کسی کی راہ وہ دیکھیں ، اور اُن کی راہ مَیں دیکھوں
برابر کی پریشانی یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے
آر ایس ایس، حکومت اجلاس
آر ایس ایس نے کہاکہ پاکستان ہمارا بھائی ہے، اس کے ساتھ مذاکرات جاری رہنے چاہئے۔ اپنے 3 روزہ اجلاس کے آخری دن جمعہ کو وزیراعظم نریندر مودی کی موجودگی میں آر ایس ایس کے کٹر نظریاتی قائدین نے پاکستان اور دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی حمایت کی۔ گزشتہ 14 ماہ سے نریندر مودی حکومت کی کارکردگی کو درست سمت میں گامزن قرار دے کر ستائش بھی کی گئی ہے۔ حکومت کا ریموٹ کنٹرول ہونے کی تردید کرتے ہوئے آر ایس ایس نے بی جے پی کے نظریات کی بھی توثیق کی ہے کہ وہ اس کی مرضی کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان اس طرح کا اجلاس سابق میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی حکومت میں بھی ہوا تھا۔ گزشتہ اجلاس کے حالات اور موجودہ اجلاس کے درمیان تقابل کرنے والوں نے اس کو غیرمعمولی تبدیلی قرار دیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آر ایس ایس نے مودی حکومت کے ابتدائی 15 ماہ کے اندر ہی اجلاس طلب کیا ہے۔ اس کی وجہ بی جے پی قائدین خاص کر وزیراعظم نریندر مودی سنگھ پریوار کی سرپرستی میں اپنی حکومت کے لئے سب سے بڑا آشیرواد لینا چاہتے تھے۔ اس ادارے کے تحت وزیراعظم مودی نے سابق واجپائی حکومت کی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کے لئے سنگھ پریوار سے تبادلہ خیال کیا۔ واجپائی حکومت اور مودی قیادت دونوں کو آر ایس ایس کی سرپرستی حاصل تھی لیکن اس مرتبہ آر ایس ایس اجلاس کی خصوصیت یہ تھی کہ سنگھ پریوار اور مودی حکومت میں کوئی غلط فہمیاں اُبھر کر سامنے نہیں آئیں جبکہ واجپائی حکومت کی دوسری میعاد کے آخری دنوں میں حکومت، بی جے پی اور سنگھ پریوار کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ آر ایس ایس نے حکومت کے کام کاج میں مداخلت کرنے کی بات کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ بظاہر آر ایس ایس خود کو حکومت کے اُمور سے دور بتانے کی کوشش کررہی ہے۔ درحقیقت آر ایس ایس ہی کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے۔ سنگھ پریوار کے اجلاس میں مرکزی وزراء اور خود وزیراعظم کی شرکت پر کئی سوال اُٹھ رہے ہیں۔ سنگھ پریوار کے قائدین اس بارے میں صفائی بیان کرنا نہیں چاہتے۔ جہاں تک پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا تعلق ہے آر ایس ایس نے پڑوسی ملک کے ساتھ باہمی مذاکرات پر زور دیا ہے۔ دونوں ممالک اگر بے یقینی، مایوسی اور بدعملی کے گرداب سے باہر آتے ہیں تو سرحد کے دونوں جانب ایک نئے عزم کا سفر تازہ شروع کرنے میں دیر نہیں ہوگی۔ بلاشبہ ہندوستان کو داخلی اور خارجی مشکلات کا سامنا ہے۔ دہلی میں منعقدہ آر ایس ایس اجلاس کے دوران جن اہم موضوعات پر بھی توجہ دی گئی ہے ان میں ایک رینک، ایک پنشن کا مسئلہ بھی زیرغور آیا ہے۔ مسئلہ کشمیر، بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین کا بحران اور چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ مگر حکومت اور آر ایس ایس نے عوام کے لئے کسی خاص مضبوط پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ عوام کو اس بات کا انتظار تھا کہ وزیراعظم اپنے آقاؤں کی بات مان کر تارکین وطن کے بحران سے نمٹنے کے لئے بنگلہ دیشی تارکین وطن کا مسئلہ حل کرتے ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ ان دنوں تارکین وطن، غیر قانونی مقیم مغربی بنگال کے شہریوں کا مسئلہ سنگین رُخ اختیار کرتا جارہا ہے۔ آج مرکز میں بی جے پی کو پوری طاقت حاصل ہے تو وہ ہر مسئلہ حل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا مودی مذکورہ بالا باتوں خاص کر پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے میں کامیاب ہوں گے، انھیں یہ احساس ضرور ہوگیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کئے بغیر وہ کوئی بڑا مقصد حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ بات سنگھ پریوار نے بھی محسوس کی ہے کہ دونوں طرف کے عوام امن و سلامتی اور معیار زندگی میں بہتری و خوشحالی چاہتے ہیں۔ آر ایس ایس کو بی جے پی کی امیج بہتر بنانے کی فکر ہورہی ہے۔ اگر اس کو ایک مہذب منافقت کا نام دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ آر ایس ایس نے پاکستان کو ہندوستان کا برادر ملک قرار دیا ورنہ کل تک یہی گروپ اپنی ذاتی شناخت اور تشخص کے مسئلہ پر باہم متصادم تھا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی قائدین کا یہ اجلاس ایک طرح سے احتساب کے لئے تھا۔ مگر اس طرح کے ہر اجلاس کے بعد سنگھ پریوار اور حکومت ایک ہی کشتی کے سوار مسافر دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ اس بات کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے۔ حکومت کی کارکردگی میں مداخلت نہ کرنے کا دعویٰ کرنے والی تنظیم آر ایس ایس ملک کی مشکلات کو مدنظر رکھنے سے گریز کرتی رہی ہے جو ملک و قوم کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ پاکستان کا تشخص بگاڑنے والوں نے ان مسائل پر کیسے قابو پانے کی ضرورت پر ہے ، اس بارے میں غور نہیں کیا ، کالے دھن کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔
تلنگانہ کو خشک سالی کا سامنا!
تلنگانہ ریاست کو خشک سالی کا سامنا ہونے کے درمیان چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے دورہ چین اور سرکاری مصارف پر زبردست بحث چھڑ گئی ہے۔ چیف منسٹر کو ریاست کے غریب کسانوں کے لئے وقت نہیں ہے اور ریاست میں پھیلے وبائی امراض کا علم نہیں ہے اور نہ ہی وہ غریب عوام کے لئے ٹھوس اور جامع پالیسیاں بنانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ایسے میں ان کے دورہ چین کی تیاری 2 کروڑ روپئے کرایہ ادا کرنے کے خانگی کمپنی کا طیارہ کرایہ پر حاصل کرناہے۔ اوور سیز اسکالرشپ کا وعدہ بھی وفا نہیں ہورہا ہے تو نوجوان برادری احتجاج کے لئے اُٹھ رہی ہے۔ حال ہی میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء کے احتجاج اور پرنسپل کو زدوکوب کرنے کے واقعہ اور پیدا شدہ حالات کا بھی چیف منسٹر خاموشی سے سامنا کررہے ہیں۔ ان کی یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کی علامت ہے تو فوری طور پر متعلقہ افراد اپنے ذمہ کا کام انجام دیں گے۔ تلنگانہ میں اس وقت کوٹہ کی جنگ بھی چھڑ رہی ہے۔ سرپرستوں اور والدین کے جلوس کے بعد حکومت کو یہ محسوس ہونا چاہئے کہ اس کی پالیسیاں خشک سالی سے متاثرہ ریاست کے لئے فائدہ نہیں پہونچا رہی ہیں۔ تحفظات کے حصول کے لئے بعض گوشوں سے احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کی مخالفت کی جارہی ہے۔ چیف منسٹر کی کنفیوزڈ حکمرانی کے خلاف کئی باتیں منظر عام پر لائی جارہی ہیں۔ اب ٹی آر ایس قائدین اور حکمراں طبقہ کا اصرار ہے کہ اس واقعہ کے بعد حکومت اور حکمراں پارٹی کے قائدین میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جارہا ہے۔ چیف منسٹر کو ہی پہل کرکے بہتر نتائج برآمد ہونے و الے سرکاری کام انجام دینے چاہئے۔ خشک سالی کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ابھی سے جنگی خطوط پر کام کرنے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔