اچھا آدھار۔ خراب آدھار

پی چدمبرم
ملک میں آدھار متعارف کرانے کا مقصد دراصل ایک منفرد شناختی نمبر ہر شہری کو فراہم کرنا تھا ، ایک ایسا نمبر جس میں توڑ مروڑ نہیں کی جائے گییا نہیں کی جاسکتی اس کی جعلی شکل تیار کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کا غیر مجاز استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہی سوچ کر آدھار کارڈ متعارف کروایا گیا۔ بہبودی ریاست یا مملکت پیسہ نقد رقم یا پھر فوائد کی شکل میں عوام کے حوالے کرتی ہے اس کی بہترین مثالیں اسکالر شپس، وظیفہ پیرانہ سالی ، وظیفہ معذورین اور ایل پی جی سلینڈر پر دی جانے والی سبسیڈی وغیرہ ہے۔ ہم نے پایا کہ ایک خانگی کالج میں فرضی طلبہ کے نام درج کئے گئے اور پھر اس نے اُن طلبہ کے نام پر اسکالر شپس کا دعویٰ کیا۔ ہم نے یہ بھی پایا کہ کئی گھروں میں ایل پی جی سلینڈرس کے دو یا دو سے زائد کنکشن ہیں اور ان لوگوں نے ڈیلرس کے ساتھ ساز باز کے ذریعہ ان سلینڈرس پر سبسیڈی کا دعویٰ کیا۔ ہم نے یہ بھی پایا کہ ایل پی جی ڈیلرس نے فرضی صارفین کے ناموں کا اندراج کیا اور پھر سبسیڈی حاصل کی۔ یہاں تک کہ اُن ڈیلرس نے ان فرضی صارفین کے ناموں پر حاصل کردہ ایل پی جی سلینڈرس ہوٹلوں، رسٹورنٹس اور شادی خانوں کو فروخت کئے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ غریب کے پاس اپنی شناخت ظاہر کرنے کا کوئی معتبر طریقہ یا ایسا طریقہ جس پر انحصار کیا جائے نہیں ہے، اس معاملہ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں نقل مکانی کرنے والے مزدور ( ورکرس ) گندی بستیوں میں رہنے والے لوگ، جنگلاتی علاقوں میں زندگی بسر کررہے خاندان اور سڑکوں و فٹ پاتھ پر زندگی گذارنے پر مجبور لوگ شامل ہیں کیونکہ ان کی رہائش کا کوئی تصدیق شدہ اتہ پتہ ہی نہیں، نہ ہی ان کے نام فہرست رائے دہندگان یا کسی بھی دوسرے سرکاری ریکارڈ میں شامل ہیں، وہ ایک راشن کارڈ بھی حاصل نہیں کرسکتے یا کسی اسکول میں اپنے بچوں کو داخلے دلاسکتے ہیں بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو پولیس، بلدیہ اور محکمہ جنگلات کے عہدیداروں کے رحم و کرم پر ہیں جو ان لوگوں سے آوارہ اور ناجائز قابضین جیسے عناصر کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک روا رکھتے ہیں۔
غریب اپنی کوئی شناخت نہیں رکھتے یا ان کی کوئی شناخت نہیں ہوتی ایسا نہیں ہے بلکہ وہ بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ ہر انسان کی اپنی ایک شناخت ہوتی ہے۔ لیکن وہ خود اپنے آپ کو نہیں پہچانتے۔ اپنی شناخت آپ نہیں کرسکتے اور اس کی سب سے اہم وجہ ان کی غربت ہے۔

یو پی اے حکومت نے غریبوں کے اس مسئلہ اور پریشانی اور بحران کو سمجھا اس سے مرتب ہونے والے اثرات کی شدت کو محسوس کیا اور سوچا کہ ہمارے یہاں ایک ایسا نظام ہونا چاہیئے جس سے ہر فرد کی مدد ہو۔ اگر اس کی شناخت کی ضرورت پڑے تب اسے پہچانا جائے، اور وہ شناخت فوائد یا خدمات سبسیڈی فراہم کرنے والے کیلئے قابل قبول ہونی چاہیئے۔ اسی وجہ سے ایک منفرد شناختی اتھارٹی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ یو پی اے حکومت کی اسی سوچ و فکر سے ہی آدھار اور یونیک آئیڈنٹی فکیشن اتھارٹی آف انڈیا (UIDAI) کا آئیڈیا پیدا ہوا۔ آدھار کا مقصد عوام کو سبسیڈیز یا رعایتی قیمتوں کے فوائد سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرنے کی خاطر ایک شناخت دینا تھا۔ چنانچہ اب کوئی بھی شخص باآسانی اور رضاکارانہ طور پر آدھار کارڈ حاصل کرسکتا ہے۔ اور کوئی بھی شخص آدھار حاصل کرنے سے انکار بھی کرسکتا ہے، آدھار کیلئے ناموں کے اندراج کا آغاز سال 2010 میں ہوچکا تھا۔
آدھار پراجکٹ کے تحت آدھار کارڈس کی فراہمی جنوری2013 سے شروع ہوئی اور اسے ڈائرکٹ بنیفٹ ٹرانسفر ( فوائد کی راست منتقلی ) (DBT) اسکیم کا نام دیا گیا۔ آدھار کارڈس کی اجرائی چونکہ آزمائشی بنیادوں پر تھی اس لئے اس کا آغاز زیادہ تیزی سے نہیں ہوا بلکہ چند اضلاع میں DBT کا آغاز کیا گیا اور اُسے اسکالر شپس ، ویلفیر پے منٹس ( بہبودی اسکیمات کیلئے رقومات کی ادائیگی ) ایل پی جی سبسیڈی وغیرہ کے حصول کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ ان مخصوص اضلاع میں جن خاندانوں یا افراد آدھار کارڈ کے حامل تھے انہیں مذکورہ بہبودی اسکیمات سے استفادہ کا موقع حاصل ہوا۔

مئی 2014 ء میں نئی حکومت تشکیل پائی ، بی جے پی نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے آدھار پراجکٹ کی شدت سے مخالفت کی تھی اپنے اقتدار میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے ابتداء میں آدھار پراجکٹ پر کچھوے کی چال چلی یعنی انتہائی سُست روی سے کام کیا لیکن بعد میں وہ آدھار کارڈ کی خوبیوں کی قائل ہوگئی۔ مسٹر نندن نیلکانی نے حکومت کو بہتر انداز میں سمجھایا جس پر حکومت کو اندازہ ہوا کہ آدھار کارڈ تو بڑی کام کی چیز ہے۔ مجھے تو شبہ ہے کہ ٹکنولوجسٹ مسٹر نلینکانی کی ترغیب کو حکومت نے زیادہ اہمیت نہیں دی ہوگی۔ لیکن اس وقت شاید آدھار کی اہمیت کو تسلیم کیا ہوگا جب کسی اور نے انتہائی ہشیاری سے حکومت کو اس کارڈ کے فوائد بتائے اور یہ بھی ترغیب دی کہ آدھار کارڈ دراصل ایک نگران ریاست یا پھر کسی پر کڑی نظر رکھنے والی ریاست کے قیام کا ایک پراجکٹ ہے۔این ڈی اے آدھار کے فوائد سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ جس شخص کے پا س اپنی شناخت ( آدھار کارڈ ) نہ ہو جو اپنی شناخت ثابت نہ کرسکتا ہو اس کی کوئی شناخت نہیں ہوگی۔ چنانچہ آدھار کارڈ عوام تک پہنچانے کیلئے مزید کئی سبسیڈیز فوائد اور خدمات کو اس کے تحت لایا گیا اور عوام کو یہ بتایا گیا کہ ان فوائد خدمات اور سبسیڈیز سے وہی لوگ استفادہ کرسکتے ہیں جن کے پاس آدھار کارڈس ہوں وزراء اور محکمہ جات نے بھی آدھار پر اصرار کرنا شروع کردیا ۔ غرض آدھار کو این ڈی اے حکومت نے عوام کی زندگی کے ہر پہلو سے مربوط کردیا اور ایسا صرف ایک آدھار نمبر کے ذریعہ کیا گیا ۔ حکومت نے تمام مخالفتوں کو بری طرح نظر انداز کردیا اور خاص طور پر بی جے پی کے رہنما یہ بھی بھول گئے کہ سب سے پہلے آدھار کی مخالفت کرنے والے وہی تھے۔ وقت گذرنے کے ساتھ مسئلہ سپریم کورٹ تک پہنچا ۔ آدھار بینک اکاؤنٹس، موبائیل ٹیلی فونس، ( سم کارڈ کے حصول ) وظائف کے حصول ، اسکولوں میں داخلوں ، امتحانات، میوچول فنڈ انوسٹمنٹس، انشورنس پالیسیوں، کریڈٹ کارڈس ، پوسٹ آفس کی اسکیمات، پی بی این اسکیمات ، کسان وکاس پتر اکاؤنٹس، مڈ ڈے میل اسکیم اور آئی سی ڈی ایس وغیرہ کیلئے لازمی تھا۔ سپریم کورٹ نے اس پر عبوری روک لگائی تاہم حکومت نے عبوری احکامات کو نظر انداز کردیا ۔ اور سپریم کورٹ کے سامنے کہا کہ آدھار کا مربوط رکھا جانا لازمی ہے اور اس کیلئے اس نے ایک قانون کا حوالہ دیا جسے رقمی بل کہا جاتا ہے جس کی عجیب و غریب اور مشکوک انداز میں منظوری عمل میں آئی تھی۔لیکن سپریم کورٹ کے وسیع تر دستوری بنچ نے عوام کی نگرانی کے حق میں رہنے والی حکومت کے پراجکٹ پر کاری ضرب لگائی۔ یہ فیصلہ 4:1 کے حساب سے دیا گیا ، جس میں آدھار پراجکٹ کو صرف ان سبسیڈیز، فوائد اور خدمات تک محدود کردیا گیا جن کی سی ایف آئی ( کنس لیڈیڈیٹ فنڈ آف انڈیا ) سے ادائیگی کی جاتی ہے یا کی گئی ہے اب عدالت نے کہا کہ اسکولس میں داخلوں بنک اکاؤنٹس کیلئے یا موبائیل فون کنکشن اور امتحانات کیلئے لازمی نہیں ہے۔ ایک بار ضرور ہے کہ سپریم کورٹ کے دستوری بنچ کے ہر فیصلہ نے ظلم کے رجحان کو کمزور کیا اور عوام کی آزادی کو بڑھایا۔
pchidambaram.india@gmail.com