آرٹیکل اے35پر سماعت آئندہ سال جنوری تک موخر : سپریم کورٹ

مسئلہ پر جموں و کشمیر میں بدامنی کا اندیشہ، ریاستی حکومت اور مرکز کی جانب سے عدالت میں نمائندگی
نئی دہلی 31 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آج آرٹیکل 35اے پر سماعت کو آئندہ سال جنوری تک کے لئے موخر کردیا۔ اس آرٹیکل کے تحت جموں و کشمیر کے باشندوں کو خصوصی حقوق اور مراعات فراہم کئے گئے ہیں۔ عدالت میں آرٹیکل کے دستوری جواز کو چیلنج کرتے ہوئے درخواستوں کا ایک بیاچ داخل کیا گیا ہے جس پر عدالت عالیہ میں سماعت مقرر تھی۔ ریاستی حکومت اور مرکز نے عدالت سے نمائندگی کی کہ اس مسئلہ کی سماعت سے ریاست میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ پنچایت انتخابات سے قبل بدامنی پیدا ہوجائے گی۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی زیرقیادت بنچ کو اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال اور ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مطلع کیاکہ مرکز اور جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے علی الترتیب نمائندگی کرتے ہوئے ان کے خیال میں اگر آرٹیکل 35اے پر سماعت ہوتی ہے تو جموں و کشمیر میں مقامی ادارہ جات کے انتخابات پر اثر پڑے گا اور جگہ جگہ تشدد کے امکانات بڑھ جائیں گے لہذا اس کی سماعت کو موخر کردیا جائے۔ پہلے یہ انتخابات پورے ہونے دیجئے۔ ہم نے کہاکہ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے۔ اس بنچ نے جو جسٹس اے ایم کھانویلکر اور ڈی وائی چندرچوڑ پر مشتمل ہے دونوں جانب کی نمائندگی کا جائزہ لینے کے بعد اس مسئلہ کی سماعت کو آئندہ سال جنوری تک کے لئے مؤخر کردیا۔

درخواست گذاروں نے اس آرٹیکل 35اے کو چیلنج کیا ہے۔ اس آرٹیکل میں جو 1954 ء کو صدارتی حکمنامہ کے ذریعہ دستور کا حصہ بنایا گیا تھا، جموں و کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور مراعات دیئے گئے ہیں۔ ریاست کے باہر کے افراد کو ریاست میں کسی بھی قسم کی غیر منقولہ جائیداد کے حصول سے باز رکھا گیا ہے۔ آرٹیکل میں اس خاتون کو بھی جائیداد رکھنے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے جو ریاست سے باہر کے آدمی سے شادی کی ہو جس کے نتیجہ میں ریاست سے تعلق رکھنے والی خواتین کو جائیداد پر اپنے حق کا ادعا فوت ہوجاتا ہے اور وہ اپنی میراث کے لئے بھی اپیل کرنے کے حق سے محروم ہوجائے گی۔ اس موضوع پر ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہاکہ مقامی بلدی اداروں کے انتخابات جو 4,500 سرپنچوں کی نشستوں اور دیگر مقامی بلدی عہدوں کے لئے ہورہے ہیں، یہ انتخابات 8 مرحلوں میں منعقد ہوں گے۔ ستمبر سے انتخابات کا عمل شروع ہوکر ڈسمبر تک جاری رہے گا۔ اگر مقامی بلدی انتخابات منعقد نہیں ہوتے تو مقامی بلدیات کو 4335 کروڑ روپئے کا فنڈ ضائع ہوجائے گا۔ اس لئے وہ معاملہ کی سماعت کو ملتوی کرنے کی استدعا کررہے ہیں۔ اس کے لئے انھوں نے ریاست میں پائی جانے والی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا بھی حوالہ دیا۔ عدالت میں بحث کے دوران اس کیس کے التواء کے پیشگی نمائندگی کی گئی تھی کیوں کہ بنچ نے اشارہ دیا تھا کہ وہ ستمبر میں ان درخواستوں کی سماعت کرے گی اور یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا درخواست گذاروں نے آرٹیکل 35 کے دستوری جواز کو چیلنج کیا ہے، اسے پانچ رکنی ججس کی دستوری بنچ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔