اپوزیشن کا نیشنل فرنٹ، سنگھ پریوار کی نیند حرام

محمد ریاض احمد
ہندوستان میں 2019 کے عام انتخابات کے لئے اپوزیشن خصوصی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہوگئی ہے۔ اس معاملہ میں تلگودیشم سربراہ و چیف منسٹر آندھراپردیش مسٹر این چندرا بابو نائیڈو کافی سرگرم ہیں۔ 10 دسمبر کو دہلی میں اپوزیشن قائدین کا ایک اہم اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے، اس طرح کی اطلاعات چندرا بابو نائیڈو، ان کے قریبی ساتھیوں اور دیگر سیاستدانوں و میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آرہی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ مودی حکومت کے خلاف نیشنل فرنٹ کی تشکیل تقریباً یقینی ہوگئی ہے۔ اپوزیشن بشمول کانگریس اور اس کی زیر قیادت یو پی اے میں شامل تمام جماعتیں اس بات کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں کہ اب کی بار مودی سرکار نہ آئے۔ بی جے پی اور این ڈی اے کو شکست فاش ہو۔ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ ہندوستان میں نہ صرف جمہوریت اور سیکولر ازم بلکہ تمام دستوری اداروں کا وجود خطرہ میں ہے۔ اس سلسلہ میں اپوزیشن جماعتیں سی بی آئی (سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن)، این آئی اے (نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی)، ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ)، سی وی سی (سنٹرل ویجلنس کمیشن)اور عدلیہ جیسے اہم ترین اداروں میں حکومت کی راست و بالواسطہ مداخلت کا حوالہ دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل آوری میں مذہبی جذبات وعقیدہ کے بہانہ رکاوٹ پیدا کرنے کی کوششوں پر بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ملک میں فرقہ پرستی زوروں پر ہے، جانوروں کے تحفظ کے نام پر انسانوں کو ذبح کیا جارہا ہے، انہیں مارا پیٹا جارہا ہے، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے جان و مال کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی نریندر مودی حکومت نہ صرف خاموش تماشائی کا رول ادا کررہی ہے بلکہ اپنی خاموشی کے ذریعہ شر پسندوں اور فرقہ پرست درندوں کی تائید و حمایت کررہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی شریعت میں بڑی بے شرمی سے مداخلت کی جارہی ہے اور اس کے لئے مختلف بہانے بنائے جارہے ہیں، مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت کو مسلم خواتین سے کوئی ہمدردی نہیں ہیں، وہ ان کا استحصال کرر ہی ہے۔ مودی حکومت نے پچھلے ساڑھے چار برسوں کے دوران دعوے تو بہت کئے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے حکومت میں ملک نے کسی شعبہ میں ترقی کی ہے تو وہ فرقہ پرستی کا شعبہ ہے۔ اس معاملہ میں پچھلے ساڑھے چار برسوں کے دوران ہندتوا کی مذہبی جماعتوں نے وہی کردار ادا کیا ہے جو پاکستان میں وہاں کی مذہبی جماعتیں ادا کررہی ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ گنگا جمنی تہذیب، باہمی احترام و وقار، محبت و مروت اور سب سے بڑھ کر انسانیت کی بنیادوں پر قائم ہے لیکن پچھلے ساڑھے چار برسوں سے مودی حکومت میں ان بنیادوں کو کمزور کرنے کی پوری پوری کوشش کی جارہی ہے لیکن آثار و قرائین سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اب عوام مودی حکومت سے کافی بیزار ہوگئے ہیں۔ عوام کے خیال میں مودی حکومت نے ترقی کی بجائے صرف فرقہ پرستی کے ایجنڈہ کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔

عوام کو راحت چاہئے، لیکن مودی حکومت اور ان کی پارٹی بی جے پی عوام کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے میں مصروف ہے، شاید اسے اندازہ نہیں کہ ہندوستان میں اس طرح کی اوجھی حرکتیں طویل عرصہ تک چلنے والی نہیں ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران کسانوں نے دہلی میں پارلیمنٹ ہاوس کے قریب احتجاج کرتے ہوئے واضح کردیا کہ انہیں (کسانوں کو ) مندر نہیں قرض معافی چاہئے یعنی ان پر عائد قرض اسی طرح معاف کردیا جائے جس طرح اپنے دوست صنعت کاروں کے قرض معاف کئے ہیں۔ کسانوں نے سچ ہی کہا ہے کیونکہ آزادی کے بعد 70 سال کا عرصہ گذرچکا ہے۔ عوام بالخصوص کسان کبھی ایسے پریشان نہیں رہے جس طرح مودی حکومت میں پریشان ہوئے ہیں۔ مودی نے پہلے تو نوٹ بندی اور پھر جی ایس ٹی نافذ کرتے ہوئے عام ہندوستانیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس سے صرف صنعت کاروں اور دولت مندوں کو فائدہ ہوا جبکہ متوسط اور غریب ہندوستانیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پٹرول کی قیمتوں میں یو پی اے حکومت میں رہی قیمتوں سے دگنا اضافہ ہوا، پکوان گیس کی قیمتوں میں بھی تین گنا اضافہ دیکھا گیا۔ مہنگائی آسمانوں کو چھونے لگی ہے لیکن مودی اور ان کے ساتھ یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے لیکن ایسی ترقی صرف بی جے پی رہنماؤں، آر ایس ایس، اس کی ذیلی تنظیموں اور مودی حامی صنعت کاروں تک ہی محدود ہے۔ ترقی کے دعووں کے باوجود یہ تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی ہندوستان کی کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں آبادی کی اکثریت کو مناسب غذا نہیں ملتی، زیب تن کرنے کے لئے ان کے پاس کپڑے نہیں ہیں، تعلیم سے وہ بہت دور ہیں، بیماریوں کا شکار ہیں حقیقت میں دیکھا جائے تو آج ہمارے وطن عزیز کو غربت، بیماری، بیروزگاری، مہنگائی، آفات سماوی، فرقہ پرستی، توہم پرستی، شخصیت پرستی، مفاد پرستی، مودی، بی جے پی ، آر ایس ایس جیسے سنگیل مسائل کا سامنا ہے۔ بے شک یہاں بی جے پی آر ایس ایس اور مودی کو مسائل اس لئے کہا جارہا ہے کیونکہ عوام کے خیال میں گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران ان ہی کی وجہ سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں و دلتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے۔ ہر مسئلہ کو یہ لوگ فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔

عوام کو ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کی بجائے مذہب کے نام پر تقسیم کرکے انہیں فرقہ پرستی کے دلدل میں ڈھکیل رہے ہیں۔ بہرحال اگر اپوزیشن متحد ہوتی ہے تو 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کا برا حال ہوگا۔ آپ کو بتادیں کہ 2014 کے انتخابات میں بی جے پی نے اپنے بل بوتے پر 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جس میں اترپردیش سے سب سے زیادہ 71 نشستیں شامل تھیں اور ہیں۔ اس وقت امیت شاہ کو یوپی میں پارٹی کی انتخابی مہم کا نگران بنایا گیا تھا اور انہوں نے منقسم اپوزیشن اور فرقہ پرستی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنایا تھا لیکن اترپردیش میں اگر کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی متحد ہوکر مقابلہ کرتی ہیں تو پھر 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی 20 سے زائد نشستیں حاصل نہیں کرسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گورکھپور، پھول پور اور کیرانہ جیسے پارلیمانی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں سماج وادی پارٹی، بی ایس پی، نیشنل لوک دل کے اتحادی امیدواروں نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی میں بی جے پی قیادت کی نیندیں اڑادیں اور اب بھی بی جے پی کو ڈر ہے کہ کہیں 2019 کے عام انتخابات میں کانگریس، بی ایس پی، سماج وادی پارٹی اور اجیت سنگھ کی نیشنل لوک دل کہیں متحد نہ ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی، امیت شاہ اور بی جے پی کے دوسرے حکمت ساز اپوزیشن کو منتشر ہی رکھنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں بی ایس پی کی مایاوتی کو شکار بنایا جاسکتا ہے یا پھر سماج وادی پارٹی کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں کانگریس کی قیادت کو چاہئے کہ وہ اپوزیشن کو متحد کرنے کے لئے سرگرم ہوجائے۔ ملک اور عوام کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ چیف منسٹر آندھراپردیش چندرا بابو نائیڈو نے نیشنل فرنٹ کی تشکیل کا آغاز کردیا ہے اور وہ ممتابنرجی، مایاوتی، اکھلیش یادو، لالو پرساد یادو کے فرزند تیجسوی یادو، شردیادو ، شرد پوار اور کلیونٹ قائدین سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے مجوزہ نیشنل فرنٹ کا حصہ ہوگی اور 10 دسمبر کو کوئی اہم فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ چندرا بابو نائیڈو نے آندھرا پردیش کو خصوصی موقف کا مطالبہ کرتے ہوئے این ڈی اے سے تعلق توڑلیا تھا اور انہوں نے صرف اور صرف بی جے پی کی شکست کے لئے کانگریس سے ہاتھ ملایا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو جو کبھی مرکز میں مخلوط حکومت کو سیاسی مجبوری کہا کرتے تھے اپنا موقف تبدیل کرلیا ہے۔ اب وہ مخلوط حکومت کو جمہوری مجبوری قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک اچھی بات یہ کہی کہ تلگودیشم کے کانگریس کے ساتھ کوئی نظریاتی اختلافات نہیں ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اب ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی دوسری جماعتوں کے لئے اچھوت بن گئی ہے۔ اس کی فرقہ پرستی کے نتیجہ میں سیکولر جماعتیں اس سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ بی جے پی کے پاس اب سوائے فرقہ پرستی کے کچھ موضوع نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے بالواسطہ طور پر رام مندر کا مسئلہ چھیڑ رکھا ہے اور اس سلسلہ میں سنگھ پریوار کے قائدین اور بی جے پی لیڈروں کے عجیب و غریب بیانات منظر عام پر آرہے ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ پچھلے ساڑھے چار سال کے دوران بی جے پی یا سنگھ پریوار اور ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کو شری رام یاد نہیں آئے، رام مندر کی یاد انہیں نہیں ستائی۔ عین انتخابات سے قبل اس پریوار نے رام مندرکا مسئلہ پھر چھیڑا ہے جبکہ مودی اور سنگھ پریوار نے 2014 سے جو بھی کام کئے ہیں وہ راون کے ہی تھے اور اب رام کی مالا جپ رہے ہیں۔ عوام ہوشیار ہوچکے ہیں اب ان کی دال گلنے والی نہیں جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں کسانوں کے بارے میں لکھا ہے جنہوں نے صاف طور پر کہہ دیا ہیکہ ہمیں مندر نہیں قرض معافی چاہئے۔ جہاں تک 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا سوال ہے مدھیہ پردیش، راجستھان میں بی جے پی کا موقف بہت کمزور ہوچکا ہے۔ 11 دسمبر کو نتائج کے اعلان کے بعد ایک بڑی انقلابی تبدیلی ملک میں رونما ہوسکتی ہے۔ جہاں تک چھتیس گڑھ اور میزورام کا سوال ہے کانگریس کا موقف بہتر دکھائی دیتا ہے، تلنگانہ میں بھی کانگریس کی زیر قیادت چار جماعتوں کے اتحاد پیپلز فرنٹ کے بہتر مظاہرے کی توقع کی جارہی ہے۔ ان ریاستوں کے انتخابات 2019 کی حکمت عملی طے کردیں گے۔
mriyaz2002@yahoo.com