رشید الدین
مودی حکومت کے 2 سال …کام کم ، شہرت زیادہ
عوام مایوس …حکومت جشن میں
نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے 2 سال مکمل ہوگئے۔ بی جے پی نے حکومت کی کامیابیوں کی طویل فہرست کے ساتھ ملک بھر میں جشن کا آغاز کیا ہے۔ ’’ذرا مسکرادو‘‘ عنوان کے تحت انڈیا گیٹ پر پروگرام رکھا گیا جبکہ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس نعرہ کے تحت نریندر مودی نے اترپردیش کے سہارن پور میں ریالی سے خطاب کیا ، جو دراصل یو پی اسمبلی انتخابات کی مہم کا آغاز تھا۔ دو سال کی تکمیل کے موقع پر اترپردیش میں ریالی کے ذریعہ بی جے پی کے اگلے مشن کا اندازہ ہوتا ہے ۔ جشن منانے کا اختیار یقیناً حکومت کو حاصل ہے لیکن اس کا حقیقی لطف اس وقت ملتا ہے جب عوام خود جشن میں شامل ہوجائیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہوں۔ جب تک عوام خوش نہ ہوں ، حکومت کے کسی جشن کا کوئی فائدہ نہیں۔ صرف وعدوں کے ذریعہ عوام کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا ممکن نہیں ہے۔ انڈیا گیٹ سے ذرا مسکرادو کہنا ایسا ہے جیسے لافنگ کلبس کی جانب سے پارکس میں صحت کے نام پر بناوٹی ہنسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ جس طرح صرف تقاریر سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا ، اسی طرح مسائل کا شکار افراد کے چہرہ پر ہنسی لوٹائی نہیں جاسکتی۔ نریندر مودی حکومت نے دو برس میں ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جو عوام کو جشن میں شمولیت کے لئے مجبور کرسکے۔ ایسا جشن کس کام کا جو کسی غریب کے گھر میں روشنی اور زندگی میں خوشحالی نہ لاسکے۔ عارضی روشنیوں کے ذریعہ وقتی طور پر تاریکی دور کی جاسکتی ہے لیکن پھر اس کے بعد صبح کا طلوع ہونا طئے ہے۔ دوسال کا وقفہ کسی بھی حکومت کے لئے معمولی نہیں ہوتا اور دو برس بعد بھی اگر وعدوں کی تکمیل کا آغاز اور عوام کا معیار زندگی بلند نہ ہو تو پھر ایسی حکومت کو کامیاب نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی وہ جشن منانے کا جواز رکھتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کرتے ہوئے جشن منانا کہاں کی دانشمندی ہے جبکہ عوام ہی جشن کا حصہ نہیں ہے۔ نریندر مودی نے عوام کو اچھے دن کا خواب دکھایا تھا جو دو برسوں میں بکھر چکا ہے۔ وزیراعظم سے عوام پوچھ رہے ہیں کہ اچھے دن کہاں گئے؟ اچھے دن کی تعریف کیا یہی ہے کہ روزانہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کیلئے نفرت کے سوداگروں کو کھلی چھوٹ دیدی جائے ؟ اچھے دن کیا یہی ہیں کہ غریب مہنگائی کی مار جھیلتا رہے اور بی جے پی کی فنڈنگ اور اس کی مہم چلانے والے صنعتی گھرانوں میں خوشحالی آئے۔ اچھے دن تو عام آدمی کیلئے نہیں آئے لیکن بابا رام دیو حکومت کی سرپرستی میں اپنے پراڈکٹس کو عام کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اچھے دن تو رام دیو کیلئے آئے جو بابا سے ادیوگ پتی بن گئے۔ اچھے دن تو کرن بیدی کے آئے جو جن لوک پال کے مطالبہ کو ترک کرتے ہوئے راجیہ پال (گورنر) بن گئیں۔ اچھے دن تو سنگھ پریوار کے آئے جنہیں ہندو راشٹر کے ایجنڈہ پر عمل آوری کی کھلی چھوٹ مل گئی۔ اچھے دن کیا یہی ہیں کہ ملک میں خواتین غیر محفوظ ہوچکی ہیں۔ کیا مذہبی اور لسانی اقلیتوں کا عدم تحفظ کا شکار ہونا اچھے دن کی علامت ہے؟ اقلیتوں کے دینی مدارس اور پرسنل لا کو نشانہ بنانا کیا اچھے دن تصور کیا جائے گا؟ نریندر مودی کے اچھے دن کی تعریف کیا یہی ہے کہ گاندھی جی کے قاتلوں کو دیش بھکت اور انگریزوں کے خلاف تلوار اٹھانے والے شیر میسور ٹیپو سلطان کو ملک کا غدار کہا جائے ؟ اب تو پنڈت نہرو کے بارے میںبھی سوال اٹھنے لگے ہیں
اور تاریخ سے مجاہدین آزادی کے ناموں کو حذف کرنے کی تیاری کرلی گئی تاکہ آنے والی نسلوں کو سنگھ پریوار کی مرتب کردہ تاریخ پڑھائی جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا جنگ آزادی سے کوئی تعلق نہیں اور ان کے اسلاف انگریزوں کے جاسوس رہ چکے ہیں۔ اچھے دن کیا سرحدوں کے جیالے فوجی جوانوں کے بہتے خون کو کہیں گے، جن کی جانوں کے تحفظ میں حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ دو برسوں کے دوران سرحد پار سے متعدد حملے کئے گئے اور یہ تسلسل پٹھان کوٹ کے فوجی اڈہ تک پہنچ گیا۔ گائے کے نام پر اخلاق جیسے بے گناہ کا وحشیانہ قتل کیا اچھے دن کی علامت ہے؟ والد کا سایہ سر سے چھن جانے کے بعد بھی اخلاق کے فرزند نے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ کہتے ہوئے فرقہ پرستوں کو شرمسار کردیا۔ بیف کے نام پر سیاست نے دو افراد کو پھانسی پر لٹکا دیا اور بی جے پی وزراء اور چیف منسٹرس کی جانب سے مسلمانوں کو بیف کھانے کیلئے پاکستان جانے کا مشورہ دیا گیا ۔ کیا یہی مودی کے اچھے دن ہیں ؟ اچھے دن کیا یہی ہیں کہ سادھوی ، ساکشی ، یوگی ، توگاڑیہ اور پراچی جیسے نفرت کے دیوی دیوتاؤں پر کوئی لگام نہ لگے ؟ ملک میں کہیں بھی فساد یا بم دھماکہ ہو ، فوری مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں بند کردیا جائے۔ یہی اچھے دن ہیں ۔ مکہ مسجد ، مالیگاؤں اور اجمیر بم دھماکوں میں شامل زعفرانی دہشت گردوں کو بچایا جارہا ہے جبکہ ان کے خلاف پختہ ثبوت تحقیقاتی ٹیم نے اکھٹا کئے تھے ۔ کرنل پروہت، سوامی اسیمانند اور سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو بے قصور ثابت کرنا کیا اچھے دن ہیں ؟ گجرات کے عشرت جہاں اور سہراب الدین شیخ فرضی انکاؤنٹرس میں مبینہ طور پر ملوث سیاست دانوں اور پولیس عہدیداروں کو کلین چٹ دینا ہی نریندر مودی کے اچھے دن ہیں۔ اگر یہی اچھے دن ہیں تو عوام چاہتے ہیں کہ مودی انہیں پرانے دن بھی لوٹادیں کیونکہ اچھے دنوں کے نام سے اب نفرت سی ہونے لگی ہے۔ نریندر مودی کے لئے دو برسوں میں شاید دو دن ہی اچھے دن رہے ہوں گے جب ان کی ضعیف العمر ماں نے ان کی سرکاری رہائش گاہ میں قدم رکھا تھا۔ ماں کے قدم جب مودی کی رہائش گاہ میں پڑے اور مودی نے جو کچھ ان کی خدمت کی ہوگی ، وہی 2 برسوں میں 2 اچھے دن ہیں۔
نریندر مودی کے اچھے دنوں میں مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جاتے رہے لیکن حکومت کے دو سال کی تکمیل کے دن ہی مسلمانوں میں جس خیر سگالی، فراخدلی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا، اسے نریندر مودی کو بھولنا نہیں چاہئے۔ اترپردیش کے سہارن پور کے مسلمانوں نے ثابت کردیا کہ وہ نفرت کی سیاست کا جواب محبت اور رواداری سے دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ نریندر مودی جس مقام پر ریالی کرنے والے تھے، اس کا ایک حصہ مسلمانوں کا ہے۔ اراضی کے ایک حصہ کو مدرسہ کی تعمیر کیلئے محفوظ کیا گیا تھا لیکن مسلمانوں نے ریالی کے انعقاد کیلئے اس اراضی کے استعمال کی اجازت دیدی ہے۔ مودی کا ہیلی کاپٹر مسلمانوں کی زمین پر ہی اترا۔ دو سال کی تکمیل کے موقع پر ایک بیرونی ٹی وی چیانل کو انٹرویو میں نریندر مودی نے مسلمانوں کی حب الوطنی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان وطن پر جان دینے کا جذبہ رکھتے ہیں اور وہ دہشت گرد تنظیموں کی طرف مائل نہیں ہوسکتے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ نریندر مودی ملک کی پارلیمنٹ میں یہ بیان دیتے۔ انہیں یہ بیان یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے اپنے خطاب میں دیناچاہئے ۔ اکثر یہ دیکھا گیا کہ بیرونی دورہ کے موقع پر یا بیرونی میڈیا سے بات چیت میں مودی مسلمانوں کے حق میں اظہار خیال کرتے ہیں جبکہ اندرون ملک سنگھ پریوار مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھا رہا ہے لیکن یہاں مودی خاموش ہیں۔ وزیراعظم کے قول و فعل میں تضاد صاف طور پر جھلک رہا ہے ۔
ہندوستانی انٹلیجنس ایجنسیوں کے نشانہ پر آج بھی مسلم نوجوان ہیں ، جنہیں داعش یا کسی اور تنظیم سے تعلقات کے نام پر حراست میں لیا جارہا ہے ۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی نریندر مودی کی طرح مسلمانوں کی حب الوطنی کا اعتراف کیا لیکن وہ تحقیقاتی ایجنسیوں اور انٹلیجنس پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے مطابق جب مسلمان دہشت گردی کی طرف راغب نہیں ہوسکتے تو پھر ملک کے کئی حصوں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں کیوں ؟ جمہوریت دراصل ایک آئینہ کی طرح ہے اور ملک میں اقلیتوں کے موقف سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کس حد تک کامیاب ہے۔ اقلیتوں کو عدم تحفظ کے احساس سے نکالنے کیلئے وزیراعظم نے اپنے دستوری فرائض کی تکمیل نہیں کی۔ شرپسندوں کے خلاف کارروائی توکجا شر انگیزیوں کی مذمت بھی نہیں کی۔ 26 مئی 2014 ء کو نریندر مودی نے دستور کی پاسداری اور ہر شہری کے ساتھ کسی بھید بھاؤ کے بغیر یکساں سلوک اور انصاف کا جو حلف لیا تھا، انہیں یہ حلف دوبارہ یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے 2 سال کی تکمیل پر ایودھیا کے فیض آباد میں بجرنگ دل کارکنوں کو رائفل اور تلواروں کی ٹریننگ کا معاملہ منظر عام پر آیا۔ یہ ٹریننگ ظاہر ہے کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ اترپردیش حکومت نے جب بجرنگ دل قائد کو گرفتار کیا تو ونئے کٹیار نے نہ صرف مذمت کی بلکہ اترپردیش حکومت کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ 2 سال میں ملک نے ترقی سے زیادہ تنازعات کو دیکھا ہے ۔ سابق حکومتوں کی اسکیمات میں رد و بدل کرتے ہوئے انہیں دوبارہ شروع کیا گیا لیکن اس کے نتائج سے حکومت خود واقف نہیں ہے۔ لو جہاد، گھر واپسی ، بیف کے استعمال پر پابندی ، متنازعہ نعروں کے ذریعہ نفرت کا پرچار وقفہ وقفہ سے دیکھنے کو ملا لیکن خود کو مرد آہن کہنے والے نریندر مودی ان سرگرمیوں پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ 2 سال کی تکمیل پر حکومت نے عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس کوئی ایسا کارنامہ نہیں جسے پیش کیا جاسکے۔ نریندر مودی نے کالے دھن کی واپسی اور ہر شہری کو 15 لاکھ روپئے دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ 2 سال میں نہ ہی کالا دھن واپس ہوا اور نہ ہی کسی کے کھاتہ میں 15 روپئے آئے۔ برخلاف اس کے کہ ملک کی دولت کو لوٹ کر بعض افراد ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ 2 برسوں میں نریندر مودی کی کامیابی ان کے 30 سے زائد بیرونی دورے ہیں جن میں انہوں نے عالمی شخصیتوں کے ساتھ تصویر کشی اور سیلفی کے ذریعہ اپنی شہرت میں اضافہ کیا۔ آسام میں کانگریس کی نااہلی سے اقتدار حاصل ہوتے ہی بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف غیر ملکی کا تنازعہ پیدا کردیا ہے جس سے بنگلہ دیش کے ساتھ کشیدگی کا اندیشہ ہے ۔ نریندر مودی حکومت کے 2 سال کی تکمیل پر حیدر علوی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ؎
دل کے رشتوں میں دراڑیں ہی دراڑیں ڈالیں
اچھے دن آئیں گے یہ خواب دکھاتے رہئیے