ظفر آغا
اس میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم ہند کے بعد اردو کے ساتھ ہندوستان میں سوتیلا سلوک ہوا، کیونکہ بٹوارے کے بعد اردو کو پاکستان کی زبان قرار دے دیا گیا۔ سرکاری سطح پر نہ تو اردو والوں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے گئے اور نہ ہی اس زبان کو حکومت کی جانب سے کوئی مدد ملی۔ صرف یونیورسٹیوں میں شعبہ اردو اور ہر ریاست میں اردو اکیڈمیاں باقی رہیں۔ آزادی کے بعد اردو کے تحفظ اور اس کے ارتقاء میں غیر مسلم اردو دانوں نے جو رول ادا کیا ہے، وہ غالباً اردو داں مسلمانوں نے نہیں کیا۔ 1950ء، 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں جب اردو والے پاکستانی قرار دے دیئے گئے تھے تو رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری کی آواز اردو کے تحفظ میں سارے ہندوستان میں گونجتی رہی۔ اس وقت فراق صاحب نے اردو کی شان میں جو انگریزی مضامین لکھے اور جس طرح اردو کو گنگاجمنی تہذیب کی بہترین علامت قرار دیا، اردو والے ان کا یہ احسان فراموش نہیں کرسکتے۔ پھر اس کے بعد ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی اور جاں نثار اختر وغیرہ کو اس دور میں اگر کہیں پناہ ملی تو وہ ممبئی کی فلم انڈسٹری تھی، جہاں پنجابیوں اور گجراتیوں کا بول بالا تھا، لیکن ہندوستانی فلم انڈسٹری نے پاکستان کے قیام کے بعد بھی اردو کو عام ہندوستانیوں تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ جو زبان کبھی دہلی، لکھنؤ اور حیدرآباد وغیرہ کے چند حلقوں تک محدود تھی، لیکن فلموں کا نغمہ بن کر ہر ہندوستانی کی زبان کی چاشنی بن گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اردو کی اپنی شیرینی اور مٹھاس ہے، جس نے ہر نوجوان ہندوستانی کے دل و دماغ کو متاثر کیا اور یہ کام بھی ہندی فلموں کے ذریعہ ہی ہوا۔
اب تو اردو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دہلی جیسے مصروف اور سیاسی شہر میں حالیہ دنوں اردو کے دو بڑے شاندار جشن منعقد ہوئے، جن میں پہلا جشن ریختہ ہوا۔ یہ جشن انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں منایا گیا۔ اگر ایک ہال میں جاوید اختر اردو کی شیرینی پر لکچر دے رہے تھے تو دوسری طرف لان میں محفل مشاعرہ سجی ہوئی تھی۔ کہیں داستان گوئی کی محفل سج رہی تھی اور کہیں ’’لال قلعہ کا آخری مشاعرہ‘‘ کے عنوان پر ڈرامہ پیش ہو رہا تھا، جس کے کردار بہادر شاہ ظفر اور مرزا غالب جیسی شخصیتیں تھیں۔ پاکستان کے مشہور آرٹسٹ جناب ضیاء محی الدین نے اردو ادب کے ایسے شہ پارے پیش کئے کہ اہل دہلی اب بھی اس کا ذکر کر رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان محافل کو سجانے اور لوگوں کو اکٹھا کرنے والے ایک پنجابی برہمن ہیں، جن کا نام سنجیو صراف ہے۔
یہ صاحب پرانی دہلی میں پیدا ہوئے، امریکہ جاکر انھوں نے بہت دولت کمائی اور اردو سے ان کو اتنی والہانہ محبت ہے کہ اپنی دولت ’’ریختہ فاؤنڈیشن‘‘ کے زیر سایہ اردو کے فروغ کے لئے دل کھول کر خرچ کر رہے ہیں۔ ان کے جشن ریختہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے شرکت کی۔ صراف صاحب ایک ویب سائٹ ’’ریختہ ڈاٹ کام‘‘ بھی چلا رہے ہیں، جو اردو کے تحفظ کے لئے بڑا کام کر رہی ہے۔ دہلی ایک ایسا شہر ہے، جہاں کبھی میر و غالب اپنی سحر انگیز شاعری سے اردو کا چراغ روشن کرتے تھے، لیکن اب وہاں اس چراغ کو کامنا پرساد جیسی شخصیت روشن کئے ہوئے ہے۔
1980ء کی دہائی میں اردو پر ایک ایسا وقت آیا کہ اس شہر دہلی کا آخری مشہور مشاعرہ جو ڈی سی ایم کمپنی والے کروایا کرتے تھے، اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم کامنا پرساد (جو بہار کے ایک اردو داں گھرانے میں پلی بڑھی تھیں) کو اس بات پر بہت غصہ آیا۔ وہ اس وقت ایک صحافی تھیں اور آنجہانی خوشونت سنگھ کی شاگردہ تھیں۔ خوشونت سنگھ کے پاس پہنچیں اور غصہ سے لال پیلی ہوکر کہنے لگیں: ’’اب یہ دن آگئے کہ غالب کے شہر میں ایک بھی مشاعرہ نہیں ہوگا!‘‘۔ خوشونت سنگھ نے کہا: ’’اگر تم اس سلسلے میں کچھ کرسکتی ہو تو کرو!‘‘۔ اس کے بعد ہی کامنا کا غصہ مستحکم ارادے میں بدل گیا۔ اس کے بعد وہ مشہور مصور ایم ایف حسین کے پاس گئیں اور مشاعرہ کے لئے ان سے مدد طلب کی۔ ایم ایف حسین نے ایک بہت شاندار پینٹنگ اردو کے حسن پر بناکر کامنا کو دی۔ کامنا لوگوں کے پاس جاتی رہیں، اس کے بعد اردو کا ایک کارواں بن گیا۔ اس کارواں نے ’’جشن بہار‘‘ کی شکل اختیار کی، جس کے نام سے کامنا پرساد نے 1998ء میں پہلا مشاعرہ منعقد کیا، جس میں علی سردار جعفری، کیفی اعظمی اور پاکستان کے تمام اہم شعراء نے شرکت کی۔ کامنا پرساد ’’جشن بہار‘‘ کی سترہویں محفل /3 اپریل کو پھر سجا رہی ہیں، جس میں ہندوستان، پاکستان، امریکہ، برطانیہ، کناڈا، سعودی عرب، چین، جاپان اور دیگر ممالک کے شعراء اکٹھا ہوکر غالب کے شہر میں اردو کو تابندہ کریں گے۔ اسی طرح پنجاب میں ڈاکٹر نریش ہر سال پٹیالہ میں اردو کا ایک شاندار مشاعرہ منعقد کرتے ہیں، جس کو سن کر سامعین جھوم جھوٹ اٹھتے ہیں۔
آج کاروان اردو کی رہبری کامنا، صراف اور ڈاکٹر نریش جیسے افراد ہندوستان کے گوشے گوشے میں کر رہے ہیں، لیکن جو لوگ اردو کو اپنی وراثت سمجھتے ہیں، ان کو چاہئے کہ وہ ان عاشقان اردو کے ساتھ ہاتھ ملاکر اردو کو پورے ہندوستان کی زبان بنادیں۔ اب صرف اردو اکیڈمیوں کے قیام اور سیمناروں کے انعقاد سے کام چلنے والا نہیں ہیں۔ اردو کو ہر سطح پر اس ملک کی زبان بنانے کے لئے اس زبان کو عام ہندوستانیوں تک پہنچانا ضروری ہے، اس کے بعد ہندوستان ہی کیا، بلکہ ساری دنیا میں اردو کا ڈنکا بجے گا۔