جبل عرفات۔ 5؍اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام)۔ مسلم قائدین کو دشمنان اسلام کے ساتھ آہنی پنجے سے نمٹنا چاہئے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم نے خطبہ کے دوران کہا کہ عسکریت پسندوں سے آہنی پنجے سے نمٹا جانا چاہئے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے مفتیوں نے بھی شام میں عسکریت پسند دولت اسلامیہ پر امریکہ کی فضائی بمباری کی تائید کی۔ حج کے دوران اپنے خطاب میں مفتیٔ اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز الشیخ نے دیگر اسلامی ممالک کے قائدین سے خواہش کی کہ دشمنان اسلام پر آہنی پنجے سے ضرب لگانی چاہئے۔ دولت اسلامیہ گروپ نے شام اور عراق کے کئی علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے خلافت کے قیام کا اعلان کردیا ہے اور مقامی افراد پر مظالم کررہے ہیں۔ جن میں صلیب پر چڑھانا اور سر قلم کرنا شامل ہیں۔
سرکاری سعودی خبررساں ادارے نے مفتی اعظم کا بیان شائع کرت ہوئے کہا کہ ہمارا مذہب خطرے میں ہے، ہماری صیانت خطرے میں ہے، یہ مجرم عصمت ریزیاں، خونریزیاں اور لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ ان جرائم کو دہشت گردی قرار دیا جاسکتا ہے اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ دہشت گرد ہیں اور ان کا نظریہ انحراف کا نظریہ ہے۔ جبل عرفات کی مسجد نمرہ میں خطبہ دیتے ہوئے مفتی اعظم نے کہا کہ انتہا پسند انتشار اور الجھن پھیلانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی صیانت حفاظت اور استحکام کا تیاری کریں۔ مسلمانوں کے مفادات ان کے وسائل اور حکومتوں کے پراجکٹس، القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے جہادیوں کے نشانے پر ہیں جو اسلام کے دشمن نمبر ایک ہیں۔ دنیا بھر کے تقریباً 20 لاکھ حاجی جبل عرفات پر فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد نماز ادا کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے۔
سعودی عرب کے علمائے دین قبل ازیں بھی دولت اسلامیہ (داعش) کے جنگجوؤں کی اسلام کو رسوا کرنے کی کارروائیوں کی شدید مذمت کرچکے ہیں، حالانکہ سعودی عرب پر دیگر ممالک نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ شام اور عراق کی خانۂ جنگی میں حکومت کے مخالف جنگجوؤں کی پوشیدہ طور پر تائید کررہا ہے، تاہم دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی سعودی علمائے دین کی جانب سے سخت مذمت ظاہر کرتی ہے کہ سعودی عرب کا موقف دشمنان اسلام کے خلاف بہرحال سخت ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرکے خلافت اِسلامیہ کا اعلان کردیا ہے۔ خبروں کے بموجب انھوں نے کئی پیغمبروں کے مزاروں اور اولیاء اللہ کے مزاروں کو بھی شہید کردیا ہے اور سخت تعزیری قوانین نافذ کردئے ہیں جس کی بناء پر اس علاقہ سے کرد عوام کا وسیع پیمانے پر خروج عمل میں آیا ہے۔