ظفر آغا
ماہ رمضان المبارک اختتام کے قریب ہے اور عید کی خریداری اور تیاری اپنی شدت کو پہنچ چکی ہے۔ دل ہے کہ خوشیوں سے لبریز ہے، ہر کوئی عید کا منتظر ہے کہ گلے مل کر مبارکباد پیش کریں گے، کیا بوڑھے، کیا جوان، کیا بچے، کیا عورتیں، ہر ایک کے دل میں خوشی پھوٹ رہی ہے۔ اس موقع پر قارئین سیاست کو میری جانب سے عید سعید کی مبارکباد اور دعا ہے کہ ان کا ہر دن خوشیوں سے لبریز ہو۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ خود پروردگار نے ہر روز ایک جیسا نہیں بنایا، کیونکہ زندگی محض خوشیوں کے لئے نہیں ہے، بلکہ زندگی تو ایک امتحان ہے، جس میں ہر انسان کو سخت محنت و مشقت کا سامنا ہے۔ گو ہر شخص کی خواہش یہی ہے کہ زندگی کا ہر دن عید ہو، لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ انسان کی زندگی میں خوشی اور غم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پھر مسلمانوں کی زندگی تو یوں بھی آئے دن کسی نہ کسی الجھن کا شکار رہتی ہے۔اگر ہم عالم اسلام پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں عید کا دن بھی سخت محسوس ہو۔
ذرا غور کیجئے کہ یہی ماہ رمضان المبارک فلسطینیوں پر کتنا سخت گزر رہا ہے۔ اس مضمون کو لکھتے وقت فلسطین پر اسرائیلی حملوں کے 18 دن گزر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس دوران فلسطین میں ہر گھنٹے کم از کم ایک بچے کی موت واقع ہو رہی ہے۔ آخر یہ کیسی جنگ ہے کہ جس میں ضعیف، عورت اور بچے تک محفوظ نہیں ہیں۔ آخر یہ کیسی بمباری ہے کہ جس میں اسپتال اور اسکول بھی نشانہ بنائے جا رہے ہیں؟ یعنی اب فلسطین کے مریض اسپتال میں بھی زندگی کی امید نہیں کرسکتے اور نہ ہی بچے اسکول میں محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اب تک سیکڑوں فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور جو زندہ ہیں ان کی زندگی عذاب بنی ہوئی ہے۔ نہ پانی میسر نہ دانہ، بس یوں سمجھئے کہ فلسطین میں ہر کس و ناکس پر زندگی تنگ ہے۔ ایسے میں بھلا فلسطینیوں کی عید کس طرح ہوگی؟ کیا یہ عید فلسطینیوں کے لئے خوشی کا پیغام لاسکتی ہے؟۔ ہرگزنہیں، اس لئے ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی عید میں فلسطینی مسلمانوں کا غم بھی شامل رکھیں۔
ایک فلسطین ہی کیا، عالم اسلام پر جدھر نظر ڈالیں ایک خونچکاں داستان نظر آتی ہے۔ افغانستان میں بم دھماکوں میں آئے دن لوگ مارے جا رہے ہیں، پاکستان میں مساجد تک محفوظ نہیں ہیں، عراق اور شام میں جنگیں جاری ہیں، الغرض ہر طرف مسلمان پریشان حال ہیں اور عجیب کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسی صورت میں عید کی خوشیاں کس طرح دوبالا ہوسکتی ہیں؟۔ لیکن پھر بھی انسان تو انسان ہے، غموں کے درمیان بھی خوشی کا ایک لمحہ نکال ہی لیتا ہے۔ بے شک آپ سب کو یہ خوشی مبارک ہو، آپ کے بچے شادکام رہیں، لیکن اس خوشی کے موقع پر مسلمانوں کی ناگفتہ بہ عالمی منظر کو فراموش نہ کریں۔ یہ بھی سوچئے کہ آخر فلسطین، عراق، افغانستان اور شام وغیرہ میں مسلمانوں کا خون کیوں بہہ رہا ہے؟
کیونکہ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ اسی فلسطین میں حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مرد مجاہد نے دشمنوں کو شکست دی تھی، پھر ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ عباسی خلفاء کے دور میں بغداد دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک تھا اور لوگ دنیا کا بہترین علم حاصل کرنے کے لئے اسی بغداد کے مدارس میں داخلہ لیتے تھے، یعنی مسلمان انیسویں صدی کے آخر تک سپرپاور تھا، لیکن آج مسلم ممالک کا یہ حال ہے کہ دیگر ممالک کی فوجیں انھیں روند رہی ہیں۔ اِس دور کے مسلمانوں کا شمار دنیا کی پسماندہ قوم میں ہو رہا ہے، یہ قوم ہر جگہ ماری جا رہی ہے، اس کے جہادی خود مسلمانوں کے خلاف جنگ کر رہے ہیں اور ہر جگہ شکست اس کا مقدر بن چکی ہے۔ آخر کیوں؟
مسلمانوں کی تباہی کی وجوہات تو کئی ہیں، لیکن ایک جملہ میں اگر کہا جائے تو اصل وجہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے ماضی کا غلام ہو چکا ہے۔ مسلمان اس دور میں بھی عراق میں خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ عباسی دور خلافت کا عروج پھر حاصل ہو جائے، جب کہ اکیسویں صدی خلافت کی صدی نہیں، بلکہ جمہوریت کی صدی ہے۔ ہم آج بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے لئے مدرسے کافی ہیں، تب ہی تو افریقہ میں بوکو حرام کے مجاہد انگریزی اسکولوں میں تالے ڈال رہے ہیں۔ کیا دور حاضر میں کوئی قوم جدید تعلیم، جدید اسکول اور اعلی تعلیمی اداروں کے بغیر ترقی کرسکتی ہے؟۔ یہ وہ دور ہے کہ صرف بچے ہی نہیں بلکہ بچیوں کے لئے بھی جدید تعلیم لازمی ہے، لیکن ہمارے مجاہدین صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ درجنوں مسلم ممالک میں بچیوں کو اسکول جانے کی سزا دے رہے ہیں اور انھیں اپنی گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آخر یہ کیسے مجاہد ہیں اور یہ کونسا جہاد ہے؟۔
ان حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام میں جہاد نہیں بلکہ جہالت ہو رہی ہے، لیکن ہم اس گمان میں ہیں کہ جس طرح ماضی میں خلفاء کے سائے تلے مسلمان ترقی کر رہے تھے، اگر اس دور کا احیاء پھر ہو جائے تو مسلمان ایک بار پھر ترقی کرسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کا ماضی درخشاں تھا، لیکن اب دور بدل چکا ہے۔ حال ہی میں سائنس و ٹکنالوجی نے دنیا کی سیاست، معیشت، سماج اور تعلیم ہر شے کو بدل کر رکھ دیا ہے، لہذا مسلمانوں کو ماضی کو بھول کر حال کا مقابلہ کرنا چاہئے، جب کہ حال اسی کا ہوتا ہے، جس کی فکر حال سے ہم آہنگ ہو۔ اگر ہماری فکر میں تبدیلی نہیں آئی تو فلسطین میں اسرائیل وہی کچھ کرتا رہے گا، جو ان دنوں کر رہا ہے۔
دراصل فکر بدلتی ہے حال پر قدرت حاصل کرنے سے اور حال پر قدرت اسی وقت حاصل ہوتی ہے، جب اپنے دور کے علوم پر دسترس حاصل کی جائے۔ بدلے ہوئے زمانے میں اپنی سیاسی، سماجی اور تعلیمی قدروں کو بدلیں اور ماضی کو فراموش کرکے جدید فکر سے جڑ جائیں، تب ہی ہم مسلمانوں کی بقا اور ترقی ممکن ہے۔ اگر مسلمان اس دور میں بھی جہادی فکر اور جہادی حکمت عملی کا شکار رہے تو وہ کسی دوسرے کا نقصان نہیں، بلکہ خود اپنا نقصان کریں گے اور پھر نہ جانے کتنی عیدیں آئیں گی اور جائیں گی، لیکن ہم مسلمان ایک لمحہ کے لئے بھی حقیقی خوشی حاصل نہ کرسکیں گے اور ہمارے ساتھ نہ جانے کتنے غم لگے رہیں گے۔ لہذا اس موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ اپنی فکر میں تبدیلی لائیں گے اور اس کے بعد صحیح معنوں میں عید کی خوشیاں منائیں گے۔ اس کے بعد ہمارے مسائل بھی حل ہوں گے اور ہر دن ہمارے لئے عید کا دن ہوگا۔