اٹارنی جنرل کی رائے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کی کوشش

نئی دہلی 26 جولائی ( سیاست ڈاٹ کام ) کانگریس نے آج اٹارنی جنرل مکل روہتگی پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قائد اپوزیشن مسئلہ پر ان کی رائے در اصل اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش تھی ۔ مکل روہتگی نے قائد اپوزیشن مسئلہ پر کل اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس پارٹی یہ عہدہ حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ۔ کانگریس کے ترجمان آنند شرما نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی رائے اس کاغذ سے زیادہ اہم نہیں ہے جس پر یہ تحریر کی گئی ہے ۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ اٹارنی جنرل نے اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کا بیان دیا ہے ۔

اٹارنی جنرل ایک ٹکراؤ کا رویہ رکھنے والی حکومت کے جانبدارانہ رویہ کیلئے معذرت کی رائے پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ کس قانون کے تحت اٹارنی جنرل نے قائد اپوزیشن مسئلہ پر اپنی رائے دی ہے ۔ یہ امید تھی کہ اٹارنی جنرل قانون کو بہتر انداز میں سمجھیں گے اور قانونی امور کے مطابق ایسی رائے نہیں دینگے جو ان کے عہدہ کے مغائر ہو ۔ قائد اپوزیشن کے مسئلہ پر کانگریس کی کوششوں کو جھٹکا دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کل اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ کانگریس پارٹی اس عہدہ پر ادعا کا حق نہیں رکھتی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ پہلی لوک سبھا کی تشکیل کے بعد سے اب تک کانگریس کے ادعا کی تائید میں کوئی مثال بھی نہیں ملتی ۔ روہتگی نے اپنی رائے سے اسپیکر لوک سبھا سمترا مہاجن کو واقف کروادیا تھا ۔ سمترا مہاجن نے ان سے اس مسئلہ پر رائے طلب کی تھی ۔ یہ واضح کرتے ہوئے کہ اگر قائد اپوزیشن کا تقرر عمل میں نہیں کیا جاتا ہے تو جن تقررات میں اس کی ضرورت ہے وہ بہت پیچیدہ ہوجائیں گے ۔

اہم ترین تقررات میں اپوزیشن کا رول بھی ضروری ہوتا ہے ۔ مسٹر آنند شرما نے کہا کہ ان کی پارٹی کو اگر یہ عہدہ نہیں دیا جاتا ہے تو وہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی گریز نہیں کریگی ۔ مسٹر شرما نے کہا کہ یہ سب کچھ حکومت کے ارادوں کو ظاہر کرتا ہے ۔ حکومت در اصل اسپیکر پر دباؤ ڈال رہی ہے جبکہ اسپیکر کو غیر جانبداری سے کام کرنا چاہئے ۔ آنند شرما نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اسپیکر اس مسئلہ پر اٹارنی جنرل کی رائے کو مسترد کردینگی ۔ اٹارنی جنرل کی رائے کا مقصد صرف عاملہ کو اور سیاسی آقاوں کو خوش کرنا ہے ۔ مسٹر شرما نے کہا کہ یہ مسئلہ در اصل اسپیکر اور ہندوستانی پارلیمانی جمہوریت کیلئے ایک امتحان سے کم نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ پر قانون بالکل واضح ہے اور اس کو کسی مثال سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سینئر لیڈر منیش تیواری نے کہا کہ کانگریس دوسری بڑی جماعت ہونے کے ناطے قائد اپوزیشن کا عہدہ حاصل کرنے کی اہل ہے اگر آپ پارلیمانی روایات اور قوانین کو بھی دیکھیں تو کانگریس اس کی حقدار ثابت ہوتی ہے ۔ انہوں سنے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اٹارنی جنرل نے جو رائے دہی ہے وہ بجائے خود ایک رائے ہی ہے اور جس کسی نے یہ رائے طلب کی تھی اس کیلئے اس رائے کو مان لینا یا عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا ۔ مسٹر تیواری نے کہا کہ خود اٹارنی جنرل نے جو رائے دہی ہے اس میں انہوں نے ایک ایسے رول کا حوالہ دیا ہے جس کو کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جو بات ذہن نشین رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ 1993 سے جب پارلیمنٹ میں حقوق انسانی کمیشن کے قیام کیلئے قانون منظور کیا گیا قائد اپوزیشن نے ہر اہم اور حساس تقرر میں اہم ترین رول ادا کیا ہے جس سے ملک کو ایک سمت حاصل ہوتی ہے ۔ ایسے میں اگر آج کانگریس پارٹی کو قائد اپوزیشن کے عہدہ سے محروم کردیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اپوزیشن کی آواز دبادی گئی ہے ۔ یہ اقدام عملا اکثریتی اور آمرانہ و غیر جمہوری ہوگا کیونکہ جمہوریت کا لازمی جز یہ ہے کہ جہاں ایک پارٹی برسر اقتدار ہو وہیں ایک پارٹی اپوزیشن کی بھی ہو۔ کانگریس لیڈر ابھیشیک مانو سنگھوی نے بھی کہا کہ انہیں اٹارنی جنرل کی رائے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے ۔ ان کے خیال میں اٹارنی جنرل نے نہ صرف حکومت کے موقف کا اعادہ کیا ہے بلکہ وہی کچھ کہا ہے جو حکومت سننا چاہتی تھی ۔ حکومت اور کانگریس پارٹی کے مابین قائد اپوزیشن کے مسئلہ پر ایک تکرار چل رہی ہے اور کانگریس پارٹی یہ عہدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔