آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا!

ظفر آغا
’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘۔ جی ہاں کرناٹک میں آخر ی لمحوں میں مودی اور سنگھ کی تمام تدبیریں الٹی ہو گئیں اور صوبہ میں بی جے پی کا کام تما م ہو ا۔یہ بات اس لئے اہم ہے کہ وہاں بی جے پی نے حکومت بنانے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا۔ نریندر مودی نے خود کمان سنبھالی اور کانگریس کے خلاف جنگ میں خود قیادت کی۔ ان کے کمانڈر امیت شاہ نے پانی کی طرح دولت بہا کر چناؤ جیتنے کے لئے ہر جوڑ توڑ اور ترکیب کا استعمال کیا۔ اس کو بانٹو ، اس کو خریدو تو اس کے خلاف دس دس آزاد امیدوار کھڑے کر دو تاکہ کسی طرح سے کانگریس ہارے۔ اور آخر نتیجہ کیا نکلا! کانگریس اور جنتا دل (سیکولر) نے چناؤ جیتنے کے بعد اتحاد کیا اور اب شان سے دونوں پارٹیوں کی حکومت اقتدار میں ہے۔
اس کے معنی کیا ہیں! سب سے پہلے تو کرناٹک نے یہ طے کر دیا کہ ہندوستان بدل رہا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہندوستانی عوام کو نریندر مودی کا اصل رنگ روپ بھی نظر آنے لگا۔ وہ مودی جو سنہ 2014 میں بطور ساحر ہندوستانی سیاسی افق پر چمکے تھے وہ مودی اب ختم ہو چکے ہیں۔ ہر ہندوستانی کو سبز باغ دکھانے والا مودی اب لوگوں کو دھوکے باز نظر آنے لگا ہے۔ کیونکہ نوجوانوں کو نوکریوں کی امید تھی وہ تو ملی نہیں، الٹے مودی راج میں لاکھوں نوکری سے باہر ہو گئے۔ وہ پندرہ لاکھ جس کا وعدہ تھا وہ تو ہَوا ہوا، ساتھ میں نیرو مودی جیسے ہزاروں کروڑ لوٹ کر ہندوستانیوں کی بینکوں میں رکھی دولت غصب کر گئے۔ کسان قرضے تلے خودکشی پر آمادہ ہو گیا۔ اب یہ عالم ہے کہ پٹرول لگ بھگ 80 روپے لیٹر مل رہا ہے۔ اس کے سبب روز مرہ کی اشیا کی قیمتوں میں آگ لگتی جا رہی ہے۔ لب و لباب یہ کہ چار سال میں ہر ہندوستانی حیران و پریشان ہو گیا۔ بس نریندر مودی، امیت شاہ اور سنگھ کے مزے رہے۔تو سوال یہ ہے کہ جن چار سالوں کا ڈنکا اس وقت مودی جی پیٹ رہے ہیں ان چار سالوں میں ہوا کیا! کچھ بھی نہیں سوائے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کے سوا پچھلے چار سالوں میں اور کوئی کام نہیں ہوا۔ تب ہی تو کبھی ذبیحہ پر پابندی، کبھی موب لنچنگ، کبھی اذان سے ’ساؤنڈ پولیوشن‘، کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر ہنگامہ تو کبھی کھلے میدانوں میں سڑکوں پر نماز پڑھنے کے خلاف شور، بس چار سال یہی ہوتا رہا۔ مقصد یہ تھا کہ ہندو-مسلمان کو بانٹو اور اپنا راج چلاؤ ، کافی وقت تک چلتا رہا اور مودی کئی ریاستوں میں چناؤ بھی جیتتے رہے۔ لیکن جب عام ہندو کے پیٹ پر بھی لات پڑی تو وہ ہندو جس کو ہندو-مسلم نفاق کی سیاست میں مزہ آ رہا تھا اس کی بھی آنکھیں اب کھلنے لگی ہیں۔ تب ہی تو کرناٹک میں ساری طاقت لگا کر بھی ناکام ہو گئے۔
کرناٹک میں محض ہار ہی نہیں ہوئی بلکہ کرناٹک میں تو مودی کے خلاف ملک گیر سیاست کا راستہ ہی بن گیا۔ وہ مودی اپوزیشن جو کل تک آپس میں لڑ کر مودی مخالف ووٹ باٹ کر مودی کو چناؤ جتا رہی تھی کرناٹک نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ تب ہی تو بنگلور میں سونیا گاندھی سے لے کر مایاوتی تک سب کماراسوامی کے حلف لینے کے موقع پر پہنچ گئے۔ اور اب یہ طے ہو گیا کہ اگلا چناؤ سب مل کر مودی کے خلاف لڑیں گے اور مودی کے دانت کھٹے کر دیں گے۔ یعنی اگلا لوک سبھا چناؤ مودی کے لیے ٹیڑھی کھیر بن گیا ہے۔

لیکن یاد رکھیے مودی سے نجات حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ نریندر مودی جہادی طرز کا سیاستدان ہے جس کا عقیدہ سنگھ کے ہندو راشٹر نظریہ میں ہے۔ یعنی جہادیوں کی طرح اپنے مقصد کے لیے خون خرابہ میں اس قسم کے لیڈر کو کوئی عذر نہیں ہوتا۔ بھلا کون ہے جو مودی کا سنہ 2002 کا گجرات بھولا ہو۔ اس لیے سنہ 2019 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے مودی کو اگر پورے ہندوستان کو 2002 کا گجرات بنانے کی ضرورت پڑی تو وہ اس سے بھی باز نہیں آ سکتے۔ پھر مودی اکیلے نہیں ہیں۔ مودی کی اصل طاقت آر ایس ایس ہے۔ سنگھ کے لیے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے سنہ 2019 میں مودی کو ہر حال میں اقتدار تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس کے لیے خواہ اس کو رام مندر کی آڑ میں خود بھگوان رام کا دامن مسلمانوں کے خون سے داغدار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

لب و لباب یہ کہ کرناٹک کے بعد کی صورت حال پرامید بھی ہے اور بہت پرخطر بھی ہے۔ پرامید اس لیے کہ اپوزیشن اتحاد یقینی ہو چکا ہے اور اس صورت حال سے نپٹنا مودی کے لیے آسان نہیں ہے۔ پرخطر اس لیے کہ اس صورت حال کے لیے مودی اور سنگھ کے پاس صرف ایک چال ہی بچی ہے اور وہ یہ کہ مودی کو پھر سے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ بنایا جائے تاکہ ملک میں بی جے پی کے حق میں ہندو ووٹ بینک بن سکے۔ اس کے لیے گجرات جیسے دنگے اور خون خرابہ درکار ہوگا جس کے لیے مودی اور سنگھ کو کوئی خاص عذر نہیں ہونا چاہیے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکولر طاقتیں اس خطرے سے کیسے نپٹتی ہیں۔ ملک کے سیاسی حالات اس موڑ پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں محض بند کمروں میں ’اپوزیشن یونٹی‘ کی باتوں سے کام نہیں چل سکتا ہے۔ ضرورت عوام کو بی جے پی کی ’بانٹو اور راج کرو‘ حکمت عملی سے آگاہ کر ان کو اس سیاست کے معنی سمجھانے کی ہے۔ اس کام کے لیے کانگریس پارٹی کو سیکولر پارٹیوں کے اتحاد کے ساتھ ملک کے تمام کونے کونے میں بڑی بڑی ریلیاں کرنی ہوں گی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کے سامنے ایک مثبت سیاسی اور معاشی ایجنڈا پیش کرنا ہوگا تاکہ عوام مودی کی ہندو-مسلم سیاست سے ہٹ کر بی جے پی کو ہرا سکے۔
یہ کام آسان نہیں۔ لیکن کرناٹک کی شکست اور مودی کی خالی لفاظی نے اپوزیشن کا راستہ بہت حد تک ہموار کر دیا ہے۔ اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!