آخری معرکۂ حق و باطل کا میدان سج رہا ہے…

خونی گہن، تابوت سکینہ، مقدس شمع دان، مقدس گائے کی قربانی
بابِ لُد پر دجال کا قتل اور اسرائیلی فضائی اڈہ اور
شام کی طرف مسلمانوں کے یکجا ہونے کے حوالے سے چشم کُشا اِنکشافات

اطہر معین

فلسطین پر یہودی مملکت اِسرائیل کے حالیہ حملوں نے نہ صرف مسلم امہ بلکہ انسانیت نواز غیر مسلموں کو بھی بے چین کردیا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا کے مختلف خطوں میں احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل کی مذمت اور نہتے فلسطینیوں سے اِظہار یگانگت کیا جانے لگا ہے اس کے برخلاف مسلم حکمرانوں نے اقتدار بچانے اپنی آنکھیں موندھ رکھی ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ درپردہ اسرائیلی مفادات کے پاسبان بن گئے ہیں۔ موجودہ حالات میں جہاں عام لوگ فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، وہیں منافقین کے چہروں سے پردہ اٹھ گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جس سفاکیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور جس دریدہ دلی سے معصوم بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے حتیٰ کہ اسکولوں اور ہسپتالوں پر چن چن کر بمباری کی جارہی ہے۔ شہری علاقوں پر رات کے اندھیروں میں داغے جانے والے مزائیلوں سے اٹھنے والے شعلوں اور تاریکی کو جنم دینے والی بارودی روشنیوں کا اسرائیلی تفریحی نظارہ کررہے ہیں‘ اسے دیکھ کر ہر کوئی اس قوم کی نفسیات اور اس کے اہداف کے بارے میں متجسس نظر آرہا ہے۔ معصوم و نہتے فلسطینیوں کی ہلاکتوں پر یہودیوں کے جشن نے دنیا بھر کے لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کردیا ہے اور وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر یہودی مملکت اسرائیل کے عزائم کیا ہیں اور انسانی جانوں کے اتلاف پریہودی قوم شاداں و مسرور کیوں ہوتی ہے؟

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہودیوں کی اصلیت اور ان کے منصوبوں کے بارے میں وہ طاقتیں بھی کماحقہ واقف نہیں ہیں جو ان کی درپردہ تائید و حمایت کرتی ہیں یا کرنے پر مجبور دکھائی دیتی ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اشاروں، علامات اور مذہبی استعمارات و تشبیہات کی اساس پر اہلِ یہود کے شاطر دماغوں نے جو مفروضات قائم کر رکھے ہیں ان کی تشریحات و توضیحات کا اِدراک رکھتے ہوئے تسخیر عالم اور دجال کی حکومت قائم کرنے ان کی سازشوں اور ناپاک عزائم پر سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ شاطر دماغ لوگ جن میں یہودی صوفیا سرمایہ دار اور سیاسی رہنما شامل ہیں اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے نہ صرف دنیا کو بے وقوف بنارہے ہیں بلکہ اپنی قوم کو بھی مذہبی ابہامات کو بشارتیں باور کرواتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہونے کا پابند بنارہے ہیں۔ یہودیوں کے بارے میں دنیا بہت کم جانتی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی مذہبی کتابوں کو بہت ہی مبہم بنادیا گیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ توراۃ کی شرح تلمود ایک عام یہودی کے لئے ناقابل فہم ہے اس لئے انہیں اپنے صوفیوں کی تشریحات و توضحیات پر انحصار کرنا پڑتا ہے اسی طرح وہ اپنے منصوبوں کو بڑے ہی راز میں رکھتے ہیں اور راز کے افشاء ہونے کا خطرہ محسوس ہونے پر اپنے ہی لوگوں کا قتل کرنے سے بھی وہ گریز نہیں کرتے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس امت کی مقدس کتاب قرآن حکیم میں ایک چوتھائی حصہ میں اس مغضوب علیہ و معتوب قوم بنی اسرائیل اور یہود کے واقعات، تاریخ، عادات و خصائل نیز ان کے اجتماعی ارتدات اور مفسدات کو پیش کرتے ہوئے عالم انسانی کے لئے فساد کا حامل قرار دیا گیا ہے فی زمانہ وہی قوم بالعموم تاریخ یہود سے سب سے زیادہ ناواقف دکھائی دیتی ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی بھی عجیب ہے ورنہ آج روئے زمین پر مسلمانوں سے زیادہ یہود کا جاننے والا کوئی نہیں ہوتا بلکہ قاری قرآن ان کے متعلق ایک یہود سے بھی زیادہ آگاہ ہوتا اور اقوام عالم کو باخبر کرنے والا ہوتا۔

تاریخ گواہ ہے کہ رب کائنات کے احکامات کی صریح نافرمانیوں اور اللہ رب العزت کے غضب کو بار بار دعوت دینے والی یہ قوم جو انبیائے کرام کے قتل کی اقبالی مجرم ہے اور انعامات الہیٰ پر ناشکری اور توبہ کے بعد بد عہدی کرتے ہوئے راہ حق سے مکر جانے کا گناہ عظیم کا ارتکاب کرنے والی ہے‘ بندر وذلیل ہونے کے باوجود نجات کی ٹھیکیدار اور جنت کی جبری وارث بن بیٹھی ہے۔ بدتر انجاموں سے دوچار ہونے کے باوجود اس قوم نے ان پر رحم کھانے والے محسنوں کو بھی ڈس لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ گذشتہ کئی صدیوں سے زمین کے مختلف خطوں سے نکال باہر کی گئی ہے اور در بدر بھٹکتی رہی۔ اہل یہود وحی کے حوالے ( ایمان لے آکر) سے فضیلت عالم کے حصول کے بجائے اسے فی نفسہ اپنا پیدائشی حق تصور کرتے ہوئے ایک ایسی راہ پر نکل پڑے ہیں جہاں وہ اپنے مقدس ماضی کی بازیافت کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے کو استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ تورات کے تلمودی شارحین نے ایسی تشریحات بیان کی ہیں کہ ہر یہودی یہ سمجھنے لگا ہے کہ وہ خالق کائنات کی ایک منتخب امت ہے اور جس کے سامنے غیر یہودی جانوروں کے مماثل ہیں جن کو ان کیلئے مسخر کردیا گیا ہے اور یہودی مفادات کی خاطر غیر یہودیوں کا مال ہڑپ کرجانا، انہیں دھوکہ دینا، دیگر اقوام کو آپس میں لڑانا حتیٰ کہ ان کا قتل عام کروانا ان کیلئے حلال کردیا گیا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے متعصب نسل ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صدیوں تک جس نبی آخری الزماں (صلی اللہ علیہ وسلم) کے یہ منتظر تھے اور انکا میلاد منایا کرتے تھے‘ محض اس لئے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مبارک ان سے جا نہیں ملتا مگر ان کے کاہن اور صوفی رہبان بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مایوس ہوچکے ہیں کہ اب ان میں کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوگا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خاتم النبین ہیں، اسلئے وہ تسخیر عالم کے اپنے دیرینہ خواب کو پورا کرنے دجال اکبر کو اپنا رب بنالیا ہے اور اسے اپنے منتظر نبی کے طور پر ابھارنا شروع کردیا ہے جسے وہ اپنا ’مساحیا‘ قرار دیتے ہیں۔

تلمودی شارحین‘ احبار و رہبان نے اہل یہود کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے کہ وہ رب کائنات کی ایک ایسی منتخب اور برگزیدہ قوم ہیں جسے اقوام عالم پر حکمرانی کا خدائی اختیار حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی دعاؤں میں داؤد و سلیمان علیہما السلام کی سلطنت کی واپسی کا تذکرہ شامل رکھتے ہوئے ایک ایسے ہی مستقبل کا تصور ہمیشہ تازہ رکھتے ہیں اور ماضی کی محروم کردہ نعمتوں سے دوبارہ سرفراز ہونے قوم کو تیار کر رکھے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہودی احبار و رہبان اگرچہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان نہیں لاتے ہیں مگر انہیں نبی کریم ﷺ کے سچے ہونے کا کامل یقین ہے اور آپ ﷺ کی ایک ایک پیشن گوئی کے سچ ہونے کا اعتبار ہے۔ یہی وجہ ہیکہ وہ سلطنت داؤد وسلیمان کی واپسی (دراصل دجالی حکومت کے قیام) کے اپنے پراجکٹ کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑنے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کا عمیق مطالعہ کرتے ہوئے قرب قیامت کے حالات سے متعلق ربانی و نبوی پیشن گوئیوں پر تحقیق کی اور دجال اکبر کے ظہور کے زمانہ کو قریب کرنے اور اسے آخری معرکہ حق و باطل (الملاحمۃ الکبری) میں اپنی دانست میں شکست سے بچانے تمام تر احتیاطیں کر رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ انہوں نے احادیث مبارکہ میں ظاہر کردہ قرب قیامت کی علامات صغریٰ و علامات کبریٰ کے مطابق تیاریوں کا آغاز کر رکھا ہے جس کیلئے جن وقوعات کو وقوع پذیر ہونا ہے اس کیلئے ماحول سازگار بنانے میں جٹ گئے ہیں۔ دجال اکبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں شکست سے بچانے ہر وہ تدبیر اختیار کی جانے لگی ہے جن کا تذکرہ احادیث مبارکہ میں آچکا ہے۔ البتہ ان علماء نے اپنی قوم کے عام لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے کہ وہ جس نجات دہندہ کے منتظر ہیں وہ مساحیا ہے جس کا وعدہ رب کریم نے کیا مگر حقیقتاً وہ دجال اکبر ہے۔

یہ عقیدہ راسخ کیا گیا کہ ان کے مساحیا کے ظہور کے بعد ساری دنیا پر ان کی حکمرانی کا آغاز ہوگا اور اس عظیم تر سلطنت کا پایہ تخت بیت القدس ہوگا جس کیلئے مذہبی مقدس کتب میں جو علامات بتائی گئی ہیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے۔ یہودیوں کو یہ باور کروایا گیا کہ سلطنت داؤد و سلیمان کے احیاء کیلئے بہت سے امور کو انجام دینا ہوگا اور جس کیلئے چند وقوعات کا پیش آنا ضروری ہے جو اہل یہود کیلئے ربانی اشارے ہوں گے۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ان تمام امور کی تکمیل اسی صورت میں مکمل ہوگی جب یہودیوں کی اپنی ایک مملکت ہو جس کا خواب انہوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو یکجا کرتے ہوئے عرب کے قلب میں اسرائیل کو بساکر پورا کرلیا اور اب اس کی سرحدوں کو مدینہ منورہ تک وسعت دیتے ہوئے گریٹر اسرائیل میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بنجر صحرائی خطہ کو منتقل ہونے سے یہودیوں کی اکثریت کے انکار کرنے پر ہٹلر کے ذریعہ ہولوکاسٹ کروایا تاکہ ’سر سلامت تو پگڑی ہزار‘ کے مصداق یہودی اپنی جان بچانے اسرائیل منتقل ہونے پر راضی ہوجائیں اور ایسا ہی ہوا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس سازش کو سربستہ راز رکھنے ہٹلر کو یہودیوں کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے اور ہولو کاسٹ کے حقائق کو منظرعام پر آنے سے باز رکھنے ہر حربے اختیار کئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر یوروپی ممالک میں ہولو کاسٹ کی ہلاکتوں پر شبہ کا اظہار کرنا بھی تعزیری جرم تصور کیا جاتا ہے۔ یہودی احبار و صوفیاء نے یہ بھی باور کروا رکھا ہے کہ ان کے نجات دہندہ (دراصل دجال اکبر) کا اس وقت تک ظہور نہیں ہوگا جب تک اسرائیل کی سرحدیں سلطنت داؤد و سلیمان کے مماثل نہ ہوجائیں جس کا ذکر یہودیوں کے قدیم نصوص اور ان کی شروح میں یوں ہے کہ کوہ طور سے باب حماۃ اور مصر کی نہر نیل سے نہر فرات تک۔ اسی کے حصہ کے طور پر گریٹر اسرائیل کی سرحدیں مدینہ منورہ تک وسعت اختیار کرتی ہیں اور ایسا احادیث مبارکہ کی روشنی میں ممکن ہے۔ یہی نہیں بلکہ مساحیا کی آمد سے قبل یہودیوں کو کچھ رسوم اور امور ایک معینہ وقت اور مدت میں انجام دینے ہوں گے جیسا کہ بیت المقدس میں جہاں مسجد اقصیٰ اور گنبد صخریٰ واقع ہے ٹھیک اسی مقام پر ’قدس الاقداس‘ مقدس ہیکل (ہیکل سلیمانی) کی تعمیر ضروری ہے اور اس ہیکل کی تعمیر کی تکمیل اس وقت تک کامل نہیں ہوگی جب تک اس میں گمشدہ مقدس شمع دان اور تابوت سکینہ کو نہ رکھ دیا جائے اور اس ہیکل کی تعمیر سے قبل ایک سرخ گائے کی قربانی دینی ہوگی جس کی مخصوص نشانیاں بتائی گئی ہیں اور یہ دسویں گائے ہوگی۔ پہلے ہیکل کی تعمیر میں ایک اور دوسرے ہیکل کی تعمیر میں 8 گائے ذبح کئے گئے تھے۔ یہودی صوفی احبار نے ان تمام وقوعات کے پورا ہونے مختلف نشانیاں بتائی ہیں۔ فلسطین پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کے پس پردہ بھی کچھ ایسے ہی محرکات کارفرما ہیں۔ بیت القدس پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی یہودیوں نے پیشگی تیاریاں کرلی ہیں اور ان کے عقائد کے مطابق یہ تب ہی ممکن ہوگا جب مسجد اقصیٰ کو شہید کردیا جائے اور اس کی جگہ قدس الاقداس کی تعمیر شروع کی جائے۔ اس کام کیلئے بھی وہ حالات کے اپنے موافق ہونے کی ایک علامت پیش کرتے ہیں۔ یہودی حاخاموں (صوفی علماء) نے ایک نشانی یہ بھی بتائی ہے کہ ایک برس میں متواتر چار سرخ (خونی) کامل گہن کا وقوع پذیر ہونا اہل یہود کیلئے ایک نادر موقع ہوگا جو شاذ و نادر ہی پیش آتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہودیوں پر بظاہر مشکل اور سخت ترین حالات پیش آئیں گے مگر آخرکار انہیں ہی فتح نصیب ہوگی۔ چونکہ یہودی تصوف قبالہ کے مطابق اب قدس الاقداس یعنی ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا آغاز کردینا ہے اسلئے 2014 اور 2015 عیسوی میں متواتر 4 سرخ (خونی) چاند گہنوں کے وقوع پذیر ہونے کا سہارا لینے لگے ہیں جس کے لئے یہ تاویل پیش کی گئی کہ ان دو برسوں کے بعد آئندہ دو سو برس تک متواتر خونی گہن وقوع پذیر نہیں ہوں گے اس لئے اب وقت آچکا ہے کہ ایک مشکل (مصنوعی) دور سے گذرتے ہوئے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا آغاز کردیا جائے تو مابعد موافق حالات کے رونما ہونے دو صدیوں کا طویل انتظار کرنا نہیں پڑے گا۔ مناسب یہ ہوگا کہ موجودہ حالات کو سمجھنے اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا اندازہ کرنے تلمود میں بیان کردہ چند نشانیوں اور ان کی یہودی تاویلات کا اجمالی ذکر کیا جائے۔ ربانی بشارت کو یہودی مذہبی اصطلاح میں ’ایلی‘ کہا جاتا ہے۔

عید الفصح و عید المظال کے موقع پر متواتر چار خونی گہن :
اہل یہود کی مقدس کتاب تالمود کے مطابق چاند گہن بنی اسرائیل کیلئے ایک برا شگون ہے مگر چاند گہن لگنے پر سیاہ ہونے کی بجائے چاند کا چہرہ ایسے سرخ ہوجائے جیسے خون تو سمجھو دنیا پر تلوار آرہی ہے اور یہ یہودیوں کیلئے کٹھن حالات کے بعد حتمی کامیابی کا مژدہ ہوتا ہے۔ یہودی تصوف قبالہ میں اس کی کافی تشریح کی گئی ہے اور اسے درد زہ کے بعد ولادت کی خوشی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قبالاتی تشریحات کے مطابق چاند اور سورج گہنوں کا زمین پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک روئے زمین پر جب کبھی چار خونی چاند گہن ایک ترتیب میں آتے ہیں تو بنی اسرائیل پر ایک آفت نازل ہوتی ہے جس میں یقینی فتح پوشیدہ ہوتی ہے۔ فتح کا مژدہ سنانے والے ان گہنوں کی ایک اور انفرادیت یہ ہوتی ہے کہ یہ معین وقت میں رونما نہیں ہوتے۔ ۔ وہ یہ باور کرواتے ہیں کہ گذشتہ نصف ہزارہ میں صرف تین مرتبہ ایسا ہوا ہے اور چوتھی مرتبہ 2014-15 عیسوی میں ہونے جارہا ہے اور اس کے بعد مزید دو سو برس تک ایسا نہیں ہوگا۔ گذشتہ 500 برس میں پہلی مرتبہ ایسا نادر فلکیاتی نظارہ 1492-93 ء میں دیکھنے کو ملا تھا جس کے بعد انہیں اسپین سے عیسائی فتویٰ صادر کرواتے ہوئے جلا وطن کیا گیا مگر اسی دور میں کولمبس نے امریکہ کو دریافت کرلیا اور یہودی وہاں منتقل ہونا شروع ہوئے جو پہلی میسانی (فری میسن) مملکت بھی ہے اور جس کے اقتدار کو انہوں نے اپنے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کیلئے ابھی تک استعمال کرتے آرہے ہیں۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ ایسا نادر واقعہ دوسری مرتبہ 1948-49ء میں پیش آیا جس کی تعبیر یہ پیش کی جاتی ہے کہ 1948ء میں اسرائیل نے جنم لیا اور 66 ممالک سے تعلق رکھنے والے یہودی اس مقدس سرزمین پر قدم رکھ پائے جس کیلئے انہیں ہولو کاسٹ سے گذرنا پڑا۔ اس کیلئے وہ دو ہزار برس تک دربدر بھٹکتے رہے تھے۔ اسی طرح تیسرا وقوعہ 1967-68 ء میں پیش آیا اور اس وقت 6 روزہ جنگ میں اسرائیل کو عرب اتحاد پر فتح حاصل ہوئی اور یروشلم پر کامل کنٹرول حاصل ہوگیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسرائیل قائم ہوجانے کے باوجود بھی سارے یروشلم پر اس کا کنٹرول نہیں تھا۔ مشرقی یروشلم کا نظم اردن کے سپرد تھا۔ اب چوتھی مرتبہ 2014-15 ء میں یہ نادر فلکیاتی نظارہ تکمیل پانے والا ہے۔ اس سلسلہ کا پہلا خونی گہن /15 اپریل 2014 ء کو یہودی تہوار عید الفصح (Passover) کو رونما ہوچکا ہے اور دوسرا گہن /8 اکتوبر 2014 ء کو عید المظال (Feast of Tabernacles) کو پیش آئے گا اور تیسرا گہن /4 اپریل 2015 کو عیدالفصح اور آخری یعنی چوتھا گہن /28 ستمبر 2015 ء کو عید المظال کے موقع پر ہوگا۔ اس مرتبہ ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ یہ چار خونی چاند گہن سال آرام (Sabbath year) میں آرہے ہیں۔ عبرانی سال Shemittha ہر سات برس میں ایک مرتبہ آتا ہے جس کا آغاز عید الأبواق (Feast of Trumpets) کے پہلے دن یعنی /25 ستمبر 2014 سے شروع ہوگا اور اس کا اختتام آئندہ کی عیدالأبواق کے موقع پر /13 ستمبر 2015 ء کو ہوگا۔ مذکورہ بالا خونی چاند گہنوں کی تواریخ کو کچھ یہودی مسلمانوں سے بھی منسوب کرتے ہیں اور ان وقوعات کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑتے ہوئے یہ بتلاتے ہیں کہ 1493ء میں مسلمانوں کو یورپ سے محروم ہونا پڑا تھا اور 1948 ء میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تھا جبکہ 1967ء میں عربوں کو 6 دن کی جنگ میں اسرائیل سے منہ کی کھانی پڑی تھی اور مشرقی یروشلم پر سے مسلمانوں کا حق سلب کرلیا گیا اور یروشلم کواسرائیل کے دارالحکومت میں تبدیل کردیا گیا۔

تابوت سکینہ
ہیکل سے تابوت سکینہ کا گہرا تعلق ہے۔ یہ وہ تابوت ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھا اور جس کو حضرت شموئیل کے زمانہ میں فرشتوں نے بنی اسرائیل کے علاقہ میں پہنچایا تھا تاکہ حضرت طالوت کا استحقاق بادشاہت ثابت ہوسکے۔ اس صندوق کا قرآن مجید میں یوں ذکر آیا ہے ’’ اور انہیں ان کے نبی (حضرت شموئیل ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے (حضرت) طالوت کو تمہارا بادشاہ بنادیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں‘ اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ نبی نے فرمایا سنو‘ اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر بر گزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے‘ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ان کے نبی نے انہیں پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے‘ فرشتے اسے اٹھاکر لائیں گے۔ یقیناً یہ تو تمہارے لئے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو۔‘‘ (سورۃالبقرہ ۔ آیات نمبرات 247-48) ۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ تابوت انہیں دوبارہ ملے گا جو دشمنوں سے معرکہ آرائیوں میں ان کے ساتھ رہے گا اور انہیں اس کی وجہ سے فتح حاصل ہوگی۔ یہودی روایات بتاتی ہیں کہ تابوت، ہیکل کے مقام ’’ قدس الاقداس‘‘ میں رکھا تھا‘ اس میں تورات کی تختیاں اور دیگر متروکات حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام اور من و سلویٰ تھے۔ قرآن مجید میں مذکور تابوت سکینہ اور یہودی افسانوی تابوت میں کوئی یکسانیت نہیں ہے اور نہ ہی اس تابوت کی تقدیس و تبریک باقی رہی ہے۔ اگر ان کی فضیلت باقی رہتی تو امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی وارث ہوتی جس طرح امت مسلمہ کو مسجد اقصیٰ کی میراث ملی اور سرزمین قدس ان کے قبضہ میں آئی۔ اپنی قوم کو رب کی طرف سے عروج عطا کئے جانے سے قائل کروانے یکے بعد دیگرے کچھ نشانیوں کو ظاہر کرنا ضروری سمجھا جارہا ہے تاکہ انہیں اپنے اگلے منصوبوں کے لئے تیار کرنے ان نشانیوں کو ربانی نشانیوں اور اشاروں سے تعبیر کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیکل میں تابوت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جس کے لئے تابوت کی تلاش کی مہمات شروع کی گئی ہیں۔ اس خصوص میں متضاد دعوے اور قیاس سامنے آتے ہیں۔ کچھ کا ماننا ہے کہ یہ تابوت مقام قدس الاقداس (یعنی مسجد اقصیٰ؍قبتہ الصخرہ) کے نیچے دفن ہے جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ یہ اہرام مصر کے نیچے دفن ہوسکتے ہیں۔ ایک اور نقطۂ نظر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ نبی اسرائیل ( سلیمان علیہ السلام) کے فرزند فلیک نے جو ملکۂ بلقیس سے پیدا ہوئے تھے تابوت کو والد کی وفات کے بعد حبشہ (ایتھوپیا) منتقل کردیا تھا۔

سات گوشیہ مقدس شمع دان
یہودیوں کے نزدیک ’’مقدس شمعدان‘‘ ایک بڑی دینی نشانی ہے جو تخلیق کائنات کے ان سات دنوں کی نمائندگی کرتی ہے جنکا ذکر توراۃ میں ہے اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ساتویں دن کی تاجپوشی کریں گے اسی لئے اس کو اسرائیلی حکومت کا سرکاری نشان بنادیا گیا ہے۔ یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قدس الاقداس (مقدس ہیکل) اسی وقت مکمل ہوگا جب اس میں یہ شمع دان روشن کیا جائے گا۔ یہ بھی تابوت سکینہ کی طرح فی الوقت معدوم بتایا جاتا ہے مگر مستقبل قریب میں اس کو بھی بازیاب کرلیا جائے گا جس کے بارے میں یہ عقیدہ بیان کیا جاتا ہے کہ 586 قبل مسیح میں جب بخت نصر نے بیت المقدس کو جلایا تھا تو وہ شمع دان محفوظ رہ گیا تھا لیکن مل نہ سکا۔ یہ مفقود شمع دان جس کا وزن تقریباً 60 کیلوگرام بتایا جاتا ہے 70 ء میں شاہ ٹائیٹس کے دور میں روم لایا گیا تھا۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ ویٹیکن میں دیگر تبرکات کے ساتھ یہ شمع دان بھی محفوظ ہے جس کو پانے کیلئے نوے کی دہائی میں موساد کے جاسوسوں کے ذیعہ ویٹیکن کے گوداموں میں خفیہ طور پر تلاش کیا گیا ہے۔

دسویں سرخ گائے
غالی یہودی فلسطین کے انجام کو ایک گائے کے انجام سے جوڑتے ہیں۔ حاخاموں نے یہ عقیدہ بیان کیا ہے کہ ہیکل کا پہاڑ جو یہودی قوم کی ابدی عبادت گاہ ہے اور اس کی زمین ہمارے ہاتھ آجائے گی تو ’’رب‘‘ کی طرف سے سرخ گائے کا اشارہ دیا جائے گا اور پھر اس کے بعد سے ہیکل سلیمانی کی فوری تعمیر شروع کردی جائے گی۔ بعض یہودی خیال کرتے ہیں کہ یہ گائے وہ گم شدہ اور مطلوب ہمزۂ وصل ہے جو ہیکل کی تعمیر نو سے واسطہ قائم کرتا ہے۔ حاخاموں نے گائے سے متعلق جس پیشن گوئی کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اصحاح نمبر 19 کتاب گنتی تورات میں یوں ذکر کی گئی ہے : ’’رب سے موسیٰ اور ہارون نے بات کی اور فرمایا کہ شرعی فریضہ ہے جس کا رب نے یہ کہتے ہوئے حکم دیا ہے کہ بنی اسرائیل سے کہو کہ وہ تمہارے پاس ایک سرخ صحتمند گائے لائیں جس میں کوئی عیب نہ ہو اور نہ اس پر جوا رکھا گیا ہو اور پھر تم اس کو ’’العازار‘‘ کاہن کے حوالہ کردو اور محلہ سے باہر اس کے سامنے اس کو ذبح کیا جائے اور کاہن اس کا خون اپنی انگلی سے لے اور سات سال تک اجتماع کے خیمہ کے سامنے اس کے چھینٹے دئیے جاتے رہیں اور اس کے سامنے گائی جلائی جائے اس کی کھال اس کا گوشت اس کا خون معہ گوبر جلایا جائے ، کاہن ’’زوف‘‘ اور ’’قرمز‘‘ کی لکڑی گائے کے جلانے کے دوران بیچ میں ڈالے گا پھر کاہن اپنے کپڑے دھوئے گا۔‘‘ قرآن مجید میں یہودیوں اور گائے کا تذکرہ ملتا ہے کہ ان کے نبی (علیہ السلام) نے گائے ذبح کرنے کا ان کو حکم دیا تھا لیکن نافرمان اور خبیث فطرت قوم نے اپنے اولوالعزم پیغمبر سے حیل و حجت کی انتہا کردی اور گائے کی صفات کے بارے میں اشکالات پیش کرنا شروع کردیا تھا۔ قرآن مجید میں اس گائے کا جو ذکر ملتا ہے اسے یہودی تیسرے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کیلئے ذبح کی جانے والی دسویں گائے سے منسوب کرتے ہوئے اس کو ان تمام صفات کا حامل قرار دیتے ہیں۔ اس گائے کی دریافت کو رب کی طرف سے اشارہ پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل پہلے ہیکل کی تعمیر کے موقع پر ایک گائے اور دوسرے ہیکل کی تعمیر پر آٹھ گائے ذبح کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تورات کے مطابق جب بھی خیمہ میں کسی انسان کی موت ہوتو جو بھی خیمہ میں تھا اور جو بھی داخل ہوگا نجس ہوجائے گا‘ ہر کھلا برتن جو کپڑے سے نہ ڈھکا ہو نجس ہوگا‘ اور جو شخص کسی مقتول، میت ، انسان کی ہڈی یا قبر کو چھولے وہ نجس ہوجاتا ہے اور جو بھی نجاست والا پانی چھوئے وہ نجس ہوجاتا ہے‘ اور پھر نجس شخص جس کو چھولے وہ نجس ہوجاتا ہے‘‘۔ اس طرح یہ دائمی نجس قرار پاتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ نجاست سرخ گائے کی راکھ سے ہی دور ہوگی اور جب تک یہودی پاک نہیں ہوں گے وہ ہیکل کی تعمیر نہیں کرسکتے۔ سرخ گائے کے لئے لازم ہے کہ اسے قدس سے باہر لے جایا جائے‘ ذبح کرنے کے بعد اس کو مکمل جلادیا جائے‘ ان رسوم کو ادا کرنے کے لئے حاخام یا کاہن کی نگرانی ہو‘ راکھ پاکی اور ان شرّی روحوں کو دور کرنے استعمال کی جائے جو اپنے مردوں کے جسم چھونے سے یہودیوں میں منتقل ہوسکتی ہیں۔ تلمود کے مطابق گائے کا ظہور دور طہارت کا آغاز ہے جس سے ان کے نزدیک عظمتوں کا دور شروع ہوگا۔ جب اس گائے کو دریافت کرلیا جائے تو اس کو اوپر ذکر کئے گئے رسوم ادا کرنے کے بعد اس کی راکھ کو ذخائر آب میں گھول دیا جائے گا اور نلوں کے ذریعہ ہر گھر تک پہنچایا جائے گا تاکہ اس سے سب پاکی حاصل کرلیں۔ اس گائے کو ذبح کرنے کے لئے بحر مردار (Dead Sea) کے قریب ایک علاقہ میں مقدس مذبح بھی تیار کیا جاچکا ہے اور معدنیات کی ایک اسرائیلی کمپنی نے تیس میٹر کی لمبائی میں اس طرح تیار کیا ہے جیسیا کہ عہد قدیم میں ’’مذبح‘‘ تھا اور اس مذبح کو کسی بھی مناسب وقت پر اسے منتقل کرتے ہوئے ہیکل کی تعمیرات کے درمین سجادیا جائے گا ۔ گائے کو ذبح کرنے کے دن کا تعین گائے کی دریافت کے دن پر منحصر ہوگا۔ یہ اس لئے مبہم رکھا گیا ہے کہ پہلے ہی اگر یہ بتادیا جائے کہ گائے کی دریافت ہونے کے کتنے دن بعد اسے ذبح کیا جانا چاہئے تو ایسی صورت میں مطلوبہ گائے معین ایام کی تکمیل سے قبل ہی فوت ہوجائے تو ان کے منصوبے دھرے کے دھرے ہی رہ جائیں گے۔

غرقد کا درخت
آخری معرکہ حق و باطل جس میں مسلمانوں کے مدمقابل یہودی ہوں گے’ مسلمانوں کو ہی فتح نصیب ہوگی۔ رب کائنات کی طرف سے مسلمانوں کی نصرت اور تائید کی ایک نشانی یہ ہوگی کہ اس موقع پر شجر و حجر کو بھی قوت گویائی عطا ہوگی اور وہ بول بول کر مسلمانوں سے کہیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے، جلدی سے آؤ اور اسے قتل کر ڈالو ۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمانوں کی یہودیوں سے جنگ نہ ہوجائے۔ مسلمان یہودیوں کو قتل کریں گے۔ یہاں تک کہ ایک یہودی کسی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپ جائے گا لیکن وہ پتھر یا درخت کہے گا: اے مسلم! اے اللہ کے بندے! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے۔ آؤ، اسے قتل کر ڈالو مگر ’’غرقد‘‘ کا درخت نہیں بولے گا کیونکہ وہ یہودیوں کا دوست ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ یہودیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک بات کے سچ ہونے کا کامل یقین ہے اس لئے وہ اپنی دانست میں سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں سے آخری تصادم کی صورت میں پسپا ہونے پر غرقد کا درخت کے پیچھے پناہ حاصل ہوگی اس لئے اسرائیل میں بڑے پیمانہ پر اس درخت کو اگانے کی ایک مہم شروع کی گئی ہے۔ گھروں کے صحنوں اور دفاتر میں اس کی بڑے پیمانہ پر شجر کاری کی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ ہندستان سے بھی یہ درخت شجر کاری کے لئے درآمد کئے گئے ہیں اور اس درخت کو بچانے کی عالم گیر مہم شروع کی گئی ہے۔

بابِ لد پر دجال کا قتل اور اسرائیلی فضائیہ کا اڈہ
مسیح دجال جب مدینہ منورہ میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے جہاں وہ ہلاک کردیا جائے گا۔ حضرت مجمع بن جاریہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام دجال کو ’’باب لد‘‘ میں قتل کریں گے۔ جامع الترمذی کی حدیث ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان جنگ کی تیاری کررہے ہوں گے، جب صفیں درست کرلیں گے تو صلوٰۃ کا وقت ہوجائے گا۔ عین اسی وقت حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نزول فرمائیں گے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام مشرقی دمشق میں سفید مینار کے قریب دو رنگ دار کپڑوں میں ملبوس، دو فرشتوں کے پروں پر اپنی ہتھیلیاں رکھے ہوئے نزول فرمائیں گے جب تک مسلمان نماز کی تیاری کرچکے ہوں گے، ان کے قائد و امام مہدی ہوں گے۔ وہ مصلے پر کھڑے ہی ہوں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر انہیں امامت کرنے کی خواہش کریں گے تاہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنا ہاتھ مہدی کے دونوں کندھں کے درمیان رکھ کر فرمائیں گے: آپ آگے بڑھ کر امامت کرائیے۔ یہ اقامت آپ ہی کے لئے کہی گئی ہے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوجائیں گے تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: دروازہ کھولو۔ جب دروازہ کھولا جائے گا تو اس کے پیچھے دجال اپنے ستر ہزار یہودی ساتھیوں کے ہمراہ موجود ہوگا۔ ہر ایک کے پاس منقش تلوار اور سر پر تاج ہوگا۔ دجال جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف دیکھے گا تو اس طرح گھلنا شروع ہوجائے گا جس طرح پانی میں نمک۔ وہ فوراً ہی بھاگ کھڑا ہوگا۔ عیسیٰ علیہ السلام اسے ’باب لد‘ کے قریب جا پکڑیں گے۔ دجال خبیث نمک کی طرح پگھلنے لگے گا مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے پکڑلیں گے اور نیزے سے موت کے گھاٹ اتاردیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کو دجال کا خون نیزہ پر لگا ہوا دکھائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہود کو شکست اور ذلت سے دوچار کرے گا۔ لد وہ جگہ ہے جہاں اسرائیل نے اپنا فضائی فوجی اڈہ قائم کر رکھا ہے۔ حضرت مفتی رفیع عثمانی نے بتایا کہ اب سے کئی برس قبل وہ تبلیغ کے سلسلہ میں فلسطین گئے تو وہاں کے ایک شہر لد بھی جانا ہوا جو بیت المقدس کے قریب ہے۔ وہاں ایک بڑا گیٹ دیکھا جو باب لد (لد کا دروازہ) کہلاتا ہے۔ اس پر اسرائیلی انتظامیہ نے لکھا ہوا ہے: ’’سلامتی کا بادشاہ (دجال) یہاں ظاہر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ دجال کی حفاظت کی خاطر اسرائیلیوں نے یہاں ایک بہت بڑا فضائی اڈہ قائم کر رکھا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ باب لد ہی کے مقام پر ایک کنواں ہے۔ یہودی شہری انتظامیہ نے وہاں سے ایک سڑک گزارنے اس کنویں کو ختم کرنا چاہا مگر بلڈوزروں اور طرح طرح کی مشینوں سے بھی اس کنویں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ مجبوراً سڑک وہاں سے ہٹ کر گزارنی پڑی۔ وہاں اب یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ ایک تاریخی مقام ہے۔ اسرائیلیوں نے ’لد‘ کے مقام پر ہی اپنے ملک السلام (دجال) کے لئے ایک محل بنایا ہے۔ (حوالہ فتنہ دجال اور نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام)
جنگ عظیم میں مسلمانوں کا ہیڈکوارٹرس ’’غوطہ‘‘
(دمشق کا مضافاتی علاقہ)
شام (موجودہ شام، لبنان، اردن اور فلسطین) سرزمین حشر و نشر ہے۔ یہ انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ معرکہ حق و باطل میں شام اور اہل شام کی ایک خاص قدر ومنزلت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فتنے کے دنوں میں مسلمانوں کا خیمہ (ہیڈکوارٹرس) ’’غوطہ‘‘ ہوگا جو دمشق نامی شہر کے ایک جانب ہوگا اور وہ شام کا بہترین شہر ہوگا۔

مسند احمد وسنن ابی داؤد
جامع الترمذی کی ایک اور حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب شام والوں میں بگاڑ آجائے گا تو تم میں کوئی بھلائی نہیں رہے گی۔ میری امت کا ایک گرہ قیامت تک فتح یاب رہے گا، انہیں رسواء کرنے والا انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔ سنن ابی داؤد میں حضرت ابو درداؓ سے روایت ہے کہ (دجال سے) جنگ کے دوران مسلمانوں کا پڑاؤ دمشق شہر کی ایک سمت ’’غوطہ‘‘ میں ہوگا۔ حضرت مکحولؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں (مسلمانوں) کے لئے تین پناہ گاہیں ہیں: جنگ عظیم جو کہ عمق انطاکیہ میں ہوگی اس میں پناہ گاہ دمشق ہے۔ دجال کے خلاف پناہ گاہ بیت المقدس ہے اور یاجوج ماجوج کے خلاف پناہ گاہ کوہ طور ہے۔ حضرت نہیک بن صریم سکونیؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مشرکوں سے جنگ کروگے حتیٰ کہ تمہارے باقی ماندہ لوگ دجال سے جنگ کریں گے دریائے اردن پر ۔ تم لوگ مشرقی کنارے پر رہوگے اور دجال کا لشکر مغربی کنارے پر رہے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں: ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ہر مومن شام میں چلا جائے گا۔ (المصنف الابن شیبہ)

مذکورہ بالا نبوی پیشن گوئیوں کے تناظر میں اگر ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو مستقبل قریب و بعید میں پیش آنے والے حالات کا ہمیں بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ بلدالشام کاسارا علاقہ جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ فلسطین پر حالیہ اسرائیلی حملے اور شام و عراق میں جاری تصادم کے نتیجہ میں ایسا لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اب تھمنے والا نہیں ہے۔ ایک طرف یہودی امراء اپنے نجات دہندہ کے منتظر ہیں جس کے لئے وہ مسجد اقصیٰ و گنبد صخرا پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لئے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کو چند نشانیاں دکھاکر انہیں ربانی اشارے قرار دیتے ہوئے ایک عظیم جنگ کے لئے تیار کرچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایک بار پھر سخت حالات پیش آنے والے ہیں۔ ممکن ہے اس مرتبہ اسرائیل کے ساتھ تصادم میں کچھ عرب ممالک بھی شامل ہوجائیں اور اسرائیل کو عارضی فتح ہوجائے اور اسرائیل کی سرحدیں مدینہ منورہ تک جا پہنچیں اور اس سے قبل مسجد اقصیٰ کو شہید کردیا جائے گا۔ اس جنگ میں عیسائی بھر پور انداز میں یہودیوں کا ساتھ دیں گے چونکہ عیسائی رحبان کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوۃ پر یہودی عیسائیت قبول کرلیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ برس ستمبر میں یہودیوں کے عیدالمظال کے بعد عربوں کے اتحاد کو اسرائیل پر متحدہ حملہ کے لئے اکسایا جائے گا اور اس میں عربوں کو شکست دے دی جائے گی، جس کے بعد بیت المقدس کو شہید کردیا جائے گا تاکہ اس جگہ قدس الاقداس کی تعمیر کا آغاز کردیا جائے جس کی ربانی نشانی کے طور پر مقدس شمع دان اور تابوت سکینہ کو بھی بازیافت کرلیا جائے گا۔ پاپائے روم کی حالیہ عرصہ میں دورہ ایروشلم سے اس بات کو تقویت حاصل ہورہی ہے کہ تابوت سکینہ کو ویٹکن سٹی سے برآمد کئے جانے کی توثیق کی جائے گی اور پاپائے روم کی جانب سے اسرائیل کو بطور تحفہ عطا کی جائے گی۔ اسی طرح شمع دان کو کسی افریقی ملک سے درآمد کرلیاجائے گا اور اسے اسرائیل منتقل کرتے ہوئے ہیکل سلیمانی میں ایستادہ کردیا جائے گا۔ اس کے بعد مطلوبہ مقدس سرخ گائے کی بھی شناخت کرلی جائے گی جس کو ذبح کرتے ہوئے یہودیوں کی تطہیر کردی جائے گی اور پھر دجال اکبر کا انتظار کیا جائے گا۔ اس سے قبل یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات تلخ ہوجائیں گے چونکہ اب اسرائیل کو امریکہ کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے بلکہ اب وہ عالمی منڈی میں امریکہ کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اس کی جگہ حاصل کرتا جارہا ہے۔ شائد امریکہ کو غیر محفوظ ثابت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور اس سے ملحق دیگر عالمی اداروں کے ہیڈکوارٹرس امریکہ سے بھی اسرائیل منتقل کرالیا جائے گا اور ان اداروں کو عالمی حکومت کے وفاقی اداروں جیسا کام کرنے لگیں گے چونکہ ان اداروں کے قیام کا شوشہ بھی ساری دنیا پر واحد حکومت کے نظریہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی چھوڑا گیا تھا۔ یاد رہے کہ دجال اکبر کے ظہور کے زمانہ کو قریب کرنے ایک مخصوص طبقہ سال میں ایک معین دن مادر ذات برہنہ ہوکر انسانی خون پی کر دجال کی پوجا کرتا ہے اور اس کی دانست میں اب دجال کے ظہور کا وقت قریب تر آچکا ہے۔