آر ایس ایس کے مقاصد ناکام

وہ ایک شخص جو گمنام قاتلوں میں تھا
سنا ہے اب سرِ بازار بے حجاب آیا
آر ایس ایس کے مقاصد ناکام
آر ایس ایس کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے اس لئے اس نے اپنے نظریہ کے حامل قائدین کو سرگرم کردیا ہے۔ بی جے پی کو جاریہ لوک سبھا انتخابات میں اپنے ہی قائدین کی زبان درازی سے ہونے والے سیاسی نقصانات کا سامنا ہے۔ بی جے پی لیڈروں نے اپنے کچھ متنازعہ بیانات سے مودی ہی کو نہیں بی جے پی کو بھی قومی سطح پر بہت نقصان پہنچانے کا کام کیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے بی جے پی ترجمان انیل سومترا نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کو بابائے پاکستان قرار دیا۔ ان کا یہ بیان بی جے پی کی گرتی ساکھ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ بی جے پی نے فوری طور پر انہیں ابتدائی رکنیت سے معطل کرکے اپنا دامن بچانے کی کوشش کی ہے۔ انیل سومترا کا یہ ریمارک بی جے پی کی لوک سبھا امیدوار بھوپال پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی جانب سے نتھورام گوڈسے کو اصل محب الوطن قرار دینے کے ایک دن بعد آیا۔ ان دونوں قائدین نے ارادی طور پر ہی اس طرح کے بیانات دے کر لوک سبھا انتخابات میں ہندوتوا ذہنیت کے سہارے ووٹ حاصل کرنے کی آسان راہ تلاش کی تھی لیکن بی جے پی کی قومی قیادت کو ان کے بیانات کی حساسیت اور قومی جذبہ کو پہنچنے والی ٹھیس کا اندازہ ہوچکا ہے۔ اس لئے اب بی جے پی قومی قیادت کو ان ہی کے لوگوں نے دن میں تارے دکھائے ہیں۔ سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو انتخابی مہم سے دور کرتے ہوئے رائے دہندوں کو یہ باور کرنے کی کوشش کی ہیکہ بی جے پی کو اپنے قائدین کی زبان درازی کے خلاف کارروائی کرنے کا حق و اختیار حاصل ہے مگر اس صورتحال نے بی جے پی قیادت کو ناکامی کے دلدل میں ڈھکیل دیا ہے۔ انیل سومترا اور سادھوی پرگیہ ٹھاکر کے خلاف کوئی سخت کارروائی سے گریز کرتے ہوئے بی جے پی بالواسطہ طور پر یہ بھی ظاہر کررہی ہے کہ ان قائدین کے خلاف کوئی سخت قدم نہ اٹھانے کی وجہ آر ایس ایس کا دباؤ ہے۔ ایک طرف آر ایس ایس نے اپنے نظریہ کے حامل قائدین کو بے لگام کردیا ہے تو دوسری طرف بی جے پی کو قومی سطح پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں معذور و مجبور کردیا گیا ہے۔ اس لئے ان دنوں بی جے پی اپنے ہی پارٹی ہیڈکوارٹرس میں نحوست کا شکار معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان اور مسلمانوں سے دشمنی کے اظہار میں بی جے پی کے بعض قائدین اس قدر آپے سے باہر ہورہے ہیں کہ اپنی نامعقول حرکتوں سے مودی کے امکانات کو دھکا پہنچا سکتے ہیں۔ انتخابات کے دوران بی جے پی کے اہم قائدین کی تقاریر ہندوستان کے سیکولر کردار کو چاک کرتے ہوئے نکل گئی ہیں۔ عام آدمی کے خلاف بھی بی جے پی کے قائدین من مانی بیانات دینے کو اپنا حق سمجھ رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں گری راج سنگھ نے جو لوک سبھا میں بہار سے نمائندگی کرتے ہیں، حال ہی میں کہا تھا کہ پٹنہ میں نریندر مودی کی سنکلپ ریالی میں جو نہیں آئے گا وہ ملک دشمن یا پاکستان نواز ہوگا۔ ان کا یہ بیان بہار کے رائے دہندوں کی بڑی تعداد کو ناراض کرنے کیلئے کافی تھا۔ بہار کا رائے دہندہ بی جے پی کو ووٹ دینے کا ارادہ کرچکا تھا لیکن ایسے بیانات آنے کے بعد پھر سے بہار کا ووٹر بی جے پی مخالف ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی نریندر مودی کے ساتھ ہونے والی ان بن یا کشیدگی سے یہ تو ثابت ہوگیا ہیکہ بی جے پی کے اندر الٹ پلٹ ہوتے جارہی ہے۔ آر ایس ایس کو گذشتہ پانچ سال میں نریندر مودی سے جو مایوسی ہوئی ہے وہ اب لوک سبھا نتائج کے بعد نازک رخ اختیار کرجائے گی۔ یہ ناراضگی قومی سطح کی قیادت میں تبدیلی کا مؤجب بھی بنے گی۔ بی جے پی کے ٹکٹ پر آر ایس ایس کے کارکنوں کو امیدوار بنا کر انتخابی ماحول پر ہندوتوا کا رنگ لانے کی کوشش بھی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس لئے صدر بی جے پی امیت شاہ نے ان ہندوتوا قائدین کے بیانات سے پارٹی کو الگ تھلگ کرتے ہوئے بی جے پی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر بی جے پی کے اندر حالت جس تیزی سے کروٹ بدل رہے ہیں اس میں یہ تو ہونا ہی تھا۔
تاجروں کی دوست حکومت اور معیشت
ہندوستان میں حکومت اور تاجر گھرانوں کے درمیان تعلقات میں ہر پانچ سال کے دوران اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ سیاست میں قدم رکھنے والے کھرب پتیوں کا معاملہ ہو یا سیاست سے باہر رہ کر حکومت کی سرپرستی حاصل کرنے والے تاجرین ہوں ان کا اصل نشانہ اپنے تجارتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے جبکہ حکومت ان کے ہر ناز و نخرے کو برداشت کرتی ہے انہیں مالیاتی مراعات سے نوازتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی پر یہی الزام ہیکہ انہوں نے اپنے دوست اور سیاسی حلیف انیل امبانی کی مدد کی۔ نریندر مودی نے سرمایہ کاروں کو حد سے زیادہ مراعادت دیئے ہیں اس لئے ہندوستانی عوام کو اس تعلق سے سوال اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ سرگرم سیاست میں حصہ لینے والے تاجرین کو عوام کے ’’وکاس‘‘ سے زیادہ اپنی تجارت کے وکاس کی فکر ہوتی ہے۔ مودی نے 2014ء میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیا تھا اور یہ نعرہ گذشتہ پانچ سال کے دوران صرف تاجرین کے وکاس تک ہی محدود رہ گیا۔ ملک کو سنگین معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ترقیاتی مسائل جوں کے توں ہیں مثال کے طور پر افراط زر کی شرح کم ہونے کے باوجود ملک کی 280 ملین آبادی اب بھی غربت کا شکار ہے۔ ہندوستان میں کئی شہریوں کا احساس ہیکہ بنیادی انفراسٹرکچر میں بہتری آرہی ہے لیکن اس کے باوجود ڈیجیٹل انڈیا کے اہم مسائل تو برقرار ہیں۔ جن کے گھر میں برقی نہیں ہے وہ غریب اپنے فونس چارج نہیں کرسکتے اور نہ ہی انہیں انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔ ابتدائی تعلیم کیلئے بہت کچھ کرنے کے دعویٰ کئے جاتے ہیں لیکن ثانوی تعلیم کیلئے ہندوستانی عوام کو ایک طویل راہ پر چلنا پڑ رہا ہے۔ بیروزگاری دور کرنے کے مسئلہ پر بھی یہ حکومت خاموش ہے بہرحال تاجر دوست حکومت نے ہندوستان کی مجموعی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد نہیں کی۔