محمد ریاض احمد
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں جو کچھ ہوا ،گورنر وجو بھائی والا نے یدی یورپا کی زیرقیادت بی جے پی کو تشکیل حکومت کی جس طرح دعوت دی اورجس کے بعد جو حالات منظر عام پر آئے، اس بارے میں سارا ہندوستان جان گیا ہے۔ عوام کو یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ انتخابات میں بی جے پی بددیانتی سے کام لیتے ہوئے جمہوری اقدار کو پامال کررہی ہے اور اس کا مقصد ہر حال میں اقتدار پر فائز ہونا ہے۔ چاہے اس کے لئے اسے جمہوری اقدار دستور کو پامال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ بہرحال ایچ ڈی کمارا سوامی نے کانگریس کی مدد سے عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہوکر اپنے عہدہ اور رازداری کا حلف بھی لے لیا اور خط اعتماد بھی حاصل کرلیا۔ بی جے پی بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کو ہوئی سخت ہزیمت کا بے شمار اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر جشن منایا اور یہ یقینی ہے کہ 2019 ء کے عام انتخابات میں متحدہ اپوزیشن بی جے پی کا مقابلہ کرے گی اور یہ مقابلہ بی جے پی و مودی کے لئے مہنگا ثابت ہوگا۔ 2019 ء کے انتخابات عام انتخابات سے ہٹ کر ہوں گے اور یہ مقابلہ اپوزیشن بمقابلہ مودی ہوگا۔ اپوزیشن کے لئے مودی حکومت کو کئی محاذوں پر گھیرنے کا اچھا موقع ہے۔ سب سے زیادہ اپوزیشن پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، آسمان کو چھوتی مہنگائی، بے روزگاری کی بڑھتی شرح، مذہبی انتہا پسندی کا بڑھتا رجحان (ہندوتوا کی ایسی بے شمار تنظیمیں ہیں جو پاکستان کی مذہبی تنظیموں کی طرح مذہبی انتہا پسندی کا بازار گرم کئے ہوئے ہے اور مودی حکومت کے ساتھ ساتھ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں کی حکومتیں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے) خواتین اور لڑکیوں پر جنسی حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ، مالیاتی اسکامس، بینکوں کو لاکھوں کروڑ روپیوں کی دھوکہ دہی، صحت عامہ و تعلیمی شعبہ سے حکومت کی غفلت جیسے مسائل پر نریندر مودی حکومت کی ساکھ یا شبیہ کو بہ آسانی ملیا میٹ کرسکتی ہے لیکن اس کے لئے اپوزیشن کو بڑی حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اپوزیشن نے زرخرید غلام میڈیا کے پیش نظر سوشیل میڈیا کا سہارا لیا ہے جس سے بی جے پی، مودی اور ان کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کی عوام میں بدنامی ہورہی ہے۔ تاہم زرخرید غلام میڈیا خاص طور پر ٹی وی چیانلس ہر مسئلہ پر مودی حکومت کے گیت گارہے ہیں اس کی برائیوں کو اچھائیوں، خامیوں کو خوبیوں، ناکامیوں کو کامیابی کی شکل میں پیش کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ اپوزیشن کو اس مسئلہ پر بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سوشیل میڈیا پر مودی مخالف مہم کے اثرات کو دیکھتے ہوئے مودی اور امیت شاہ کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس بہت پریشان ہیں اس لئے ان لوگوں نے اپنے غلام میڈیا (ٹی وی چیانلس) کو 24 گھنٹے صرف مودی اور بی جے پی کے کارناموں کے لئے وقف کردینے کی ہدایت دی ہے اور یہ سب کچھ ٹی وی چیانلوں کے مالکین کے منہ سکوں سے بند کرکے کیا جارہا ہے۔ جب کروڑہا روپئے، رشوت، پرتعیش زندگی کا سامان مل جاتا ہے تو بُرائی کے خلاف کسی کی زبان نہیں کھلتی، کسی کا قلم نہیں چلتا، تمام کے آنکھ کان اور زبان بند ہوجاتے ہیں۔ اگر2019 ء میں اپوزیشن کو فتح حاصل کرنی ہو ، بی جے پی کی شکست کو یقینی بنانا ہو تو اسے سب سے پہلے اترپردیش پر تمام تر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے جہاں سے 80 ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔ فی الوقت اس ریاست میں 70 پارلیمانی نشستوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ دو پر کانگریس، 7 پر سماج وادی پارٹی اور ایک بی جے پی کی حلیف اپنا دل کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران گورکھپور اور پھولپور کے ضمنی انتخابات ہوئے۔
ان حلقوں کی بالترتیب چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ اور ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریہ نمائندگی کیا کرتے تھے لیکن مایاوتی کی بی ایس اور کانگریس نے ضمنی انتخابات میں ان حلقوں میں سماج وادی پارٹی کی تائید کی جس کے نتیجہ میں بی جے پی امیدواروں کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر 2019 ء کے عام انتخابات میں سماج وادی پارٹی، بی ایس پی اور کانگریس ایسے ہی اتحاد اور جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو 80 نشستوں میں سے کم از کم 40-50 نشستوں پر اس اتحاد کو کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر اپوزیشن ایسے میں بی جے پی کو شکست دیتی ہے تو مرکز میں اس کا حکومت تشکیل دینا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ ایک بات ضرور ہے کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد نے بی جے پی کے خیمہ میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ ایچ ڈی کمارا سوامی کی تقریب حلف برداری میں صرف چیف منسٹر اوڈیشہ نوین پٹناک اور چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے شرکت نہیں کی۔
کے سی آر نے تقریب حلف برداری سے ایک دن قبل ہی بنگلور پہنچ کر ایچ ڈی کمارا سوامی اور ان کے والد ایچ ڈی دیوے گوڑا سے ملاقات کی اور مبارکباد دی۔ کرناٹک میں کانگریس نے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود بروقت اقدام کرتے ہوئے بی جے پی کو ذلیل کردیا۔ ایک طرح سے کانگریس نے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت سے متعلق بی جے پی کی مبینہ کوششوں کو روکتے ہوئے اس کی سیاسی فحاشی پر ایسی روک لگائی کہ مودی سے لے کر امیت شاہ اور ناگپور کے آر ایس ایس ہیڈکوارٹر میں بیٹھے ان کے آقا بھی تلملا اُٹھے۔ یہ بات حوصلہ افزاء رہی کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کی اب یہی تمنا اور خواہش ہے کہ کسی بھی طرح بی جے پی اور مودی کو 2019 ء کے عام انتخابات میں اقتدار پر فائز ہونے سے روکا جائے۔ کرناٹک میں ایچ ڈی کمارا سوامی کی تقریب حلف برداری میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی، سی پی ایم جنرل سکریٹری سیتارام یچوری اور کیرالا کے مارکسٹ چیف منسٹر پنارائی وجین، لالو پرساد یادو کے فرزند اور بہار اسمبلی میں قائد اپوزیشن تیجسوی یادو، بی ایس پی سربراہ مایاوتی، این سی پی سربراہ شردپوار، آر ایل ڈی سربراہ اجیت سنگھ اور شرد یادو نے اپنی شرکت کے ذریعہ ملک کے سیکولر رائے دہندوں کو اچھا پیام دیا ہے۔ خاص طور پر سونیا گاندھی نے تمام اپوزیشن قائدین سے بڑی خوشدلی کے ساتھ ملاقات کی۔ مایاوتی کا انھوں نے گرمجوشانہ استقبال کیا۔ ایک ہی پلیٹ فارم پر مایاوتی، اکھلیش یادو اور اجیت سنگھ کا جمع ہونا 2019 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کے لئے خطرہ کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔ کیرانہ پارلیمانی حلقہ کا ضمنی انتخاب بھی منعقد ہونے جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کو اس حلقہ میں بھی گورکھپور اور پھولپور کی طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہار کے اسمبلی انتخابات میں جنتادل (یو) اور راشٹریہ جنتادل اور کانگریس نے جس طرح مہا گٹھ بندھن (عظیم تر اتحاد) تشکیل دے کر بی جے پی کو چاروں خانے چت کردیا تھا اسی انداز میں اتحاد تشکیل دے کر اپوزیشن بی جے پی کو 2019 ء میں چاروں خانے چت کرسکتی ہے۔ اس اتحاد کو مضبوط و مستحکم بنانے میں راہل اور سونیا گاندھی کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ویسے بھی کرناٹک انتخابات عام انتخابات کا ایک سیمی فائنل تھا اور کانگریس کی قیادت میں وہ سیمی فائنل اپوزیشن نے جیت لیا ہے۔ فائنل میں بھی راہول ، مودی کی حالت پتلی کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com