اٹل جی کی موت

عمر عبداللہ
مودی کو ڈراما بازیوں کیلئے نیا پلاٹ مل گیا
یہ دنیا بڑی ظالم ہے ، جب کوئی زندہ ہوتا ہے تو اس کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اور جب وہ بستر مرگ پر ہوتا ہے تو تب بھی اس کے پرسان حال کوئی نہیں ہوتے لیکن جب کسی کی موت سے فائدہ اٹھانے کے وقت آتا ہے تو پھر سیاسی لیڈر شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنانے لگتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ڈراما ہندوستان کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی موت کے ساتھ ہی ملک کے موجودہ وزیراعظم نریندرمودی نے شروع کردیا ہے۔ مسٹر مودی ایک کامیاب وزیراعظم سے زیادہ اپنے بھاشنوں (تقاریر) اور ڈراما بازی (مگرمچھ کے آنسو) بہانے کیلئے کافی مشہور ہوچکے ہیں۔ آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کی موت تو بظاہر 16 اگست 2018 ء کو ہوئی ہے لیکن حقیقت میں وہ اس دنیائے فانی سے کب کوچ کرگئے ، یہ تو وہی لوگ بتاسکتے ہیں جنہوں نے شاید سیاسی مفادات کے پیش نظر واجپائی کی موت کا اعلان 16 اگست کو کیا ہے ۔ واجپائی کی موت کے بعد سے ہی مودی کی ڈراما بازی کا آغاز ہوگیا ہے کیونکہ مودی اب واجپائی کی موت کو انتحابات 2019 ء میں ’’کیاش‘‘ کروانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے کیونکہ واجپائی کی موت سے بی جے پی کو جو پہلے ہی 2014 ء کے انتخابات میں کرچکی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہے ، اسے اپنی ڈوبتی کشتی بچانے کیلئے واجپائی کی موت کا ’’چپو‘‘ مل چکا ہے ۔ مودی کی ڈراما بازی کی ابتداء لال قلعہ پر یوم آزادی کے موقع پر ان کے ممکنہ آخری خطاب میں ہوگئی ہے کیونکہ گزشتہ 4 خطابات میں انہوں نے تاریخی قلعہ کی فصیلوں میں تقریر کے دوران بی جے پی کو 2 سے 200 نشستوں کی جماعت بنانے والے واجپائی کا کبھی تذکرہ نہیں کیا لیکن اچانک 14 اگست کو واجپائی کی عیادت کے بعد انہوں نے اگلے دن لال قلعہ سے قوم کو خطاب کرتے ہوئے واجپائی کی مداح سرائی شروع کردی۔ واجپائی کی موت کے ساتھ مودی کی جو ڈراما بازی شروع ہوگئی ہے اس کا ہم تذکرہ نہیں کر رہے ہیں جبکہ اٹل جی کی بھتیجی کرونا شکلا نے اپنی شکایت میں اشارہ دے دیا ہے ۔ کرونا شکلا نے کہا ہے کہ ووٹ کی خاطر یہ سب ڈراما کیا جارہا ہے ۔ جیتے جی اٹل بہاری واجپائی کو پوچھنے کی بات تو درکنار انہوںنے کبھی نام تک لینا گوارا نہیںکیا ۔ کرونا شکلا نے سخت الفاظ میں یہ تک کہہ دیا کہ یہ ڈراما بازوں کی ٹولی واجپائی کے مرنے کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ جیسے ہی وہ مریں تو یہ ڈراما باز اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہونے میں سرگرم ہوجائیں۔ آج واجپائی کیلئے جو کچھ کرنے کی چیخ پکار ہورہی ہے ، کیا ان کی زندگی میں وہ نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ کرونا شکلا نے اپنے غم و غصہ کے دوران ڈراما بازوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک بہترین جملہ بھی کہا کہ ’’ان کی یاد میں 5 میل پیدل چلنے سے زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ ان کے اصولوں پر 2 قدم چل لیں‘‘ ۔
کرونا شکلا کا اشارہ شائد مودی جی کے اس ڈراما بازی کی طرف تھا ، جب مودی آنجہانی اٹل جی کی ارتھی کے ساتھ پیدل چل رہے تھے ۔ مودی جی کی ڈراما بازیوں کا آغاز ایسا لگتا ہے کہ 14 اگست سے ہی شروع ہوگیا تھا ، جب انہوں نے واجپائی کی عیادت کیلئے دواخانے کا رخ کیا تھا ، تب ہی انہوں نے ذہن تیار کرلیا تھا کہ کس طرح بی جے پی میں ہردالعزیز اور قد آور لیڈرکی موت کا فائدہ اٹھایا جائے۔ دواخانے میں عیادت سے لیکر آنجہانی واجپائی کی ارتھی کے ساتھ پیدل چلنے کے بعد ان کی استھیوں کے استعمال تک مودی کی ڈراما بازیاں سب پر عیاں ہوئی ہیں جبکہ واجپائی کی موت پر وہ ابھی کونسی گندی چالیں چلیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن جو کچھ انہوں نے 14 اگست تا 18 اگست کے دوران کیا وہ ایک گری ہوئی سیاست کی ترجمانی کرتا ہے ۔ 14 است کو دواخانے میں عیادت کے بعد 15 اگست کو لال قلعہ سے قوم کو مخاطب کرنے کے دوران مودی نے پہلی مرتبہ اٹل جی کا نام لیا اور تبھی سے ہی بی جے پی نے ان کی موت پر سیاسی فائدہ اٹھنے اور ووٹوں کو سمیٹنے کی منصوبہ بندی پر وائیٹ پیپر جاری کرلیا تھا ۔ موت کے بعد آنجہانی اٹل جی کی ارتھی یاترا میں پیدل چلتے ہوئے مودی جی نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ۔ موت سے فائدے اٹھانے میں سیاسی حربوں میں پہلا کھیل اٹل جی کی استھیوں کے ساتھ کھیلا گیا ہے جس کیلئے مودی نے ایک تقریب (جو بظاہر خراج عقیدت تھا) منعقد کی جس میں اسٹیج پر 25 – 20 لوٹوں میں سابق وزیراعظم کی استھیاں تھیں ، یہاں ایک خاص پوجا کی گئی جس میں مودی اور امیت شاہ آگے آگے نظر آئے اور ہر ریاست سے چنندہ اور خاص افراد کو اسٹیج پر طلب کیا گیا جو ظاہر کرتا ہے کہ 2019 ء کے انتخابات میں بی جے پی کے اقتدار کی بقاء کی بھاری ذمہ داری انپر عائد ہونے والی ہے اور ان خاص افراد کے حوالے ایک ایک استھی کا لوٹا حوالہ کیا گیا تاکہ وہ اپنے اپنے صوبوں کی ندیوں میں ان استھیوں کو بہا دیں۔ ندیوں میں استھیوں کو بہانے سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکومت نے اپنے ہردالعزیز سابق وزیراعظم کی آخری رسومات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن اس کے درپردہ ان منصوبوں کی جھلک صاف دکھائی دے چکی ہے کہ مودی اینڈ کمپنی نے استھیوں کو اپنے اپنے صوبوں میں لے جانے کے ساتھ اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے منصوبوں پر عمل آوری شروع کردی ہے ۔ یہ سب سیکولر ہندوستان میں ہورہا ہے جہاں دستور کی رو سے حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے لیکن اس کی خلاف ورزی میں مودی حکومت نے غم کی اس تقریب کو ایک خاص مذہب کے تحت ہی انجام دی ہے ۔ استھیوں کو سرکاری سہولیات فراہم کرنے کیلئے 20 صوبوں میں تو بی جے پی حکومت موجود ہے اور جن صوبوں میں بی جے پی حکومت نہیں ہے ، وہاں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلوانے کیلئے آنجہانی کی استھیوں کا استعمال کیا جائے گا ۔ کسی کی موت کی تقریب کو ایک سیاسی ایونٹ میںتبدیل کرنے میں مودی اور ان کے ساتھی امیت شاہ ماسٹر ثابت ہوئے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کس طرح کسی کی موت کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس وقت اٹل بہاری واجپائی ہندوستان کے وزیراعظم تھے اس وقت گجرات فسادات پر انہوں نے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس وقت گجرات کے چیف منسٹر مسٹر مودی کو ’’رام راج‘‘ بنانے کا بظاہر مطالبہ کیا تھا اور اس موقع پر اڈوانی درمیان میں آتے ہوئے مودی کو بچا لیا تھا لیکن آج اڈوانی کی درگت بنی ہوئی ہے اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب ان کی کارستانیوں کا خمیازہ ہے۔ زندگی میں جہاں واجپائی اور مودی میں شدید اختلافات والا رشتہ نہ سہی لیکن کوئی شدت والے پیار کا رتبہ بھی نہیں تھا ۔ واجپائی کی موت پر جو کچھ مودی نے اپنے خراج عقیدت کے نام پر کیا ہے وہ ڈراما بازیاں ہی ہیں۔ آخر میں ہمیں اٹل جی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا جانے والا جملہ یاد آرہا ہے کیونکہ کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ’’کمل چلا گیا ، اب کیچڑ ہی کیچڑ ہے‘‘۔