عقیل احمد
نئی دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی کی زیرقیادت مرکزی حکومت میں وادی کشمیر اُری میں ہندوستانی افواج پر اتوارکے روز ہوئے ہلاکت خیز دہشت گرد حملے کے جواب میں اپنائی جانے والی حکمت عملی پر بڑے زور و شور سے سوچ بچار ہورہاتھا ۔ اس دہشت گرد حملے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 18تک پہنچ گئی تھی کیونکہ ایک اور فوجی پیر کے روز زخموں سے جانبر نہیں ہوسکا تھا ۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی قیامگاہ پر اس اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس بات کی خواہش کی کہ اس پاکستانی دہشت گرد حملہ کے فوری ردعمل کے طور پر پاکستان کو سفارتی طور پر الگ تھلگ کردینے کی غرض سے عالمی طور پر متحدہ کارروائی عمل میں لائی جائے ۔ ہندوستان عالمی برادری کے روبرو پاکستان کے موقف کو پیش کرنے میں ثابت قدم رہا ۔ ہندوستان نے پاکستان سے کی جارہی دہشت گردی کے قابل مواخذہ ثبوت پیش کیں ۔ ہندوستان کا منظر یہ ہے کہ پاکستان کو سفارتی طور پر الگ تھلگ کردیا جائے جبکہ ہندوستان اُری میں پیش آئے دہشت گرد حملے میں پاکستانی روابط کو منظر عام پر لانے کی سعی و منصوبہ بندی کررہا ہے ۔ دہشت گرد واقعہ کے مقام سے ہندوستان کو پاکستان کے دہشت گرد واقعہ میں ملوث ہونے کے شواہد دستیاب ہوئے ہیں جیسے مہلوک دہشت گردوں کے پاس سے پاکستانی نشان لگے اشیاء غذا ‘ مشروبات اور جی پی ایس لاکرس برآمد ہوئے ۔ ان کو قابل مواخذہ شواہد کے طور پر استعمال کیا جائے گا ۔
ہندوستانی ڈی جی ایم او بہت جلد ان شواہد کو ان کے ہم منصب کو اسلام آباد میں پیش کریں گے ۔ تاہم ذرائع نے ہندوستان کی جانب سے کسی بھی شدید کارروائی کے امکان کو مسترد کیا ہے ۔ ہر کسی کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی کوئی کارروائی کی جائے گی ۔ کسی بھی فیصلے سے قبل ہندوستانی حکومت کُل جماعتی اجلاس پر غور خوص کرہی ہے ۔ دریں اثناء ہندوستانی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور وزیر دفاع منوہر پاریکر نے اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرتے ہوئے کشمیر میں سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا ۔ وزیراعظم نے دہشت گردی کی جانب سے استعمال کئے جانے والے دھماکہ خیز مادوں پر تشویش کا اظہار کیاہے ۔ ذرائع کے مطابق اس طرح کے آتش گیر مادے ‘ ہتھیار صرف افواج اپنے پاس رکھتی ہے جبکہ مہلوک دہشت گردوں کے پاس سے برآمد کردہ ہتھیار ان شکوک شبہات کو بڑھا وا دیتے ہیں کہ اس دہشت گرد حملے میں پاکستان ملوث ہے ۔
اقوام متحدہ کے جاریہ اجلاس میں اُری کشمیر میں دہشت گرد حملے پر مباحث ہوسکتے ہیں۔ ہندوستانی سفارت کار اس دہشت گرد حملے میں پاکستان کے خلاف قابل مواخذہ ثبوت شواہد کے ساتھ پوری طرح تیار ہیں ۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے جو کہ پہلے ہی نیویارک اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران مسئلہ کشمیر کو اٹھایا ۔ ہندوستان کے پاس موجودہ صورتحال سے نمٹنے پانچ راستے کھلے ہیں ۔ سرحد پار دہشت گرد کیمپوں پر تیز رفتار حملوں کے لئے خصوصی افواج کا استعمال ‘ بھاولپور میں موجود جیش محمد کے دہشت گرد کیمپس کو نشانہ بنانا ‘ پاک مقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد کیمپوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ کئی میڈیا ایجنسیوں کی جانب سے اہتمام کردہ نیوز پولس میں زیادہ تر رائے دہندوں نے دشمن کی سرحد میں موجود دہشت گرد کیمپوں پر مسلح حملے کا مطالبہ کیا ہے ۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائی کے کیا امکانی نتائج اثرانداز ہوں گے ۔ دشمن ملک کے خلاف اس طرح کی بڑی کارروائی آسان نہیں ہوگی ‘ کہیں یہ کارروائی ایک بھونڈی کارروائی میں تبدیل نہ ہوجائے ‘ کہیں یہ کارروائی ایک بڑی جنگ میں تبدیل نہ ہوجائے ۔ اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیں ملک کے ساتھ ہندوستان کی باضابطہ جنگ کا آغاز ہوجائے ۔ دوسرا خفیہ کارروائی کا راستہ ہے ‘ ہندوستان ‘ بلوچستان اور گلگت ‘ کے مقامی سیاست دانوں کے ذریعہ رائے عامہ کوپاکستان کے خلاف مشتعل کرنے کی غرض سے مخفی کارروائیوں کا آغاز کرسکتا ہے ۔ یہاں معاشرہ میں گھل مل کر ہندوستانی ٹیمیں پاکستان سے کسی حکومت کے تعلق سے عوامی رائے معلوم کرسکتی ہے ۔ اس سے پاکستان کی پالیسی کے تئیں مقامی عوام میں معاندانہ رویہ مزید بڑھے گا ۔ تاہم اس طرح کی مخفی کارروائیاں ایک طویل مدتی منصوبہ بندی سے بڑی ہیں ۔ اس کے فوری طور پر کوئی نتائج سامنے نہیں آتے تاہم یہ ایک محفوظ اقدام ہوسکتا ہے ۔ تیسرا راستہ آبی لڑائی ہے ۔ ہندوستان Indus آبی معاہدہ جو کہ 1960ء کے دہے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان طئے پایا تھا اس پر عمل آوری سے خود کو دور کرسکتا ہے جبکہ اس معاہدہ کی رو سے ہندوستان کو چھ دریاؤں کا 19.48فیصد پانی حاصل ہوتا ہے ‘ ماباقی پانی پاکستان کو جاتا ہے۔ ماہرین کا ایسا کہنا ہے کہ Indus آبی معاہدہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ سخت معاہدہ ہے ۔ پاکستان کو Indus دریاؤں سے حاصل ہونے والے پانی پر روک ہندوستان کے حق میں ایک موثر کارروائی ہوسکتی ہے تاہم عالمی بینک کو مایوس کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ چوتھا راستہ معاشی تحدیدات ہیں‘ امریکہ نے جس طرح ایران کے خلاف معاشی تحدیدات عائد کئے تھے اس طرح ہندوستان اپنے پڑوسی ملک کے خلاف معاشی تحدیدات عائد کرسکتا ہے تاکہ اسلام آباد اپنی سرزمین سے پڑوسی ملک ہندوستان خاص کر کشمیر میں دہشت گرد کارروائیوں کو سرانجام دینا بند کردیں ۔ اس کا دوسرا رُخ دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی جنوبی ایشیاء سے مکمل درآمدات چار فیصد سے بھی کم ہے ۔ لہذا تنہا ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف معاشی تحدیدات کا کوئی خاص اثر پاکستان پر نہیں پڑے گا ۔ پانچواں راستہ پاکستان کو عالمی سفارتی طور پر یکا و تنہا کردینا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس بات کا پہلے بھی اشارہ دیا جاچکا ہے کہ پاکستان کو عالمی برادری سے الگ تھلگ کردینے کیلئے تمام تر ممکنہ اقدامات روبہ عمل لائے جائیں ۔ ہندوستان آنے والے دنوں میں بشمول یو این جی اے تمام بین الاقوامی فورمس میں پاکستان میں قائم دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے اُری کشمیر میں پیش آئے دہشت گرد واقعہ میں ملوث ہونے کے متعلق تمام شواہد ثبوتوں کو پیش کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے اور اس پر عمل آوری شروع بھی ہوگئی ہے ۔ یہ بھی ایک طویل مدتی حکمت ہے جس کے مستقبل قریب میں کوئی موثر اثرات مرتب نہیں ہوں گے ۔ یہ بات سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کئی دہشت گرد گروپس کیلئے ایک محفوظ پناہ گاہ بن چکاہے ۔