محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ ریاست کی پہلی یوم تاسیس تقاریب بڑی دھوم دھام سے منائی جا رہی ہیں۔ ان تقاریب کا انعقاد ہونا بھی چاہئے، کیونکہ نصف صدی کی تحریک اور سیکڑوں زندگیوں کی قربانیوں کے بعد علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل پائی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے اس موقع پر ’’جشن اُردو‘‘ کا بھی اہتمام کیا ہے، جو قابل ستائش اقدام ہے، مگر اس کو صرف حیدرآباد کے پرانے شہر تک محدود رکھنا مناسب نہیں ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے 9 پروگرامس ترتیب دیئے گئے ہیں اور ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی کو ان کا انچارج بنایا گیا ہے۔ محمد محمود علی ان پروگرامس میں شرکت کرتے ہوئے اپنی رائے ظاہر کر رہے ہیں اور اپنی طرف سے چند وعدے بھی کر رہے ہیں۔
جشن اُردو تقاریب سے حکومت کی دلچسپی کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ ایک بھی پروگرام میں چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کا نام شامل نہیں ہے۔ آنجہانی چنا ریڈی کے بعد کے چندر شیکھر راؤ ایک ایسے چیف منسٹر ہیں، جو اُردو زبان سے واقف ہیں۔ وہ اردو اچھی طرح بول اور سمجھ سکتے ہیں، مگر انھوں نے جشن اردو کا حصہ بننا مناسب نہیں سمجھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف جشن اردو کے نام پر مشاعروں اور سمینارس کے انعقاد سے اردو زبان کی ترقی ممکن ہے؟ یا ٹھوس عملی اقدامات کے ذریعہ اردو کو اس کا مستحقہ مقام حاصل ہوگا؟۔
یوم تاسیس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے 25 ہزار سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کے علاوہ خانگی ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ضلع کھمم کے سواء تلنگانہ کے 9 اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ان اضلاع میں اردو میڈیم کے کتنے سرکاری مدارس ہیں؟ ٹیچرس کی کتنی جائدادیں مخلوعہ ہیں؟ کیا اردو اساتذہ کے ریٹائرمنٹ کے بعد ان جائدادوں پر دوبارہ تقررات ہوئے ہیں؟ اردو میڈیم سرکاری مدارس کے کیا مسائل ہیں؟ معیار تعلیم گھٹنے کی وجہ کیا ہے؟ سرکاری اسکولس میں طلبہ کی تعداد بڑھانے کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں؟ ان مسائل پر غور و خوض نہیں کیا گیا اور نہ ہی جشن اردو میں اردو اساتذہ کی مخلوعہ جائدادوں پر تقررات کا اعلان کیا گیا۔اضلاع میں دوسری سرکاری زبان اردو ہے، تاہم محکمہ جات (سکریٹریٹ تا گرام پنچایت) میں اب تک اردو مترجمین کا کوئی انتظام نہیں ہے، یعنی اردو درخواستوں کی کوئی سنوائی نہیں ہے۔ جشن یوم تاسیس کے موقع پر حکومت نے بڑے پیمانے پر تشہیر اور مختلف زبانوں کے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات جاری کرتے ہوئے دو خاتون چیف منسٹرس (جے للیتا اور مایاوتی) کی یاد تازہ کردی۔
حکومت کا اقلیتی بجٹ ’’نام بڑا اور درشن چھوٹا‘‘ جیسا ہے۔ پہلے دس ماہ کے لئے ٹی آر ایس حکومت نے اسمبلی میں ایک ہزار کروڑ پر مشتمل اقلیتی بجٹ منظور کیا، تاہم صرف 400 کروڑ روپئے جاری کئے، جو زیادہ تر فیس باز ادائیگی، اسکالر شپس اور محکمہ اقلیتی بہبود کے ملازمین کے لئے جاری ہوئے، ماباقی 600 کروڑ روپئے حکومت کے خزانے میں واپس چلے گئے۔ جاریہ سال حکومت نے اقلیتوں کے لئے 1130 کروڑ روپئے کا بجٹ منظور کیا ہے، مگر تین ماہ گزرنے کے باوجود بجٹ کی پہلی قسط اب تک جاری نہیں کی گئی۔ یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ جشن اردو کے مصارف محکمہ اقلیتی بہبود کے بجٹ سے پورے ہو رہے ہیں، جب کہ محکمہ اقلیتی بہبود کی مخلوعہ جائدادوں پر طویل عرصہ سے تقررات نہیں ہوئے اور عارضی ملازمین کی خدمات سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر حکومت کو چاہئے کہ محکمہ اقلیتی بہبود کی مخلوعہ جائدادوں پر تقررات کے احکام جاری کرے اور جو عارضی ملازمین ہیں ان کی خدمات کو مستقل بنائے، تب ہی جشن اردو تقاریب ثمرآور ہوسکتی ہیں۔
فیس باز ادائیگی اور اسکالر شپس سے استفادہ کے لئے حکومت ہر سال نئی نئی شرطیں نافذ کرکے طلبہ اور ان کے سرپرستوں کو نت نئے مسائل سے دو چار کر رہی ہے۔ اب تک سرکاری احکامات تو جاری نہیں ہوئے، مگر سنا جا رہا ہے کہ حکومت صرف 500 تک رینک حاصل کرنے والے طلبہ کی فیس باز ادائیگی پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ حکومت پہلے ہی فیس باز ادائیگی کے لئے کالجس کو تین گروپس میں تقسیم کرکے والدین پر مالی بوجھ عائد کرچکی ہے، لیکن اب نئی شرائط عائد کرکے مزید پریشان کیا جا رہا ہے۔ فیس باز ادائیگی اسکیم کے تحت حکومت اہل طلبہ کی صرف 35 ہزار روپئے فیس ادا کر رہی ہے اور اگر اس سے زائد فیس ہو تو طلبہ کو ادا کرنے کی ہدایت دی جا رہی ہے۔ اگر حکومت اقلیتوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی پسماندگی دُور کرنے کے لئے سنجیدہ ہے تو اس کو عملی اقدامات کرنا چاہئے۔ اقلیتی طلبہ کے لئے سرکاری خزانے سے مزید فنڈس جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بشرطیکہ 2015-16ء کا منظورہ بجٹ (1130 کروڑ روپئے) کو صحیح طریقے سے خرچ کیا جائے۔ اقلیتی بجٹ کو سال کے اختتام پر سرکاری خزانے میں واپس کرنے کی بجائے پروفیشنل کالجس میں داخلہ لینے والے اقلیتی طلبہ پر خرچ کیا جائے، کیونکہ اقلیتی بجٹ اقلیتوں کا جمہوری حق ہے۔ علاوہ ازیں اسکالر شپس کی اجرائی میں تاخیر نہ کی جائے اور غریب بیروزگار مسلمانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے نئی اسکیمیں متعارف کرائی جائیں۔
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے شاد نگر کے ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار حاصل ہونے کے بعد چار ماہ کے اندر مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں گے، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود تحفظات کا کہیں پتہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چیف منسٹر اس مسئلہ کا قانونی حل تلاش کر رہے ہوں، لیکن اس تاخیر سے مسلمانوں میں تشویش پائی جا رہی ہے، جب کہ حکومت اگر چاہے تو سرکاری اسکیمات کی اجرائی، مثلاً اراضی پٹہ جات کی تقسیم، ڈبل بیڈ روم کے فلیٹ، آسرا اسکیم کے تحت بیواؤں اور معمرین میں تقسیم کئے جانے والے وظائف میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرسکتی ہے۔ اس عمل میں کوئی قانونی دشواری بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی چیف منسٹر کو اس کے لئے کسی کی اجازت لینی پڑے گی۔ اسی طرح بینکوں سے مسلمانوں کے لئے قرضہ جات کی اجرائی کے معاملے میں بھی حکومت کو اقدام کرنا چاہئے اور بینکرس کو خصوصی ہدایت دینی چاہئے۔ بینکرس سے عام شکایت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو قرض دینے کے معاملے میں ٹال مٹول کی پالیسی اپناتے ہیں۔
ٹی آر ایس حکومت کی ایک سالہ کار کردگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو سوائے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے دوسرا کوئی قائد سرگرم نہیں ہے۔ وزراء میں ہریش راؤ اور کے ٹی آر کے سواء دیگر وزراء کی سرگرمیاں برائے نام ہیں۔ ہریش راؤ ٹی آر ایس کو مستحکم کرنے اور دوسری پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس میں شامل کرنے کے معاملے میں شہرت رکھتے ہیں، جب کہ کے ٹی آر تلنگانہ میں کارپوریٹ سیکٹر کو مستحکم کرنے اور بیرونی ممالک کا دورہ کرکے مختلف کمپنیوں کو تلنگانہ میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اسی طرح کے سی آر کی دختر و رکن پارلیمنٹ مسز کویتا مرکز سے تلنگانہ حکومت کے تعلقات کو سازگار بنانے میں اہم رول ادا کر رہی ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران حیدرآباد، رنگا ریڈی اور محبوب نگر کے گریجویٹ کوٹہ کے ایم ایل سی انتخابات کے سواء، دیگر انتخابات میں حکمراں ٹی آر ایس نے کامیابی حاصل کی ہے۔ حالیہ ایم ایل اے کوٹہ کے 6 ایم ایل سی نشستوں کے انتخابات میں پانچویں نشست پر ٹی آر ایس نے ایڑی چوٹی کا زور لگاکر کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ انتخابات ٹی آر ایس کے لئے وقار کا مسئلہ تھے۔ چار نشستوں پر تو اس کی کامیابی یقینی تھی، لیکن اس نے پانچویں نشست پر بھی کامیابی حاصل کرلی۔
چیف منسٹر تلنگانہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کے ماہر ہیں۔ انھوں نے تلگودیشم کے رکن اسمبلی ریونت ریڈی کو رشوت ستانی کے الزام میں جیل پہنچا دیا اور چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو کو بدنامی کے دلدل میں پھنسادیا۔ ٹی آر ایس کوئی دودھ کی دُھلی نہیں ہے، کیونکہ اس نے غیر جمہوری طریقے سے تلگودیشم کے پانچ، کانگریس کے چار اور وائی ایس آر کانگریس کے دو ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے ایم ایل سی انتخابات کی پانچویں نشست پر اپنی کامیابی کو یقینی بنایا۔
راہول گاندھی کے دورۂ نرمل کے بعد تلنگانہ کانگریس میں نیا جوش و خروش پیدا ہوا ہے۔ ایم ایل سی انتخابات میں کانگریس ارکان اسمبلی کی کراس ووٹنگ کی افواہیں گرم تھیں، تاہم کانگریس امیدوار کی کامیابی نے ان افواہوں کو غلط ثابت کردیا۔ فی الحال مقامی ادارہ جات کی 12 ایم ایل سی نشستیں تمام جماعتوں کے لئے وقار کا مسئلہ بنی ہوئی ہیں اور ہر جماعت نے ابھی سے اپنی اپنی تیاری شروع کردی ہے۔