تلنگانہ /اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
حکمراں نے پہلے صفائی مہم چلائی، جگہ جگہ درخت لگاکر ماحولیات کے تحفظ کا نعرہ بلند کیا۔ وقت گزرنے کے بعد درخت کٹوانے شروع کئے۔ صفائی کی جگہ گندگی پھیلنے لگی۔ جن درختوں پر خوب صورت پرندوں کا بسیرا ہوا کرتا تھا، گھونسلے بنے تھے انھیں اکثر چہچہاتے دیکھ کر شہری خوش ہوتے لیکن حکمراں کے حکم کے آگے کوئی آواز نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ درخت کاٹے گئے، کارپنٹرس کو جمع کرکے آری اور رندہ دے کر ان درختوں کے ٹکڑے کردیئے گئے اور کاٹ کر لکڑی کے تختے تیار کئے جانے لگے۔ ان تختوں پر کیل ٹھونکے جانے لگے جن لوگوں نے ہمت کرکے درخت کٹوائے جانے کی وجہ دریافت کی تو بیان دیا گیا کہ لکڑی کی ضرورت تھی پھر کچھ لوگوں نے مزید ہمت دکھاکر سوال کیاکہ اس لکڑی کا کیا کرو گے تو جواب دیا گیا کہ بے گھر پرندوں کے لئے بڑے بڑے برڈ ہاؤس بناکر ملک کی شاہراؤں، گلی کوچوں اور کھیتوں میں لگائے جائیں گے۔ اچھے خاص درخت جن پر پرندے چہچہاتے تھے کاٹ کر انھیں بے گھر کرنے والا حکمراں کروڑہا روپئے فضول خرچ کرکے برڈ ہاؤس بناتا ہے پھر بھی عوام ڈر کر اُف تک نہیں کہتے۔ جب عوام سے کہا جاتا ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں کالا دھن لایا جائے گا۔ ہر ایک شہری کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ جمع ہوں گے تو 15 لاکھ کی خوشخبری سن کر ہر گاؤں، گلی کوچے میں لوگ بینک کھاتے کھولنے دوڑ پڑے۔ 15 لاکھ کی آس میں ٹک ٹک باندھے لوگوں کی آنکھوں پر اچانک سیاہ پردہ ڈال کر ان کی جمع پونجی کو زائلء کردینے کا اعلان کردیا گیا۔ اب یہ لوگ اپنی پونجی کو ردی میں تبدیل ہوتا دیکھ کر ماتم کررہے ہیں مگر حکومت کے خلاف اُف کرنا گناہ سمجھا جارہا ہے۔ طویل قطار میں دن رات کاٹ رہے ہیں لیکن ان کے حقوق کی دھجیاں اُڑانے والی طاقت کو اس کی اوقات دکھانے کی ہمت نہیں کرپارہے ہیں۔ اس ملک کی دھرتی پر ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کہانی میں پوری طرح ڈھلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ شام کا وقت تھا سینکڑوں افراد ایک میدان میں عبادت کررہے تھے وہ سب مغرب کی طرف رُخ کرکے جھکے ہوئے تھے اور اپنی زبان میں کسی دیوتا کی مدح کررہے تھے۔
سیاح نے ہوٹل کی کھڑکی سے وہ منظر دیکھا۔ دوسرے دن صبح اس نے کھڑکی کھولی تو وہ لوگ پھر اسی میدان میں تھے اپنی زبان میں کسی دوسرے دیوتا کو سلام پیش کررہے تھے۔ اس مرتبہ ان کا رُخ جبیں مشرق کی طرف تھا۔ سیاح نے ہوٹل کے ایک ملازم سے دریافت کیا۔ یہ کون لوگ ہیں، کس کی پوجا کررہے ہیں۔ ملازم نے جواب دیا کہ یہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ یہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے ہی ہیں جو ہندوستان کی بڑی آبادی کو ان دنوں در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ پارلیمنٹ کا سیشن شروع ہوچکا ہے۔ ہر ریاست کی نمائندگی کرنے والے قائدین جمع ہیں مگر ان میں سے کسی کی ہمت نہیں کہ وہ کرنسی نوٹوں کی منسوخی کے احکامات کو واپس لینے کے لئے کامیاب کوشش کرسکے۔ لوگوں کو اس عذاب سے چھٹکارا دلاسکے یا حکومت کو اس کی غلطیوں کا سبق سکھایا جاسکے۔ ہر لیڈر اپنے انداز تکلم میں ماہر ہونے کا مظاہرہ ضرور کررہا ہے۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ راجیہ سبھا، لوک سبھا کی ایرکنڈیشنڈ ہالس میں بیٹھ کر غریب کے درد کو مزے لے کر بیان کرنا دوسرے دن اخبارات کی سرخیوں میں رہنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔ کالا دھن اب بھی محفوظ ہے۔ نوٹوں کی تبدیلی کے بعد اس کالے دھن کا خمار مزید بڑھ گیا ہے۔ یہ موسم سردی کی دھند نہیں ہے بلکہ اندھا دھند معاملہ ہے۔ ایک زہریلے فیصلے نے دہلی سے لے کر سارے ملک کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ غریب عوام کی آنکھوں میں مرچیں لگتی ہیں اور گلے میں پھانس اٹکائی گئی ہے۔ جیب خالی کرلئے جارہے ہیں جو کرنسی بانٹی جارہی ہے وہ مارکٹ میں چلنے کے بھی قابل نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتہ ملک میں کہرام مچانے والے فیصلے میں جو کچھ ہوا ہے اس پر انتظار حسین کی ناول ’’بستی‘‘ یاد آگیا ہے
اور اس کے اندر اُبھرنے والے وہ مکالمے اور سوال جواب کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جو آج کے ہندوستانی حالات کی عکاسی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’مولانا قیامت کب آئے گی‘‘ ، ’’جب مچھر مرجائے گا اور گائے بے خوف ہوجائے‘‘ ، ’’مچھر کب مرے گا اور گائے کب بے خوف ہوگی‘‘ ، ’’جب سورج مغرب سے نکلے گا‘‘ ، ’’سورج مغرب سے کب نکلے گا؟‘‘ ، ’’جب مرغی بانگ دے گی اور مرغا گونگا ہوجائے گا؟‘‘ ، ’’مرغی کب بانگ دے گی اور مرغا کب گونگا ہوگا؟‘‘ ، ’’جب کلام کرنے والے چپ ہوجائیں گے اور جوتے کے تسمے باتیں کریں گے‘‘ ، ’’کلام کرنے والے کب چپ ہوجائیں گے اور جوتے کے تسمے کب باتیں کریں گے؟‘‘ ، ’’جب حاکم ظالم ہوجائیں گے اور رعایا خاک چاٹے گی‘‘۔ اس ناول کے طویل اقتباس کو آج کے حالات کے آئینہ میں دیکھ کر بھی آپ اپنی بات آگے بڑھانے کی ہمت نہ کریں تو انتظار حسین کی طرح بینکوں کے باہر یوں انتظار کرتے رہئے۔ حکومت کو جب کوئی چیلنج درپیش نہیں ہوگا تو وہ اس سے زیادہ بھیانک فیصلے کرے گی عوام کے چولہوں میں پانی تو ڈال دیا ہے اب ان کے آشیانے بھی ڈھادے گی کیوں کہ بہت جلد بے نامی جائیدادوں کا پتہ چلانے کے نام پر بینک لاکرس ضبط کرلئے جائیں گے اور ناحق غریب کی محنت سے لی گئی زمین یا جائیداد کو نشانہ بنایا جائے گا۔ پھر شہری اپنے ہی گھر سے بے گھر ہوں، اپنے ہی ملک میں پناہ گزین کہلائیں گے۔ یہ ملک ہندو راشٹر بنے گا اور مسلمان اپنی شناخت سے محروم کردیئے جائیں گے۔ تب تک ساری ہمت رفو ہوچکی ہوگی بلکہ مردہ جسموں کے ساتھ یہ معاشرہ اپنے ہی تباہ کھنڈرات پر کھڑا نظر آئے گا اور درختوں کو کاٹ کر برڈ ہاؤس بنانے والا مسکراتا ہوگا۔ ایک بڑے حکمراں نے تمام ریاستوں کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں کو بھی کنگال کردیا ہے۔ تلنگانہ جیسی نوخیز ریاست کو کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کا شدید نقصان ہوا ہے۔ 500 ، 1000 روپئے کے نوٹوں کی منسوخی نے ریاست کی مالی حالت کو ابتر بنادیا۔
معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہوچکی ہیں۔ محکمہ فینانس نے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو ایک جامع رپورٹ پیش کی ہے اور کہاہے کہ نوٹوں کی منسوخی سے تلنگانہ کی معیشت پر بُرا اثر پڑا ہے۔ عام طور پر ریاست کو ٹیکس اور نان ٹیکس میں 4200 کروڑ روپئے کی وصولی ہوتی تھی لیکن نوٹوں کی منسوخی نے اس مالیاتی سرگرمیوں کو مکمل منجمد کردیا ہے۔ سب سے زیادہ اسٹامپس اینڈ رجسٹریشن محکمہ متاثر ہوا ہے جہاں ریونیو میں 70 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ شراب کی فروخت سے ریاست کو ٹیکس کی شکل میں ہونے والی آمدنی میں بھی 50 فیصد کمی آئی ہے۔ کمرشیل ٹیکس کلکشن میں 25 تا 30 فیصد کمی آئی ہے۔ صرف ایک ماہ میں ہی 1000 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے محکمہ فینانس کو ہدایت دی ہے کہ وہ تمام ادائیگیاں روک دیں اور سرکاری خزانے کے مصارف پر قابو پایا جائے تاکہ جو کچھ پیسہ حکومت کو وصول ہورہا ہے اس کو صرف نومبر کی تنخواہوں اور پنشن بل کی ادائیگی کے لئے بھی ناکافی ہورہا ہے۔ اب جب پہلی تاریخ آئے گی، ملازمین کو نصف تنخواہ ملے گی تو ان کی روز مرہ زندگی پر کاری ضرب پڑے گا۔ رشوت لینے والے کالا دھندہ کرنے والے کالا بازاری، منافع خوری کرنے والے بے اثر تھے اور اب بھی بے اثر ہی رہیں گے کیوں کہ وہ سرکاری مشنری کے آقا ہوا کرتے ہیں۔ ہمیشہ سرکاری مشنری ان کے ہی تابع رہتی ہے۔ عوام کی آہ و بکا کو بات کا بتنگڑ سمجھ کر حکمراں اپنے فیصلہ کو حق بجانب مان رہا ہے تو پھرا س آمر مطلق کے شکنجے سے عوام کو کون چھٹکارا دلائے گا؟
kbaig92@gmail.com