وقت، اقدار، معاشرہ سب بدل رہا ہے اور بہت کچھ مزید بدل سکتا ہے۔ اگر گھریلو خواتین اپنے رشتوں اور رویوّں میں تھوڑا سا اعتدال ، رواداری اور تحمل و برداشت پیدا کریں۔ ساس بننے والی مائیں یہ سوچ لیں کہ اگر وہ کسی کی بیٹی اپنے گھر لائی ہیں تو ان کی بیٹی بھی کسی کی بہو ہے۔
وہ کسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھیں گی تو ان کی بیٹی کو بھی کوئی اپنی بیٹی ہی کی طرح اپنائے گا۔ نندیں، بھابھیوں کو سہیلیاں بنالیں اور بھابھیاں نندوں کو بہنوں ہی کا درجہ دیں تو کئی بنیادی جھگڑے تو یہیں دم توڑدیں۔ ہر خاندان اپنی جگہ ایک اکائی، ایک عمارت ہے، جس میں ہر رشتے کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اس لئے اسی اکائی کو جوڑے رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک ایک اینٹ اپنی جگہ مضبوطی سے جمی رہے۔ گھر کے تمام افراد ایک دوسرے کے مسائل، پریشانیاں سمجھیں۔ آسانیاں پیدا کرنے اور فراہم کرنے کی کوشش کریں تو دلوں سے کتنا گرد و غبار صاف ہوجائے۔ اس ضمن میں گھر کے سربراہ کے ساتھ خاتون خانہ کا کردار بھی بے حد اہم ہے۔ وہ آج اپنے ساس، سسر اور دیگر سسرالی رشتوں کے ساتھ جس حسن سلوک کا مظاہرہ کرے گی۔ کل اس کے بہو، بیٹے بھی اس کے ساتھ ایسے ہی اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کریں گے کہ یہ تو طئے ہے کہ جو بویا جاتا ہے، کاٹنے کو بھی وہی ملتا ہے اور یہ خاندان اور ان کی محبتیں وہ چاہتیں جو آج ہمیں میسر ہیں۔ درحقیقت قدرت کا بہت بڑا انعام ہیں ۔ خوبصورت اور نازک رشتوں میں کڑواہٹ کے بجائے حلاوت گھولنے کے جتن کریں۔