اچھے دنوں کا آنا دشوار کردیا ہے

اچھے دنوں کی امید کرنے میں کوئی برائی نہیں لیکن عوام کو اچھے دن کا خواب دکھانے والے کے ہی برے دن آجائیں تو اس میں عوام کا کیا قصور ہوگا۔ انسان ہمیشہ ہی خوش گمان اور آشا وادی ثابت ہوا ہے۔ جب کوئی اسے خوشحالی کے خواب دکھانے لگتا ہے تو وہ ان خوابوں سے خود کو وابستہ کرلیتا ہے۔ بھلے ہی بعد میں وہ جاگتی آنکھوں کے خواب بن جائیں۔ مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے اقتدار کا ایک ماہ مکمل ہوگیا اور 30 دن کی حکمرانی عوام کیلئے مسائل سے نجات کی خوشخبری کے بجائے بھیانک یادوں کے انمٹ نقوش کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔

اس ایک ماہ کی حکمرانی دیکھ کر عوام آنے والی مصیبتوں اور مسائل کے بارے میں سوچ کر اندیشوں کا شکار ہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے سپنوں کے سوداگر کی طرح عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھائی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ظلمتوں کی رات ڈھل رہی ہے اور امیدوں کی سحر ابھر رہی ہے۔ مودی نے اپنی مکالمہ بازی سے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیوں نہ ایک بار بی جے پی کو موقع دیا جائے۔ عوام نے جب واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار عطا کیا تو 100 دن میں خوشحالی کے آغاز کے ایکشن پلان سے عوام کو روبرو کیا گیا لیکن عوام نے خوابوں ، امید اور آرزوؤں کی دنیا سے نکل کر حقیقت اور سچائی کا سامنا کیا تو خوشحالی کے نعروں کے درمیان بھیانک چہرہ نظر آیا جو کہ مسائل میں اضافہ کا اشارہ دے رہا تھا ۔ 100 دن میں اچھے دن کا آغاز اور سب کا ساتھ ، سب کا وکاس جیسے نعرے اب عوام کو بری گالی کی طرح مجروح کرنے لگے ہیں۔ 30 دن میں عوام کو مسائل کی چکھی میں جس طرح پیسا گیا ،

عوام یہ کہنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ پرانے دن آج سے زیادہ اذیت ناک نہیں تھے۔ کیا کسی حکمت عملی اور پالیسی کے بغیر ہی صرف اقتدار کیلئے عوام سے اچھے دن کا وعدہ کیا گیا؟ جب اچھے دن یہ ہیں تو برے دن کیا ہوں گے۔ 30 دن کی حکمرانی نے ملک کی جو حالت کردی ، اگر 100 دن تک یہی صورتحال برقرار رہی تو پتہ نہیں ملک کی معیشت انحطاط کے کس درجہ میں پہنچ جائے گی اور غریب و متوسط طبقات جنہیں عرف عام میں عام آدمی کہا جاتا ہے، ان کے سانس لینے پر بھی شاید چارجس لگادیئے جائیں۔ معیشت کے سدھار کیلئے سخت گیر فیصلوں اور کڑوی دوائی تجویز کرتے ہوئے نریندر مودی نے خود کو معاشی امور کے Ph.D کے طور پر پیش کیا لیکن جب عمل کا وقت آیا تو حالت یوں ہوئی جیسے کچھ کہا ہی نہیں تھا۔ دراصل یہ کڑوی دوائی کی ضرورت عوام کو نہیں بلکہ حکمرانوں کو ہے تاکہ وعدوں سے متعلق ان کی یادداشت کو لوٹایا جاسکے ۔ 30 دن کی حکمرانی میں عوام کے کسی بھی گوشہ کو راحت کا احساس چھو کر بھی نہیں گزرا۔ مسائل کے بوجھ نے زندگی دوبھر کردی ہے ۔ عوام کو ایک دن بھی کوئی خوشی کی خبر نہیں مل سکی بلکہ وہ مسائل کے چنگل میں مزید پھنستے چلے گئے۔

بے قابو مہنگائی پر لگام لگانے میں حکومت کی ناکامی، ریل کرایوں میں اضافہ ، پکوان گیس ، پٹرول ، ڈیزل اور کیروسن کی قیمتوں میں اضافہ کی تیاریوں نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جیسے مرکز میں کوئی منتخب حکومت نہیں بلکہ ڈکٹیٹرشپ ہے۔ ایک ماہ کی تکمیل کے بعد نریندر مودی نے سارے مسائل کا ابال سابق یو پی اے حکومت کے سر ڈال دیا ۔ نریندر مودی نے کہا کہ اس مدت کے دوران جو بھی فیصلے کئے گئے ، وہ گزشتہ حکومت کی کارروائیوں کا تسلسل تھا۔ ایک طرف انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک ماہ کے تمام فیصلے قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر کئے گئے تو دوسری طرف وہ ان فیصلوں سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب تمام فیصلے قومی مفاد کا حصہ ہیں تو پھر وبال دوسرے کے سر کیوں ؟ اگر یو پی اے کے فیصلے قومی مفاد کے منافی تھے تو پھر نریندر مودی حکومت نے انہیں تبدیل کیوں نہیں کیا ؟ اقتدار کی خاطر عوام سے جو وعدے کئے گئے ان سے حکومت کے بارے میں کچھ زیادہ ہی توقعات عوام نے وابستہ کرلی تھیں۔ جس کے سبب ایک ماہ میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ نریندر مودی کو ہی اپنی ناکامی کا احساس ان کے اس جملہ سے نظر اتا ہے کہ حکومت کے اندر اور باہر کے افراد کو حکومت کی سنجیدگی کے بارے میں یقین دلانے میں دشواری ہورہی ہے۔

عام بجٹ کی پیشکشی سے قبل ریل کرایوں میں اضافہ اور بڑھتی مہنگائی کا یہ رجحان ہے تو پھر بجٹ کے بعد کیا ہوگا ؟ دراصل حکومت عوام پر ٹیکس کا بوجھ عائد کرنے کی تیاری کر رہی ہے ۔ نریندر مودی کا یہ کہنا کہ 100 دن کے بجائے 100 گھنٹے میں ہی حکومت پر تنقیدوں کا آغاز ہوگیا ، دراصل ان کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کی شروعات کی تنازعات ہی ہو تو تنقیدوں کا ہونا بھی فطری ہوگا۔ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دستور کی دفعہ 370 پر تنازعہ کھڑا کیا۔ مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی کی تعلیمی ڈگری کی اصلیت پر سوال اٹھنے لگے۔ وزیر اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ نے مسلمانوں کو اقلیت تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا۔ ان باتوں پر تنقید نہیں تو کیا ستائش ہوگی ؟ ملک کے اندرونی مسائل پر توجہ دیئے بغیر مودی نے بھوٹان کا پہلا بیرونی دورہ کیا اور اسے کارنامے کے طور پر پیش کیا گیا۔ پاکستان سے رشتوں میں سدھار کے بجائے چین کی طرف ہندوستان کا جھکاؤ دوراندیش خارجہ پالیسی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ مودی کا یہ ریمارک مضحکہ خیز ہے کہ ایک ماہ کی کارکردگی کا گزشتہ 67 برس کی حکومتوں کی کارکردگی سے تقابل نہ کیا جائے۔

اگر مودی مزید 67 برس بھی حکومت کرلیں تو وہ سابق حکومتوں کی برابری نہیں کرسکتے۔ جدید ہندوستان کے معمار پنڈت جواہر لال نہرو پھر ہندوستان کو طاقتور مملکت بنانے اندرا گاندھی کی مساعی کو کیا فراموش کیا جاسکتا ہے۔ ملک کو عصری ٹکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے راجیو گاندھی کی کوششیں اور ہندوستان کو نیوکلیئر طاقت بنانے والے اٹل بہاری واجپائی کو کیا مودی نے فراموش کردیا ہے ۔ لاکھ خامیوں کے باوجود ملک کو معاشی بحران سے بچانا ڈاکٹر منموہن سنگھ کا کارنامہ تھا۔ ایک ماہ گزرنے کے باوجود نریندر مودی انتخابی مہم کے ماحول سے ابھر نہیں پائے ہیں اور اسی انداز کی مکالمہ بازی اور بیانات جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ یہ وقت کچھ کر دکھانے کا ہے۔
نریندر مودی ایک ماہ میں عوام کو راحت پہنچانے میں بھلے ہی ناکام رہے لیکن جارحانہ فرقہ پرست نظریات اور انتقامی سیاست کی پالیسی کا انہوں نے کھل کر مظاہرہ کیا۔ گجرات کے اپنے سپہ سالار امیت شاہ کی پارٹی قومی صدر کی حیثیت سے تاج پوشی کی تیاری اور اس راہ میں امکانی رکاوٹوں کو دور کرنے میں انہوں نے غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججس کے تقررات کے سلسلہ میں طریقہ کار طئے ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ کے ججس پر مشتمل کالجیم مختلف معیارات پر جانچ کے بعد حکومت سے ناموں کی سفارش کرتا ہے ۔ اس پیانل نے حال ہی میں سپریم کورٹ کے ججس کے طور پر تقرر کے لئے چار ناموں کی سفارش کی تھی۔ مودی سرکار نے تین نام تو قبول کرلئے لیکن چوتھے نام کو نامنظور کردیا ۔ جس نام کو مودی کی منظوری حاصل نہ ہوسکی ، وہ کوئی اور نہیں بلکہ سابق سالیسیٹر جنرل اور ممتاز ماہر قانون گوپال سبرامنیم ہیں۔ ان کے نام کو مودی کی عدم منظوری میں کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن انصاف کے تقاضوں کی کھلی خلاف ورز ی کی گئی ہے۔ گوپال سبرامنیم کا قصور یہ تھا کہ مودی کے بااعتماد رفیق امیت شاہ کو سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس میں ملزم بنانے انہوں نے سپریم کورٹ کی اعانت کی تھی ۔ انہوں نے اس مقدمہ میں سپریم کورٹ کیلئے رابطہ کار کی حیثیت سے تعاون کیا اور ان کی کوششوں کے سبب سپریم کورٹ نے اس معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی اور امیت شاہ ملزم کی حیثیت سے مقدمہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ نریندر مودی یہ کس طرح برداشت کرتے کے گجرات فسادات اور پھر فرضی انکاؤنٹر کے مبینہ ماسٹر مائینڈ کا مخالف وکیل ، سپریم کورٹ کا جج مقرر ہوجائے۔ پہلے ہی یہ کیا کم تھا کہ گجرات فسادات کے ذمہ دار شخص کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز کیا گیا جنہیں ابھی تک عدالت نے کلین چٹ نہیں دی ہے۔ سپریم کورٹ نے گجرات فسادات کے پس منظر میں مودی کا تقابل روم کے شہنشاہ نیرو سے کیا تھا۔ اب وہی مودی اپنے معاون کو بی جے پی کے قومی صدر کی گدی پر فائز کرنا چاہتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں اترپردیش میں مذہبی منافرت کے ذریعہ ووٹ تقسیم کرنے میں کامیاب شخص کو بی جے پی کی صدارت اور اسی شخص کو انصاف کے کٹہرے میں پہنچانے والے قانون داں کو سپریم کورٹ کے جج بننے سے روک دینا کہاں کا انصاف ہے۔ ججس کے تقررات میں سیاسی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ اس بارے میں رام جیٹھ ملانی نے کہا تھا ’’ بعض ججس قانون جانتے ہیں تو بعض وزیر قانون‘‘۔ مخالف امیت شاہ وکیل کو سپریم کورٹ کا جج بننے سے روکنے پر ہی مودی نے اکتفاء نہیں کیا بلکہ فرضی انکاؤنٹر مقدمہ کی سماعت کرنے والے سی بی آئی جج کا بھی تبادلہ کردیا گیا۔ جارحانہ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ پر عمل آوری کے ماہر امیت شاہ کو پارٹی کی صدارت سونپ کر ہوسکتا ہے کہ نریندر مودی اپنے خفیہ ایجنڈہ پر عمل آوری کی تیاری کر رہے ہیں۔ اسی دوران نیشنل ہیرالڈ مبینہ دھوکہ دہی مقدمہ میں عدالت کی جانب سے صدر کانگریس سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو سمن کی اجرائی میں قومی سیاست میں ایک بحث چھیڑدی ہے۔ اگرچہ سبرامنیم سوامی کی درخواست پر عدالت نے یہ سمن جاری کیا لیکن درحقیقت یہ مرکز کی سیاسی انتقامی کارروائی کا حصہ ہے۔ سبرامنیم سوامی اور سنگھ پریوار کی قربت کوئی ٹھکی چھپی بات نہیں۔ وہ ہندوستان کے اولین قائدین میں شامل ہیں جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا اور تشدد سے نمٹنے کیلئے اسرائیلی طریقہ کار کو اپنانے کی صلاح دی تھی ۔ یہ وہی سبرامنیم سوامی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کیلئے عدالت میں درخواست داخل کی تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سبرامنیم سوامی کی زہر افشانی کا سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری رہتا ہے۔ وہ ملک میں عدم استحکام کی علامت اور اس طرح کے مقدمات کے ماہر ہیں۔ 2001 ء میں دائر کردہ مقدمہ پر 13 سال بعد اچانک کارروائی کرنا باعث حیرت ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ مرارجی دیسائی حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے چرن سنگھ نے اندرا گاندھی کی گرفتاری میں اہم رول ادا کیا تھا جس کے بعد مرارجی دیسائی حکومت زوال کا شکار ہوگئی۔ کیا تاریخ اب اپنے آپ کو دہرائے گی ؟ مودی سرکار کے ایک ماہ بعد پروفیسر شہریار کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ہر خواب کے مکاں کو مسمار کردیا ہے
اچھے دنوں کا آنا دشوار کردیا ہے