اپنی رہنمائی پر اب غرور مت کرنا

 

کشمیر میں بے چینی … چین سے کشیدگی
انسانیت کے قتل پر دوہرا معیار کیوں ؟

رشیدالدین
ملک میں گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران داخلی محاذ سے زیادہ خارجی محاذ پر تناؤ اور بے چینی دیکھی گئی۔ جس طرح نریندر مودی حکومت داخلی صورتحال سے نمٹنے میں نا کام ثابت ہوئی ہے ، اب خارجی محاذ پر بھی حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ پر فائز کرنے کیلئے بی جے پی نے اچھے دن اور وکاس کا نعرہ لگایا تھا ۔ مودی کو وزارت عظمی مل گئی لیکن اچھے دن کے آثار اور اشارے دکھائی نہیں دیئے۔ مودی کی لفاظی سے متاثر ہونے والوں کے اچھے دن نہیں آئے اور نہ ہی ان کا وکاس ہوا ۔ برخلاف اس کے بی جے پی قائدین اور حکومت سے قربت رکھنے والے صنعت کاروں کیلئے وکاس کے ساتھ اچھے دن بھی آئے۔ تین برسوں میں جارحانہ فرقہ پرست زعفرانی بریگیڈ کو جیسے کھلی چھوٹ دیدی گئی اور انہوں نے مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا ۔ عدم رواداری کے مظاہرہ سے عوام پریشان تھے کہ داخلی صورتحال سے نمٹنے میں ناکام مودی حکومت سرحدوں پر کشیدگی میں الجھ کر رہ گئی۔ ایک طرف کشمیر کی بگڑتی صورتحال اور سرحد پر پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں نے وادی کی صورتحال کو دھماکو بنادیا تو دوسری طرف چین سے سرحدی تنازعہ نے ایک اور پڑوسی سے تعلقات کو بگاڑنے کا کام کیا ہے۔ ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرہ کی جگہ سرحدی اراضی کو لیکر دونوں ممالک میں اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ داخلی محاذ ابھی سنبھلا نہیں تھا کہ پڑوسیوں سے تناؤ میں حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ثبوت دیا ہے۔

اروناچل پردیش کے بعد سکم میں بھی چینی افواج کی مداخلت میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ جذباتی نعروں کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے والے آج خاموش کیوں ہیں؟ وزیراعظم نریندر مودی جنہوں نے گزشتہ تین برسوں میں وزیراعظم کے علاوہ وزیر خارجہ کی ذمہ داری نبھائی اور سشما سوراج کو برائے نام کردیا تھا، آج دو پڑوسیوں سے تنازعہ پر لب کشائی کرنے تیار نہیں۔ سشما سوراج کی علالت کے باوجود ان کے قلمدان کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ اب جبکہ کشمیر کی صورتحال اور چین سے سرحدی تنازعہ فوری توجہ کا طالب ہے۔ مودی نے عین وقت پر زبان بندی کرلی اور اپوزیشن سے مشاورت کی ذمہ داری سشما سوراج کو سونپ دی ۔ پارلیمنٹ سیشن سے قبل اپوزیشن کو دونوں حساس مسائل پر اعتماد میں لینا ضروری تھا تاکہ پارلیمنٹ میں تنقید سے بچا جاسکے۔ اسرائیل میں نتن یاہو نے ایسا کیا سکھادیا کہ مودی خاموشی میں عافیت تصورکر رہے ہیں۔ جرمنی میں جی 20 کانفرنس میں چینی صدر سے ملاقات ہوئی لیکن سرحدی تنازعہ پر بات چیت کے بارے میں دونوں ممالک کے دعوے مختلف ہیں۔ بیرونی دورہ سے واپسی کے ساتھ ہی مودی نے چپی سادھ لی جبکہ ان کی شناخت بولیوں سے تھی اور اچانک بولیاں بند ہوچکی ہیں۔ پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کا سہرا مودی نے اپنے سر لیا تھا لیکن آج چینی افواج کی مداخلت پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ 56 انچ کی چھاتی رکھنے والے وزیراعظم میں ہمت ہو تو چین کے ساتھ سرجیکل اسٹرائیک کا کھیل کھیلیں۔ چین نے کشمیر میں مداخلت کے اشارے دیئے ہیں، جو آنے والے دنوں میں رشتوں میں مزید بگاڑ کا اشارہ ہے۔ کشمیر میں امرناتھ یاتریوں پر حملہ ہوا لیکن آج تک مرکز اور ریاست نے سیکوریٹی میں کوتاہی کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ یاتریوں کی ہلاکت کے بعد سیکوریٹی میں ناکامی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے راجناتھ سنگھ اور کشمیر کے وزیر داخلہ کو مستعفی ہونا چاہئے تھا ۔ اس حملہ کے بارے میں متضاد باتیں کہی جارہی ہیں اور گجرات کے یاتریوں کی بس کو نشانہ بنانے پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کیونکہ گجرات میں انتخابات قریب ہیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی انتخابات قریب ہوں ، سرحدوں اور اندرون ملک ماحول کشیدہ ہوجاتا ہے ۔ اسے محض اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ گجرات ، کرناٹک ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں انتخابات قریب ہیں، ایسے میں سنگھ پریوار سرحدی کشیدگی ، کشمیر کی صورتحال اور امرناتھ یاتریوں پر حملہ کے واقعات پر اپنی سیاسی دکان چمکانے میں مصروف ہوچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ معصوم یاتریوں کی ہلاکتوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن ان واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ سرحد پر یا کشمیر میں کچھ ہو اس سے ہندوستانی مسلمانوں کا کیا تعلق ؟ انہیں کیوں شک اور نفرت کی نظر سے دیکھا جائے ۔ ملک کی تقسیم کے وقت ہندوستانی مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنا وطن اختیار کرتے ہوئے تقسیم کے نظریہ کو ٹھکرادیا ۔ مسلمان صرف ہندوستان کا حصہ نہیں رہے بلکہ انہوں نے تعمیر وطن میں گراں قدر حصہ ادا کیا، پھر بھی سنگھ پریوار کو مسلمانوں اور ان کی تاریخی علامات سے نفرت ہے۔ اگر مسلمانوں کی نشانیوں کو ہندوستان میں مٹادیا جائے تو پھر جنگل ، پہاڑوں اور ریگستان کے سواء کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ابنائے وطن کو مسلمانوں کا احسان مند ہوناچاہئے جنہوں نے ہر شعبہ میں ملک کا نام روشن کیا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ کشمیر کے حالات اور یاتریوں پر حملہ بی جے پی کیلئے اسمبلی انتخابات میں اہم موضوع رہیں گے۔ گجرات سمیت بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں حکومتوں کی کارکردگی سے عوام مایوس ہے۔ ان ریاستوں میں کوئی ایسا کارنامہ نہیں جس کی بنیاد پر بی جے پی عوام سے ووٹ مانگے۔ جب عوام سے متعلق کارنامے نہ ہوں تو سوائے جذباتی اور فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل کو ہوا دینے کے کوئی چارہ نہیں۔ اترپردیش میں وکاس کی جگہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ نے بی جے پی کو کامیابی دلائی اور یوگی ادتیہ ناتھ کو سنگھ پریوار کے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ریاستوں کی انتخابی مہم میں یوگی ادتیہ ناتھ بی جے پی کے اسٹار کیمپینر ہوں گے۔ یوگی نے اترپردیش کو ہندوتوا کے آغاز کی علامت میں تبدیل کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔

ایسے وقت جبکہ ملک میں نفرت کے سوداگر گاؤ رکھشکوں کا چولہ پہن کر مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ شیخ سلیم نامی ڈرائیور نے 50 امرناتھ یاتریوں کی جان بچائی ۔ چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھار کے دوران بے خوف ہوکر سلیم نے بس کو تین کیلو میٹر تک محفوظ مقام پہنچایا ۔ اگر وہ بس روک دیتے تو 50 یاتری بھی فائرنگ کی زد میں آتے۔ سلیم نے اپنی بہادری اور انسانیت کے جذبہ کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے جو مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سلیم کے اس کارنامہ کو قومی میڈیا نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی ۔ اگر یہی معاملہ الٹا ہوتا تو میڈیا میں کئی دن تک اس مسئلہ کو اچھالا جاتا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نریندر مودی بذاتِ خود سلیم کو ملاقات کیلئے مدعو کرتے۔ جس نے نفرت کے اس ماحول میں انسانیت کا چراغ روشن کیا۔ سلیم ڈرائیور نے اپنی مذہبی تعلیمات کا یہ مظاہرہ کیا تو دوسری طرف یاتریوں پر حملہ کی آڑ میں سیاست کرنے والے بجرنگ دل کارکنوں نے اترپردیش کی ایک مسجد میں مسلمان کو نشانہ بنایا۔ ڈرائیور سلیم نے یہ پیام دیا کہ فرقہ وارانہ جنونی بھلے ہی مسلمانوں کو نشانہ بنائیں لیکن ہم تعلیمات اسلامی سے انحراف نہیں کریں گے ، جس میں ایک بے قصور کی جان بچانے کو انسانیت کی جان بچانا قرار دیا گیا ہے۔ ڈرائیور کا مسلمان ہونا زعفرانی بریگیڈ کو ہضم نہیں ہورہا ہے ۔ اگر ڈرائیور کوئی اور ہوتا تو مرکز اور ریاست گجرات کی حکومتیں اسے سر آنکھوں پر بٹھاتیں اور انعام و اکرام کی بارش ہوتی۔ امرناتھ یاتریوں کی ہلاکتوں کی ملک بھر میں بلا لحاظ مذہبی اور سیاسی وابستگی ہر کسی نے مذمت کی۔ یاتریوں کی ہلاکتوں یا گاؤ رکھشکوں کی جانب سے مار مار کر ہلاک کرنا دونوں انسانیت کا قتل ہے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ جب دونوں جگہ انسان کا قتل کیا گیا تو پھر مذمت میں جانبداری کیوں ؟ جس شدت کے ساتھ امرناتھ یاتریوں کی ہلاکتوں کی مذمت کی گئی ، اسی طرح گاؤ رکھشکوں کے مظالم کے خلاف یکساں آوازیں اٹھنی چاہئے ۔ وزیراعظم سے لیکر سنگھ پریوار کے تمام قائدین امرناتھ یاتریوں کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی مذمت کرنے میں شامل ہوگئے ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ قائدین مسلمانوں کی ہلاکتوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتے لیکن یہ اس لئے ممکن نہیں کیونکہ کوئی بھی اپنے تربیت یافتہ کارکنوں کی مذمت نہیں کرسکتا۔ کشمیر کے واقعہ کے خلاف بیان بازی میں مسلم قائدین بھی ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا دیش بھکتی ثابت کرنے کیلئے مذمتی بیان دینا ضروری ہے یا پھر کوئی احساس کمتری ہے جس کے تحت بیان بازی کی جارہی ہے ۔ دہشت گردی بہرحال دہشت گردی ہے چاہے وہ کشمیر ہو یا پھر ملک کے کسی حصہ میں۔ جس طرح امرناتھ یاتریوں کی زندگی ملک کیلئے عزیز ہے ، اسی طرح اخلاق ، جنید ، پہلو خاں اور دیگر 26 سے زائد مسلمانوں کی زندگی بھی سارے ملک کو عزیز ہونی چاہئے کیونکہ وہ اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہے۔ سنگھ پریوار اگر امرناتھ یاتریوں پر حملہ کی مذمت کرتا ہے تو اسے مکہ مسجد اور اجمیر بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی بھی مذمت کرنی چاہئے لیکن سنگھ نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ واقعات کی مذمت میں ملک کا ایک ہونا کافی نہیں بلکہ خاطیوں کے خلاف کارروائی اہمیت کے حامل ہے۔ گاؤ رکھشکوں کے خلاف آج تک بھی کسی حکومت نے کارروائی نہیں کی۔ آخر اس طرح کا دوہرا معیار کب تک چلے گا۔ ہندوستان نے پھر ایک بار کشمیر سمیت تمام مسائل پر پاکستان سے بات چیت کا پیشکش کیا ہے جبکہ وزیراعظم کے دفتر میں وزیر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ہندوستان کا ایجنڈہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کو حاصل کرنا ہے۔ اب اس میں کس بیان کو درست مانا جائے ۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے ؎
اپنی رہنمائی پر اب غرور مت کرنا
آپ سے بہت آگے نقش پا ہمارا ہے