد کیا گیا اسی کے ساتھ حیدرآبادی تہذیبی روایات بھی دفن ہوگئیں جس کے وہ علم بردار تھے۔ اللہ رب العزت افضل بھائی کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
knwasif@yahoo.com