رشیدالدین
نریندر مودی اور بی جے پی کو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی خاموشی کے پیچھے کیا راز تھا۔ وزارت عظمیٰ پر فائز رہتے ہوئے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی خاموشی پر بی جے پی نے سخت تنقید کی تھی اور ان کی خاموشی کو لیکر لطیفے بھی بنائے گئے لیکن منموہن سنگھ ایک دانشور کی حیثیت سے اچھی طرح جانتے تھے کہ خاموشی میں ہی عافیت ہے۔ اس خاموشی کیلئے انہیں بہت کچھ برداشت بھی کرنا پڑا لیکن منموہن سنگھ نے آج تک بھی اپنے رویے کو تبدیل نہیں کیا۔ بیورو کریٹس سے محض اتفاقی طور پر سیاستداں بننے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سیاست کا حصہ بننے کے بجائے ماہر معاشیات کے طور پر ملک میں اصلاحات پر توجہ مبذول کی۔ نریندر مودی اپوزیشن میں رہتے ہوئے اور انتخابی مہم کے دوران منموہن سنگھ کی خاموشی پر طنز کرتے رہے لیکن اب اقتدار کے 13 ماہ میں انہوں نے منموہن سنگھ کے فارمولہ کو اختیار کرلیا۔ حکومت نے مختلف اسکامس کے منظر عام پر آتے ہی مودی کو خاموشی کے نسخہ میں عافیت دکھائی دینے لگی۔ دونوں کی خاموشی کے حالات بظاہر یکساں دکھائی دے رہے ہیں لیکن شخصیتوں کے اعتبار سے خاموشی کا جواز مختلف ہے۔ منموہن سنگھ چونکہ سیاستداں نہیںتھے اور وہ کانگریس اعلیٰ کمان کے تابع تھے، لہذا خاموشی ان کی مجبوری تھی لیکن نریندر مودی پر اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ نریندر مودی نے گجرات سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہوئے آر ایس ایس کی سرپرستی میں پارٹی کے تمام سینئر اور طاقتور سمجھے جانے والے قائدین کو گوشہ گمنامی کے حوالے کردیا۔ حکومت اور پارٹی پر مکمل گرفت رکھتے ہوئے اسکامس پر ان کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ نریندر مودی بھلے ہی اپنی خاموشی نہ توڑیں اور من کی بات عوام تک نہ پہنچائیں پھر بھی ان کی خاموشی خود حقیقت حال بیان کر رہی ہے۔ کرپشن فری حکمرانی اور اینٹی کرپشن کے دعوے کرنے والے مودی آج اپنے ساتھیوں کے کرپشن پر مہر بہ لب ہیں۔ انتخابات سے قبل مودی نے اینٹی کرپشن کا نعرہ دیا تھا لیکن الیکشن کے بعد اب یہ نعرہ عملاً ’’آنٹی کرپشن ‘‘ میں تبدیل ہوچکا ہے کیونکہ پارٹی کی 4 خواتین مختلف تنازعات میں پھنس چکی ہیں۔
ان حالات میں 21 جولائی سے شروع ہونے والا پارلیمنٹ کا سیشن یقینی طورپر ہنگامہ خیز ہوگا۔ اسکامس اور تنازعات کے بیچ نریندر مودی خاموشی سے ترقیاتی ایجنڈہ کی سمت عوام کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں تاکہ اسکینڈلس سے توجہ ہٹائی جائے۔ اسی مہم کے حصہ کے طور پر ’’ڈیجیٹل انڈیا ویک‘‘ کا اہتمام کرتے ہوئے نئی صنعتوں کے قیام، 4.5 لاکھ کروڑ کی سرمایہ کاری اور 18 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا خواب دکھایا جارہا ہے۔ ترقی اور عوامی بھلائی کے خواب دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن ترقی کیلئے شفاف اور بدعنوانی سے پاک حکمرانی لازمی ہے۔ اسکامس اور ترقی کبھی ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔ ترقی کی راہ میں اصل رکاوٹ اسکامس ہیں اور ان پر قابو پائے بغیر ترقی کی ہر کوشش بے فیض ثابت ہوگی۔ وزیراعظم نے ’’میک ان انڈیا‘‘ کے بعد اب ’’ڈیزائین ان انڈیا‘‘ کا نعرہ دیا ہے جس کے تحت ای گورننس کے بجائے موبائیل گورننس کا منصوبہ ہے۔ ملک ترقی کرے یہ کون نہیں چاہتا لیکن ترقی صرف کارپوریٹ گھرانوں کی نہیں بلکہ عام آدمی کی ہو۔ عوام کا معیار زندگی بلند ہو ، ترقی کے ثمرات غریب و متوسط طبقات تک پہنچیں۔ اگر اس سلسلہ میں واقع سنجیدہ کوشش ہوتی ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جاسکتا ہے لیکن پھر وہی سوال پیدا ہوگا کہ اس ترقیاتی منصوبہ میں کوئی بدعنوانی نہیں ہوگی اس کی کیا ضمانت ہے۔
ملک میں کارپوریٹ کلچر کے بڑھتے رجحان سے اندازہ ہوتا ہیکہ نریندر مودی ترقی سے متعلق گجرات ماڈل کو ملک بھر میں روبہ عمل لانا چاہتے ہیں۔ گجرات میں بدترین فسادات کے سبب دنیا بھر میں بدنامی کے بعد مودی نے ترقی پر توجہ دی تھی اور اب مرکز میں 13 ماہ کی حکمرانی کے بعد مودی نے ہوش کے ناخن لئے ہیں ترقی کے منصوبہ کی راہ میں دوسری اہم رکاوٹ جارحانہ فرقہ پرستی ہے۔ جب تک پرامن ماحول اور عوام میں باہمی یکجہتی نہیں ہوگی ، اس وقت تک ترقی کا تصور محال ہے۔ مودی کو کرپشن اور اسکامس کے ساتھ ساتھ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں پر بھی لگام کسنی ہوگی۔ ملک کے تمام بڑے کارپوریٹ گھرانے حکومت کے ساتھ کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ اس میں ایک دوسرے کے مفادات وابستہ ہیں لیکن پھر بھی سنجیدہ کوششوں کا فائدہ عام آدمی کو ہوسکتا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا ، میک ان انڈیا اور ڈیزائین ان انڈیا کے نعرے اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوں گے ، جب ملک کو کرپشن ، بدعنوانی اور فرقہ پرستی سے نجات ملے گی۔ ایک طرف بدعنوانیوں میں ملوث وزراء کی پشت پناہی اور دوسری طرف سماج میں نفرت کا زہر گھولنے والوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے آخر حکومت کس طرح ترقی کو یقینی بناسکتی ہے۔ اگر وزیراعظم حقیقی معنوں میں ترقیاتی منصوبے میں سنجیدہ ہوں تو انہیں اہم رکاوٹوں کو دور کرنے ایکشن میں آنا پڑے گا۔ اگر ترقی کے نام پر چند مخصوص صنعتی گھرانوں کو فائدہ پہنچانا مقصود ہو تو اس سے مزید اسکامس جنم لیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے ان صنعتی گھرانوں کے احسان کا بدلہ چکانے کا فیصلہ کرلیا ہے ، جنہوں نے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کیلئے سرمایہ کاری کی تھی ۔ ان کی سرمایہ کاری کے منافع کو لوٹانے کا وقت شائد آچکا ہے ۔ یوں بھی صنعتی گھرانے منافع کیلئے طویل انتظار کے قائل نہیں ہوتے۔ شائد مودی سیاسی اور عوامی سطح پر جاری تنقیدوں کو ترقی کے ایجنڈہ کی طرف موڑنا چاہتے ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا اسی کی ایک کڑی ہے۔ دراصل نریندر مودی لوک سبھا انتخابات کی طرح اکتوبر میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات کا سامنا ترقیاتی ایجنڈہ کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ فرقہ پرست ایجنڈہ کے سبب دہلی اور دیگر ریاستوں میں بی جے پی کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ نریندر مودی کو نفرت پر مبنی ایجنڈہ کے بجائے روزی روٹی اور روزگار کے ذریعہ عوام تک پہنچنا چاہئے ۔ یوں بھی ایک سال کے دوران وعدوں کی تکمیل کے سلسلہ میں نریندر مودی کا ریکارڈ ٹھیک نہیں ہے ۔ کسی بھی اہم وعدہ پر عمل نہیں کیا جاسکا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ مودی نے متنازعہ مسائل پر منموہن سنگھ کی طرح مون ورت اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
جہاں تک وزیراعظم کی خاموشی کا معاملہ ہے سیاسی امور سے ہٹ کر ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کے خواہاں عناصر کے تعلق سے بھی نرم رویہ صاف جھلک رہا ہے۔ یوگا کے بعد اب رکشھا بندھن تہوار کو قومی تہوار کے طور پر منانے کی بات کی جارہی ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے نیا شوشہ چھوڑتے ہوئے اسلامی عقائد پر حملے کی کوشش کی ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ آئندہ کے تہواروں تک اور کیا آوازیں اٹھیں گی۔ جس منظم انداز میں مذہبی اقلیت کے حوصلے پسند کرنے کی سازش ہے ، اس سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ یقین کامل ہونا چاہئے کہ کوئی بھی طاقت اسلامی عقائد اور شریعت کے مغائر امور کو مسلط نہیں کرسکتی۔ اسی جذبہ اور یقین کے ساتھ ساتھ وقت کا تقاضہ ہے کہ مسلمان ہوشمندی اور حکمت سے حالات کا مقابلہ کریں اور ملک کی ترقی میں حصہ دار بنیں۔ ایک طرف متنازعہ مسائل کے ذریعہ حوصلے پست کرنے کی کوشش تو دوسری طرف حکومت کا ترقیاتی ایجنڈہ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمان جذبات مسائل میں الجھ کر رہ جائیں اور ترقی کے فوائد سے محروم رہیں۔ جارحانہ فرقہ پرستی اور ترقیاتی ایجنڈہ پر ایک ساتھ عمل آوری دراصل اسی سازش کا حصہ ہے۔ وزیراعظم نے من کی بات پروگرام میں رکشھا بندھن کا ذکر کیا جو کہ ابھی دور ہے لیکن انہیں ماہ رمضان المبارک کا خیال نہیں ہے، جو جاری ہے۔ظاہر ہے کہ نریندر مودی اور ان کی حکومت کے پاس ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے جذبات کا کوئی پاس و لحاظ نہیں۔ مودی نے من کی بات میں رمضان اور عید کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو رمضان کی مبارکباد دینے میں پیش پیش رہے تاکہ دنیا کی نظروں میں اپنے قد کو بلند کریں۔الغرض حالات چاہے کچھ ہوں ، ان کا پامردی اور جوش کے بجائے ہوش سے مقابلہ کرتے ہوئے اقلیتوں کو اپنا حق حاصل کرنا ہوگا۔ ملک کے ہر ذرہ پر اقلیتوں کا مساوی حق ہے۔ لہذا ترقی کے فوائد میں بھی وہ برابر کے حصہ دار ہیں ۔ اسلام اور مسلم دشمن طاقتیں یہی چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کو تنازعات میں ا لجھاکر رکھ دیا جائے ۔ مخالفین بھلے ہی لاکھ سازشیں کریں ، لیکن ہم اپنے میں قابلیت اور صلاحیت پیدا کریں تو ترقی خود ہمارے قدم چومے گی۔
اہلیت اور صلاحیت کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا اور ساتھ میں عزائم ہو ں تو پھر روشن و تابناک مستقبل سے کوئی طاقت روک نہیں پائے گی۔ نوجوان نسل کو چاہئے وہ ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ناگزیر بن جائیں۔ پھر دیکھیں گے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں گھر آکر باوقار انداز میں اہم عہدوں پر پیشکش کریں گی۔ شرط یہ ہے کہ مسابقت کے اس دور میں اعلیٰ ترین اہلیت کے حامل بن جائیں ۔ ہم اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ ناانصافیوں کے ماحول میں انصاف حاصل کرسکتے ہیں۔ جس کی مثال مختلف شعبوں میں آج بھی مسلمانوں کی برتری ہے۔ ہندوستان آج تک ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا متبادل تیار نہیں کرسکا اور ملک کی تاریخ میں وہ ہمیشہ میزائیل میان اور بھارت رتن کی حیثیت سے جانے جائیں گے۔ ہمیں پست ہمت ہونے کے بجائے اپنے میں عبدالکلام تیار کرنے ہوں گے۔ ملک کے دیگر اہم شعبوں پر آج بھی مسلمانوں کا غلبہ ہے ، چاہے وہ فلم انڈسٹری ہو ، کھیل کا میدان یا تعلیمی شعبہ۔ ملک میں انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ کی حیثیت سے مسلم عہدیدار کو مقرر کیا گیا جو کہ مودی حکومت کا احسان یا مہربانی نہیں بلکہ یہ تقرر قابلیت کی بنیاد پر تھا۔ اسی عہدیدار کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قائم کردہ ادارہ سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ یقینا ً یہ قابلیت کی بنیاد پر ہی ہے۔ صدر جمہوریہ ، نائب صدر ، چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف الیکشنر کمیشن ، گورنر اور چیف منسٹر جیسے اعلیٰ ترین عہدوں پر مسلمان اپنی صلاحیتوں کے سبب فائز ہوچکے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ سائنس و ٹکنالوجی میں مہارت ترقی کا اہم زینہ ثابت ہوگی۔ اب صرف شکوے شکایتوں یا پھر ناانصافیوں کا ماتم کرنے کا وقت نہیں ہے۔ کب تک ہم ناانصافیوں کا رونا روتے ہوئے حالات سے ہار مان لیں گے۔ کب تک حالات اور حکمرانوں کے رویہ کا شکوہ کرتے ہوئے پست ہمت رہیں گے۔ اب خود کو اپنی سوچ و فکر کو بدلنا ہوگا۔ بقول احمد فراز ؎
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے