اپنے اسکوٹر کی یاد میں

میرا کالم مجتبیٰ حسین

جیسا کہ آپ جانتے ہیں دہلی میں فضائی آلودگی بہت ہوتی ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ دہلی کی اس فضائی آلودگی کا اصل سبب ہمارا وہ اسکوٹر ہے جو پچھلے ستائش (27) برسوں سے ہمارا رفیق رہا ہے ۔ ایک دن دہلی سرکار نے بیٹھے بٹھائے یہ حکمنامہ جاری کردیا کہ دہلی میں پندرہ سال پرانی جتنی بھی موٹریں اور اسکوٹریں ہیں انھیں یکم جنوری 2001 ء کے بعد دہلی کی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ دہلی میں جہاں ہر طرح کی گندگی سیاسی رہنماؤں کے ذریعہ پھیلائی جاتی ہے اس کے مقابلہ میں ہمارے دو پہیوں والے اسکوٹر کی فضائی آلودگی کیا حقیقت رکھتی ہے ۔ لیکن کیا کریں دہلی سرکار کا حکمنامہ تو جاری ہوگیا تھا ۔ کباڑی والے ہمارے پیچھے پڑگئے کہ دوچار سو روپئے لیجئے اور اس سے اپنے جان چھڑایئے ۔

اگرچہ دنیا کی نظر میں ہمارے اسکوٹر کی حیثیت دو کوڑی کی بھی نہیں رہ گئی تھی لیکن ہم تو اس کی قدر و قیمت کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ کیونکہ ہم نے اپنی زندگی کے پورے ستائیس برس اس اسکوٹر کی رفاقت میں گذارے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ دہلی میں اتنے برس رہ کر ہم نے جوکچھ بھی حاصل کیا ہے وہ اسی اسکوٹر کے بل بوتے پر کیا ہے ۔ آج ہم اسے کیونکر کباڑی والے کے حوالے کردیں ۔ اگرچہ ہم خود بھی پچھلے چار مہینوں سے اس اسکوٹر کو استعمال نہیں کررہے تھے لیکن ہر روز اس کی صفائی یوں کرواتے تھے جیسے ابھی اس پر بیٹھ کر چل نکلیں گے ۔ اصل میں اس اسکوٹر سے ہمارا جذباتی رشتہ کچھ ایسا نازک ہے کہ ہم اسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے ۔ یہ ہمیں 1974 میں اُس وقت ملا تھا جب بجاج کے اسکوٹر حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا ۔ لوگ اس کی بکنگ کروانے کے بعد برسوں اسکوٹر کے انتظار میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے ۔

اگر یہ کسی کو مل جاتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے اس کی لاٹری نکل آئی ہے کیونکہ بلیک میں اس کے دام اس کے اصل دام سے دو ڈھائی گنا زیادہ ہوا کرتے تھے ۔ شروع ہی سے ہمارا اصول رہا ہے کہ اپنی چادر کو دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ بلکہ چادر چھوٹی ہو تو اس کے پھیلاؤ میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنے پاؤں کو ہی کٹوالو ۔ اسی لئے دہلی میں اپنے قیام کے ابتدائی ڈیڑھ برس میں ہمارے پاس ایک آٹو سائیکل ہوا کرتی تھی جس پر بیٹھ کر ہم دہلی کے جان لیوا فاصلوں کو قابو میں کرلیا کرتے تھے ۔ یہ 1974 ء کی بات ہے جب ہمارے کرم فرما مسٹر محمد علی کرناٹک کے وزیر ٹرانسپورٹ ہوا کرتے تھے ۔ وہ جب بھی بنگلور سے دہلی آتے تو ہمیں بطور خاص یاد فرمایا کرتے تھے ۔ جب تک وہ دہلی میں رہتے ہمارا زیادہ تر وقت ان ہی کے ساتھ گذرتا تھا ۔ ایک رات ہم دیر گئے کرناٹک بھون سے واپس ہونے لگے تو محمد علی صاحب نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ وہ ہمیں گھر چھوڑ آئے ۔ اس پر ہم نے کہا ’’اس زحمت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم اپنی سواری پر ہیں‘‘ ۔ یہ سن کر محمد علی صاحب ہمارے ساتھ کرناٹک بھون سے باہر نکل آئے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ ہمارے پاس کونسی سواری ہے ۔

جب ہم نے اپنی آٹو سائیکل نکالی تو محمد علی صاحب نے کہا ’’تم جیسے بڑے ادیب کو آٹوسائیکل پر گھومتے ہوئے شرم نہیں آتی؟‘‘ ۔ ہم نے مذاق میں کہا ’’حضور ! وزیر ٹرانسپورٹ آپ ہیں۔ بھلا مجھے شرمانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ ہمارا یہ جملہ انھیں تیر کی طرح لگا ۔ فوراً ہمارا ہاتھ پکڑ کر کرناٹک بھون میں واپس لے گئے ۔ اپنے پرائیوٹ سکریٹری سے ایک کاغذ نکلوایا اور اس سادہ کاغذ پر ہمارے دستخط لے لئے ۔ ہم نے سوچا کہ شاید ہمارے آٹو گراف لئے جارہے ہیں ۔ اس کے بعد انھوں نے ہمیں گھر واپس جانے کی اجازت دیدی ۔ دوسرے دن محمد علی صاحب کو بنگلور واپس جانا تھا ۔ چوتھے دن ہم دفتر میں بیٹھے تھے کہ آصف علی روڈ سے بجاج اسکوٹر کے ایجنٹ کا فون آیا کہ حضور کرناٹک کے وزیر ٹرانسپورٹ نے اپنے خصوصی کوٹہ میں سے آپ کے لئے ایک اسکوٹر الاٹ کیا ہے ۔

آکر لے جایئے ۔ ہمیں یقین نہ آیا ۔ دوسرے دن ہم وہاں پہنچے تو سچ مچ ایک نیا نویلا اسکوٹر ہمارا انتظار کررہا تھا ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم نے اس وقت اس کے دام 4444 روپئے ادا کئے تھے ۔ ہم اسکوٹر لے کر گھر پہنچے تو اسی شام پٹنہ سے سہیل عظیم آبادی آگئے ۔ وہ پہلے اردو ادیب تھے جنھیں اس اسکوٹر پر ہمارے ساتھ بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ یوں نومبر 1974 ء کے آخری ہفتہ میں ہم نے اس اسکوٹر کو دہلی کی سڑکوں پر چلانے کا آغاز کیا تھا ۔ ہمیں یہ اسکوٹر اس لئے بھی عزیز رہا ہے کہ اسے ہمارے ایک بزرگ کرم فرما کی دین کی حیثیت حاصل تھی ۔ اسے ہم نے ہمیشہ ان کی ایک انمول نشانی کے طور پر جی جان سے سنبھال کررکھا ۔ کبھی اس کی سرویسنگ میں دیر نہ ہونے دی ۔ چنانچہ اتنے برس گذر جانے کے بعد بھی آج بھی وہ نئے اسکوٹر کی طرح دکھائی دیتا ہے ۔ ان دنوں دہلی میں موٹریں بھی کم تھیں اور اسکوٹر بھی ۔ لہذا ہمارا یہ اسکوٹر ہماری پہچان اور ہم اس اسکوٹر کی پہچان بنتے چلے گئے ۔

اس اسکوٹر کو حاصل کرنے کے بعد ہمیں یوں لگا جیسے دہلی کے سارے فاصلے سمٹ کر ہمارے ہاتھ کی لکیروں میں سمٹ گئے ہیں ۔ بہت عرصہ پہلے ہمارے ایک اور کرم فرما ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی نے ایک بار اسکوٹر چلانے والوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا ’’کبھی اسکوٹر نہ خریدو کیونکہ ہم نے آج تک کسی کتّے اور اسکوٹر چلانے والے کو آہستہ چلتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ ہمیشہ سرپٹ دوڑتا ہوا اور بلاوجہ بھاگتا ہو‘‘ ۔ ان کا یہ بیان بعد میں سچ بھی ثابت ہوا کیونکہ اس اسکوٹر کے آنے کے بعد ہم خواہ مخواہ ہی نقل و حرکت میں رہنے لگے ۔ دہلی کی کوئی سڑک اور کوئی گلی ایسی نہ تھی جہاں ہمارا اسکوٹر نہ گیا ہو ۔ لوگ آج بھی دہلی کی گلیوں اور سڑکوں کے بارے میں ہماری گہری واقفیت کو جان کر دانتوں میں انگلی دبالیتے ہیں ۔ یہ سب اسی اسکوٹر کا فیض ہے ۔ دس برس پہلے تک اس کا رفتار والا میٹر کام کرتا تھا ۔ ایک دن ہم نے یونہی حساب لگایا تو اندازہ ہوا کہ ہم پوری دنیا کا دو مرتبہ اس اسکوٹر پر بیٹھ کر چکر لگاچکے ہیں ۔ اس اسکوٹر پر بیٹھ کر ہم نے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ادبی ، سماجی اور تہذیبی محفلوں میں شرکت کی ۔ یہاں تک کہ یہ اسکوٹر نہ صرف ہماری پہچان بن گیا بلکہ اسے ہم سے بھی زیادہ شہرت حاصل ہوگئی ۔ ایک زمانہ میں ہم دیر سے گھر واپس جانے کے لئے بڑی شہرت رکھتے تھے ۔

گھر واپس جانے کے لئے بسا اوقات ہم راتوں میں اُس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے گھر کے سامنے سے گذرا کرتے تھے ۔ 1977 ء میں ایمرجنسی لاگو ہوئی تو وزیراعظم کی کوٹھی کے آس پاس حفاظتی انتظامات سخت کردئے گئے ۔ کبھی کبھار یہاں سے گذرنے والی گاڑیوں کی چیکنگ بھی ہوجایا کرتی تھی ۔ کم از کم دو مرتبہ ایسا ہوا کہ رات ہم دیر گئے یہاں سے گذرنے لگے تو اچانک گاڑیوں کی چیکنگ شروع ہوگئی ۔ چنانچہ ایک کانسٹیبل نے ہمارے اسکوٹر کو بھی روک لیا ۔ لیکن ادھر ہم نے بریک لگایا اور ادھر دور کھڑے ہوئے ہیڈ کانسٹیبل نے پکار کر کانسٹیبل سے کہا ’’اسے جانے دو یہ 3578 ہے ۔ یہ روز کی گاڑی ہے ۔ اسے جانے دو‘‘ ۔ اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ ہمارا اسکوٹر اب ہم سے زیادہ مشہور ہوگیا ہے ۔ اب آپ سے کیا بتائیں کہ کتنی ہی نامور ہستیوں نے اس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر ہمارے اسکوٹر کی عزت میں اضافہ فرمایا ہے ۔ اردو کا شاید ہی کوئی ایسا ادیب اور شاعر بچ رہا ہو جو اس اسکوٹر پر ہمارے ساتھ نہ بیٹھا ہو ۔ یہاں تک کہ کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی بھی دو ایک بار مختصر فاصلے تک اس پر بیٹھ چکے ہیں ۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ سیکڑوں آرٹسٹوں ، عہدیداران بالا ، ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی لیڈروں نے ہمارے اسکوٹر کو رونق بخشی ہے ۔ نتیجہ میں بعض تو بعد میں مرکزی کابینہ میں وزیر بنے اور بعض تو ریاستوں کے وزرائے اعلی بھی بنے ۔ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے لیکن ہم نے اپنے اسکوٹر کے ساتھ خوش اور مطمئن رہنے کو ضروری جانا۔

وفاداری بشرط استواری اسی کو تو کہتے ہیں ۔ اگرچہ ملک کے مایہ ناز آرٹسٹ ایم ایف حسین بھی ہمارے اسکوٹر کو رونق بخش چکے ہیں لیکن پاکستانی آرٹسٹ صادقین مرحوم کو ہمارا اسکوٹر کچھ اتنا پسند تھا کہ ٹیکسی لے کر ہمارے گھر آتے تھے اور ہماری اسکوٹر پر بیٹھ کر دہلی کی سیر کو نکلتے تھے۔واپسی میں ہمیں اور ہمارے اسکوٹر کو گھر چھوڑ کرپھر ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنے ٹھکانے پر روانہ ہوجاتے تھے ۔ جتنی دیر پیچھے بیٹھے تھے اتنی دیر تک اپنی انگشت شہادت کی مدد سے ہماری پیٹھ کر یا تو کوئی خیالی تصویر بنایا کرتے تھے یا آیات قرآنی کی خطاطی فرماتے تھے ۔ گرمی کے دنوں میں ایک رات پاکستانی گلوکار غلام علی ہمارے اسکوٹر کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ۔ شدید حبس کا عالم تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اس حبس سے بچنے کے لئے ہم یونہی اسکوٹر چلاتے رہیں لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ پیچھے بیٹھے بیٹھے کوئی نہ کوئی راگ الاپنا شروع کردیتے تھے ۔ نتیجہ میں ہمیں آگے بیٹھے بیٹھے پیٹھ پیچھے الٹی داد بھی دینی پڑتی تھی ۔ بیشتر اردو شاعروں کو اپنے اسکوٹر پر بٹھانے کی وجہ سے ہمیں اس طرح کے پوز میں داد دینے کی خاصی مہارت حاصل ہوگئی تھی ۔ اب کیسے بتائیں کہ اس اسکوٹر سے ہماری کتنی ہی قیمتی اور خوبصورت یادیں وابستہ ہیں ۔ ہم ان نامور خواتین کے نام یہاں نہیں لکھنا چاہتے جنھوں نے ہمارے اسکوٹر کی پچھلی سیٹ کو رونق بخشی ہے کیونکہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں (ایک تو ہماری اہلیہ محترمہ ہی ہیں)۔

ستائیس برس کے لمبے عرصے میں دو مرتبہ ہم اس اسکوٹر سے گرے بھی لیکن بعد میں اس کی کچھ ایسی مرمت کروائی کہ یہ بالکل نیانظر آنے لگا۔ اگرچہ پانچ چھ برس پہلے ہمارے پاس موٹر بھی آگئی تھی ۔ ہم اس میں بیٹھے ضرور لیکن اسے ہمارے بچے ہی چلاتے رہے ۔ جب بھی ہم اکیلے نکلے اپنے اسکوٹر پر ہی نکلے ۔ چار پانچ مہینے پہلے جب گھٹنوں کی سرجری کے بعد ہم اس کوچلانے کے قابل نہیں رہ گئے اور بعد میں دہلی کی سرکار نے بھی اس اسکوٹر کو دہلی کی سڑکوں پر چلنے کی قابل نہیں رکھا اور ایک کباڑی والا چار سو روپیوں میں اسے خریدنے کے ارادہ سے ہمارے گھر کے چکر لگانے لگا تو ہم نے پچھلے دنوں اپنے اس اسکوٹر کو بادیدہ نم پورے ایک ہزار روپئے خرچ کرکے حیدرآباد روانہ کردیا تاکہ یہ یاقوت پورہ میں ہمارے بڑے بھائی کے داماد عبدالجبار کے گھر میں محفوظ رہ سکے ۔ جس اسکوٹر کی رفاقت میں ہم نے اپنی زندگی کے کئی مرحلے طے کئے تھے آج وہ حیدرآباد میں چپ چاپ کھڑا ہے ۔ دہلی میں بیٹھ کر ہم جب بھی اس اسکوٹر کو یاد کرتے ہیں تو داغؔ کا شعر یاد آجاتا ہے ۔

ہوش و حواس ، تاب و تواں داغؔ جاچکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
(ایک پرانی تحریر)