آبروئے نظامت ملک زادہ منظور (پیدائش 1929 ء۔22؍اپریل 2016ء)

ڈاکٹر ماجدؔدیوبندی
وائس چیرمین، اردو اکیڈیمی، دہلی
یہ بات 1980ء کی ہے جب میں مشاعروں کی دنیا میں نیا نیا آیا تھا۔اعظم گڑھ ضلع کے ایک مشاعرے میں جس کی نظامت ملک زادہ صاحب کر رہے تھے میں نے بھی اس میں اپنا کلام پڑھا۔ظاہر ہے مبتدی تھا اس لیے مشاعرہ مجھ سے ہی شروع کرایا گیا۔مشاعرے کاآغاز تھا اور لوگ بہت زیادہ انتظار کر کے تھک چکے تھے اور بیتاب تھے کہ مشاعرہ شروع ہو۔جیسے ہی میرا نام پکارا گیا لوگوں نے تالیوں سے خیر مقدم کیا۔وہ اس لیے کہ مشاعرہ شروع ہوا۔میں نے ڈرتے ڈرتے اپنا کلام پڑھنا شروع کیا۔خلاف امید عوام نے بے پناہ داد دی اور میں مزید حوصلے سے اپنا کلام پڑھ کر واپس آیا۔ عوام کی فرمائش پر ناظم مشاعرہ نے دوبارہ مجھے دعوت دی اور میں نے اور زیادہ حوصلے سے مشاعرہ میں اپنا کلام پڑھا۔ اس مشاعرے میں سامعین کی تعداد بہت زیادہ تھی اور شور کا ماحول تھا۔ میرے کلام پڑھنے سے اس شور میں کچھ کمی آئی۔ملک زادہ صاحب نے کافی دیر تک میری تعریف میں جملے کہے اور یہ کہا کہ وہ خود ڈر رہے تھے کہ کس شاعر سے مشاعرہ شروع کرائیں اور میں نے ان کی یہ مشکل آسان کر دی۔ ساتھ ہی کامیابی بھی ملی جس سے وہ اور زیادہ خوش ہوئے۔وہ دن سو آج کا دن ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب تو ملک زادہ صاحب میرے بہت ہی کرم فرما اور شفقت کرنے والے بزرگوں میں تھے۔حالانکہ وہ بزرگ لفظ کبھی سننا نہیں چاہتے لیکن میرے لیے وہ ہمیشہ بزرگ ہی رہیں گے۔

ابھی چند روز قبل جب میں ان سے لکھئو ان کے گھر ملنے گیا تو وہ خوب جوش کے ساتھ ملے او ر کہا کہ ماجد تم نے اردا اکادمی کو ایک نیا عزم دیا اور کہا کہ کہ میں ان نوجوانوں سے بہت خوش ہوتا ہوں جو کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ساتھ ہی کچھ اورباتیں بھی مجھے بتائیں کہ اکادمی کو کیسے کیسے چلانا ہے،کیا کیا کام کرنے ہیں،اردو کی بقا کے لیے کیا کیا اقدام کرنے ہیں۔ میں نے ان سے جب یہ کہا کہ میں اکادمی میں مشاعروں پر ایک دو روزہ سیمینار کرا رہا ہوں اور ان کی صدارت کرانا چاہتا ہوں تو ان کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا او ر فوراً آنے کی منظوری دیدی۔پھر جب میں نے دوبارا ان سے آنے کا پروگرام پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اب طبیعت اجازت نہیں دیتی لیکن وہ کوشش کریں گے۔ہماری بد قسمتی کہ وہ علالت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔گزشتہ ۸؍اپریل کو ہندی اردو ایوارڈ کمیٹی لکھنئو کی جانب سے کچھ لوگوں کو گورنر اتر پردیش کے ہاتھوں ایوارڈ سے نوازا گیا تھا جن میں مجھے بھی یہ ایوارڈ پیش کیا گیا تھا۔ اس میں بھی ملک زادہ صاحب کو آنا تھا لیکن وہ نہ آ سکے۔اگلے روز جب میں ان سے ملنے گیا تو ان کی آواز میں مایوسی تھی اور بولنے میں نقاہت محسوس کر رہے تھے۔اس کے باوجود وہ اس محبت اور خلوص سے ملے کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں تھوڑا جذباتی سا ہونے لگا تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنی زندگی گزار چکے ہیں اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے ابھی تمہیں بہت کچھ کرنا ہے لیکن یہ خیال رہے کہ اردو کو نقصان پہنچانے والوں سے جنگ کرنے کا ہمیشہ جذبہ رہنا چاہئے۔یہ تھا ان میںاردو سے عشق او ر پیار۔

مشاعروں میں رہ کر ایسے ایسے تجربات ہوئے کہ جن کو اگر صاف طور سے بیان کردیں تو دشمنی ہو جائے۔کچھ لوگ ایسے ملے کہ جن کے اندر باہر کوئی مصلحت نہیں۔ جو وہ دیکھنے میںہیں وہی کردار بھی ہے۔ملک زادہ صاحب بھی اسی مزاج کے شخص تھے۔وہی بے تکلفی اور محبت سے ملنا کہ ان پر رشک آ جائے۔عمر کی کوئی قید نہیں۔بس وہ تو چھوٹوں سے بھی اسی طرح ملتے جیسے اپنے برابر کے شخص اور دوست سے مل رہے ہوں ۔میں ان کے ساتھ۳۸ برس سے مشاعرے پڑھ رہا ہوں۔ ان کے مزاج میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آئی۔مشاعروں میں کس کو کہاں پڑھوانا ہے یہ وہ اچھی طرح جانتے تھے ورنہ آج کے بہت سے ناظم پہلے سے طے کر لیتے ہیں کہ کس شاعر کو کہاں ہوٹ کرانا ہے اور کس کمزور شاعر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے۔فیصلہ تو اللہ کرتا ہے کیوں کہ وہی عزت دینے والا ہے۔ملک زادہ صاحب نے کبھی یہ اوچھی حرکت نہیں کی جس سے کسی کی عزت خطرے میں پڑے۔وہ اپنے ساتھ چھوٹوںکو لے کر چلنے کا ہنر اور جذبہ رکھتے تھے۔کاش یہ بات دوسروں میں بھی آ جائے تو مشاعروں کا وقار اور زیادہ معیاری ہو جائے اور کسی شاعر کا استحصال بھی نہ ہو۔
ایک اور واقعہ نقل کرنا چاہتا ہوں جس کا ذکر ملک زادہ صاحب نے اپنی خود نوشت میں بھی کیا ہے۔بمبئی کے ایک نعتیہ مشاعرے میں مجھے مدعو کیا گیا جس کی نظامت ان کو کرنی تھی۔حسب معمول اسٹیج پر تمام شعراء موجود تھے کہ کچھ چہ می گوئیاں شروع ہونے لگیں اور اس میں ملک زادہ صاحب پیش پیش تھے۔ میں نے پریشان ہو کر ان سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کیا معاملہ ہے؟ مسکرا کر کہنے لگے’’جب دیوبند میں پیدا ہوگے تو ایسے معاملے تو ہوں گے ہی‘‘۔میں سمجھا نہیں لیکن بعد میں وہ مسئلہ حل کر لیا گیا۔بات یہ تھی کہ وہ نعتیہ مشاعرہ کٹر بریلویوں کا تھا او میرے نام کے ساتھ دیوبندی لگا ہوا تھا۔منتظمین زیادہ سخت نہیں تھے اور انہوں نے میری نعتیں سن رکھی تھیں اور مجھے مدعو کر لیا تھا۔یہ مشاعرہ آج سے بیس سال پہلے کا ہے جس کی صدارت راز الہ آبادی فرما رہے تھے۔کنوینر کی جان کے دشمن ہو گئے وہ لوگ جو بظاہر خود کو عاشقِ رسول کہہ رہے تھے۔یہ تو اللہ جانتا ہے کہ کون سچا عاشق رسول ہے اور عشق رسول کے بہانے قوم میں کون انتشار پھیلا رہا ہے۔خیر۔ملک زادہ صاحب نے وہ مسئلہ بغیر میرے بتائے اس طرح حل کر دیا کہ مجھے دعوت کلام دیتے وقت یہ اعلان کیا گیا کہ ’’اب میں ایک خوب صورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر جناب ماجد صدیقی کو دعوت کلام دے رہا ہوں جو سہارنپور سے تشریف لائے ہیں‘‘۔مسئلے کا حل بھی نکل گیا اور پھر میں نے خوب نعتیں سنائیں اور اللہ نے بہت نوازا۔اگر دوسرا کوئی ناظم مشاعرہ ہوتا تو فساد کرا دیتا اور مشاعرہ بھی خراب ہوتا۔یہ تھے ملک زادہ منظور جو ہم نوجوانوں او ر اردو والوں کے لیے ایک نعمت تھے۔وہ آج بظاہر نہیں ہیں لیکن ہمارے دلوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ ۔اردو دنیا میں بعض ایسی شخصیات ہوئی ہیںجن کے بارے میں شخص کا اطلاق ہی نہیں کیا جا تا بلکہ شخصیت کا کیا جاتا ہے۔انھیں میں موجودہ عہد میں آبروئے نظامت پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کا نام نامی اسم گرامی لیا جاتا ہے۔موصوف کی پوری زندگی اردو اور اردو زبان و ادب کی آبیاری او ر اردو کو اس کا جائز مقام دلانے کی کوششوں میں گزری۔انہوں نے اردو کے مسئلے پر ۱۹۶۲ء میں تحریک شروع کی جو بعد میں پورے ملک میں پھیلی اور اردو آج گھر گھر ہے تو اس تحریک کا بڑا حصہ ہے۔بعد میں انہوں نے اردو رابطہ کمیٹی قائم کی جس کا میں آج تک جنرل سکریٹری ہوں۔یہ رابطہ کمیٹی حسب توفیق کچھ نہ کچھ اردو کے لیے کرتی رہتی ہے۔مولانا آزاد پر وہ ایک authotrity مانے جاتے تھے اور ان پر ہندوستان میں پہلے Ph.D. کرنے والے اردو کے محقق تھے۔

ملک زادہ منظور احمد کی پیدائش ۱۷؍اکتوبر ۱۹۲۹ء کو فیض آباد ضلع کے ایک چھوٹے سے گائوںکے ایک سادات خاندان میں ہوئی جو نہایت دین دار اور خدا ترس خانوادہ کہلاتا ہے۔وہ ایک بہترین خطیب،مفکر،دانشور،شاعر،شرح نگار،تفہیم کارتھے۔ یہ تمام خوبیاں ایک روشن ستارے کی طرح ان میں جگمگاتی ہیں لیکن فن نظامت نے ان کی ان خوبیوں پر ایک چادر تان دی اور وہ صرف ایک ناظم مشاعرہ کے طور پر پہچانے جانے لگے اور پوری زندگی دوسروں کو متعارف کرانے میں گزاردی اور اپنا تعارف نہ کرا سکے۔میں کوشش کروں گا کہ مختصر طور پر ان کے بارے میں کچھ تحریر کر سکوں مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ کر سکوں گا۔

یہ حقیقت تابناک سورج کی طرح روشن ہے کہ ملک زادہ منظور نے اردو شعر و سخن کی تاریخ میں اردو زبان و ادب کے سب سے عظیم ترسیلی ادارے ’’مشاعرے‘‘ کو اپنی غیر معمولی بصیرت،خوبصورت انداز ِخطابت اور دل آویزاں بلاغت کے اعتبار سے اس مقام تک پہنچا دیا کہ جس کی نظیر اردو دنیا میں مشکل سے نظر آئے گی۔صرف مشاعروں میں شامل ہونے والے شعرا،سیمینار میں شامل ہونے والے ناقدین،ان میں شامل ہونے والے سمعین،اخبار و رسائل کے قارئین اور آئندہ آنے والی نسلیں ان کے اس بے نظیر کارنامے پر فخر کرتی ہیں اورکہتی ہیں کہ ملک زادہ منظور ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جسے فنِ نظامت و خطابت میں لفظ ’’لاثانی‘‘ سے تعبیر کیا جائے گا۔ان کو صرف لاثانی ناظم مشاعرہ کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوگا۔ وہ ایک ممتاز و منفرد شاعر،ادیب اور نقاد تھے۔ اس میں بھی وہ اپنے منفرد رنگ و آہنگ سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ان کی شاعری میں حسن و جمال بھی ہے،غم ِروزگار بھی۔آگ و خون کا سمندر بھی،صحرا،زنداں،طوق و سلاسل،آتشِ ہجر،شیخ و برہمن،ساقی و ساغر کے علاوہ ان کی شعری کائنات میں فکر و فلسفہ اور گہرائی نظر آتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے بہت کم لکھا ہے لیکن جو لکھا ہے وہ اردو غزل کے سرمایہ میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔وہ بحیثیت ایک شفیق استاد،سپہ سالار ِزبان اردو اور ادبی و شعری تاریخ میںہر حال میں اور ہر حیثیت سے منفرد نظر آتے ہیں۔میں بڑی ایمانداری سے اس بات کا اعتراف کر رہا ہوں کہ چندصفحات میں ان کا تعارف پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان پر کتاب در کتاب لکھنے کے بعد بھی اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ
’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘

جیسا کہ میں تحریر کر چکا ہوں کہ ملک زادہ منظور احمد ایک اعلی سادات گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے دادا اور نانا دونوں زمیندار تھے۔ملک زادہ منظور کو اپنی والدہ ماجدہ اور ناناکی طرف سے سکراول قصبہ ٹانڈہ میں خاصی جائداد ملی تھی لیکن خاتمہ ٔزمینداری کے اعلان کے ساتھ کاشتکاروں نے ہی ان زمینوں پر قبضہ کر لیا لیکن ملک زادہ منظور احمدکا شاعر اپنی حمیت و غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے معاوضہ بھی لینے نہیں گیا۔طالب علمی کے زمانے میں ہی انھیں شعر و ادب سے دلچسپی ہو گئی تھی اور وہ اکثر شعر خوانی،بیت بازی اور تمثیلی مشاعروں میں حصہ لینے لگے تھے اور مڈل تک آتے آتے مشاعروں اور ادبی محفلوں میں جانے کا شوق حد درجہ مزید ہو گیا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں آزادی ٔ وطن کے نعروں کی گونج تھی۔مڈل پاس کرنے کے بعد انھوں نے گورکھپور کے جارج اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا تو یہاں کے ادبی ماحول نے ان کے ذوق کو اور جلا بخشی۔کیوں کہ یہاں کے مشاعروں میں علامہ ابر احسنی گنوری،حضرت جگر مرادآبادی،ساغر نظامی،شمسی مینائی،شفیق جونپوری،مجروح سلطانپوری،وامق جونپوری،مجاز لکھنوی، جعفر علی خاں، شمیم جے پوری،خمار بارہ بنکوی جیسے اساتذہ شریک ہوتے تھے۔ان دنوں مجنوں گورکھپوری سینٹ انڈریوز کالج میں اردو اور انگریزی کے استاد تھے۔ان کے چچا چاہتے تھے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے وہ مڈل کے بعد ہی تعلیم کو خیرآباد کہہ دیں لیکن ان کے والد گرامی کی حسرت اعلیٰ تعلیم دلانے کی تھی۔بہر حال ملک زادہ منظور احمد نے کسمپرسی کے عالم میں والد کی آرزو کو پورا کرنے کا عہد کر لیا۔ہائی اسکول امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔انھوں نے ۱۹۴۵ء میں ایف ۔اے۔میں داخلہ لے لیا۔امتیازی پوزیشن کی وجہ سے انھیں وظیفہ جاری ہو گیا۔ان کا شعور بالیدہ ہو چکا تھا۔لہٰذا انھوں نے آزادیٔ وطن کے متوالوں کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو بڑھایا اور وطن کی آزادی میں حصہ لینے لگے۔انھیں تقسیم ملک سے کافی اختلاف تھا۔وہ کالج میں اسٹوڈینٹس یونین کے سکریٹری چن لیے گئے اور آس پاس کے اضلاع میں اجلاس میں جانے لگے اور خطاب کرنے لگے۔
کانپور کے ایک عوامی جلسے کو انھوں نے اس وقت خطاب کیا جب پنڈت جواہر لال نہرووہاں آنے والے تھے۔نہرو جی کے آنے سے قبل ہزار ہا افراد نے اس نوجوان خطیب کی تقریر سنی اور زندہ باد کے نعرے بلند کیے گئے۔دراصل آزادیٔ وطن کا سبق انھیں اپنے خالو مولاناحسین احمد مدنی سے ملا تھا لیکن تقسیم ملک نے ان کے دل کو توڑ دیا۔۱۹۴۹ء کا یہ اہم واقعہ کہ جب ۲۳۔۲۲ دسمبر کی درمیانی شب میں اجودھیا کی باہری مسجد میں ہنومان گڑھی کا مہنت ابھے رام مسجد کی دیوار پھاند کر اندر داخل ہوا اور درمیانی گنبد کے نیچے رام کی مورتی رکھدی۔مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی۔ہندئوں نے ہنگامہ کیا کہ رام للا پرکٹ ہوئے ہیں۔مسلمانوں نے اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی جلسے کیے تو ملک زادہ منظور احمد نے بھی ایک جلسے میں اس کے خلاف زبردست تقریر کی جس پر کانگریسیوں نے کہا کہ ارے یہ تو مسلم لیگی ہے۔ملک زادہ منظور احمد نے کہا کہ جب کانگریسی ہندو سبھا کا مظاہر کر سکتے ہیں تو مسلمان کانگریسیوں کو مجبوراً مسلم لیگ کا مظاہر کرنا پڑتا ہے۔

میرا مضمون طویل ہوتا جا رہا ہے جبکہ میں اسے مختصر لکھنا چاہتا ہوں مگرجیسا کہ میں تحریر کر چکا ہوں کہ ملک زادہ منظو احمد کے کارنامے دراصل اتنے ہیں کہ ان پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔خیر۔ملک زادہ منظور احمد نے پہلے تاریخ اور پھر انگریزی میں ایم۔اے۔کیالیکن اردو سے روحانی رشتہ کی وجہ سے بعد میں اردو سے ایم۔اے۔کیا۔جلد ہی’’ مولانا ابوالکلام آزاداور فکر و فن ‘‘ پر مقالہ مکمل کیا اور دانشوروں میں شمار ہونے لگے۔وہ ۱۹۵۱ء میں جی۔وی۔ایس۔کالج مہاراج گنج میں تاریخ کے معلم،۱۹۵۲ء میں جارج اسلامیہ کالج، گورکھپور میں تاریخ کے لکچرار،۱۹۵۲ء سے ۱۹۶۴ء تک شبلی کالج اعظم گڑھ میں انگریزی ادبیات کے لکچرار اور۱۹۶۴ء سے ۱۹۶۸ء تک ریڈر اور پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو رہ کر لکھئو یونیورسٹی سے۱۹۹۰ء رٹائر ہوئے۔وہ ایک عرصہ تک اردو کادمی،اتر پردیش کے چیرمین بھی رہے جہاں انھوں نے اردو کے لیے بہت سے کام کیے۔
ملک زادہ منظور احمدپوری اردو دنیا میں واحد ایسے ناظم مشاعرہ تھے کہ جن کا ثانی نہ ہندوستان میں ہو سکا ہے اور نہ پاکستان میں۔انھیںغزل اور نظم کی طرح نثر پر بھی بھرپور دسترس حاصل تھی ۔ملک زادہ منظور احمدکی غیر معمولی صلاحیت ،جولانیِ طبع اور تخلیقی ذہانت ان کے فن اور شخصیت میں زندہ و جاویدہو کر قاری کے سامنے آتی ہے۔انھوں نے اردو رابطہ کمیٹی بنا کر گزشتہ چالیس سال سے اردو کے آئینی حقوق کی ملک گیرتحریک چلا رکھی ہے جس کے پلیٹ فارم سے وہ مسلسل اردو کی بقا کے لیے کوشاں ہیں۔ مجھ کو انھوں نے کمیٹی کا جنرل سکریٹری بنا رکھا ہے جو ان کے خلوص کی بات ہے۔ہمارے ملک میں اردو مخالف اور تنگ ذہنوں کے ذریعے ہونے والی سازشوں سے وہ خائف نہیںتھے۔انھیں امیدتھی کہ ہر رات کے بعد سحر ہوتی ہے اور یقینا ایک دن ایسا سورج نکلے گا کہ ہم کہہ سکیں گے ’’اردو زندہ باد۔اردو پائندہ باد‘‘۔

ملک زادہ منظور احمدکی بہت سی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ’’غبار خاطر کا تنقیدی مطالعہ‘‘،’’مولانا آزاد الہلال کے آئینے میں‘‘،’’نگارشات ملک زادہ منظور‘، ’’ابوالکلام آزاد فکر و فن‘‘،’’کالج گرل‘‘(ناول)، ’’اردو کا مسئلہ‘‘،’’شہر سخن‘‘،’’رقص شرر‘‘(خود نوشت)،’نظیر اکبرآبادی کی غزلوں کا انتخاب‘‘ ’’اردو کا مسئلہ‘‘ وغیرہ۔انھیں حکومت ، ادبی اور نیم ادبی تنظیموں نے بہت سے اعزازات سے بھی نوازا ہے۔ملک زادہ منظور احمد پریہ مختصر سی تحریر جس میں میں ان کے تعارف کا حق ادا نہیں کر سکا،یقینا آپ میری بات کی تائید کریں گے لیکن میں خدا کے حضور دعاگو ہوں کہ ان کو جنت مین اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ملک زادہ منظور کو کو دیکھ کر ہم نئے لوگ خود کو بہتر ادیب،شاعر اور مہذب بنا سکے تھے۔ ان کی نیکی اور ایمان کی اس سے بڑی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جمع کے دن ۲۲؍اپریل ۲۰۱۶ء کو وہ بھی نماز جمع کے بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ زندگی کے آخری سان س تک انہوں نے مایوسی کی بات نہیں کی مسکراتے ہوئے ہم سب کواکیلا چھوڑ گئے۔ان کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ وہ نئے لکھنے والوں کی تربیت اور سرپرستی کرتے تھے۔ان کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ وہ ہمیشہ چلنے کے قائل تھے اور آخری سانس تک حوصلوں کی بات کرتے رہے۔ انھوں نے کبھی اپنی جانب سے کسی کو تکلیف نہیں دی اور خود ہی اپنے دو خاندانوں کی سرہرستی کر تے رہے۔ ا ن کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا بھرنا نا مکن ہے۔ خدا ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے خاندان اور اہل اردو کو صبر کی توفیق دے۔وہ بظاہر نہیں ہیں لیکن ہمیشہ وہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ان کو سب سے بڑا خراج عقیدت یہ ہوگا کہ ان کے اردو کے تئیں فنا ہونے اور اردو کو قائم رکھنے کے جذبے کو آگے بڑھایا جائے۔ آخیر میںقارئین کی عدالت میں بغیر کسی تبصرے کے ملک زادہ منظور احمد کے کچھ اشعار اور ان کی ایک نظم کے ایک حصے کو پیش کرتے ہوئے یہ تحریر ختم کرہا ہوں:
جب کبھی حسن یقیں حسن گماں نکلا ہے
شمع فانوس محبت سے دھنواں نکلا ہے
۔
ہر نفس ان کا تصور، ہر قدم ان کا خیال
لطف منزل میں کہاں جوجادۂ منزل میں ہے
۔
کون سلجھائے گا اب گیسوئے جاناں دیکھیں
آج کے دور کا انسان پریشاں ہے بہت
۔
دروازے پر آہٹ سن کر اس کی طرف کیوں دھیان گیا
آنے والی صرف ہو ا یسا بھی ہو سکتا ہے
۔
دریا میں طلاطم ہو تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں طلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا
۔
ہمارے شعروں میں مقتل کے استعارے ہیں
ہماری غزلوں نے دیکھا ہے کوچۂ قاتل
ہر ایک لفظ پریشاں ہر ایک مصرعہ اداس
ہم اپنے شعر کے مفہوم پر پشیماں ہیں
خدا کرے کہ جو آئیں ہمارے بعدوہ لوگ
ہمارے فن کی علامات کو سمجھ نہ سکیں