اُردو اور حب الوطنی

ایل پانڈو رنگا ریڈی
وہ زبان جس نے ملک کو تحریک آزادی کا سب سے مقبول نعرہ دیا اور جدوجہد آزادی کے دوران حب الوطنی پر مبنی بے مثال شاعری پیش کی، اُسے تقسیم ہند کے بعد سب سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ خصوصیت سے مسلمانوں کے ساتھ غلط طور پر منسوب کردینے اور پاکستان کی جانب سے اسے اپنی سرکاری زبان بنائے جانے پر اُردو آزادی کے بعد سے ہندوستان میں پچھڑتی چلی گئی ہے۔ اردو کے شاعر اور مجاہد آزادی حسرت موہانی نے 1921ء میں ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ دیا، جو برطانوی راج کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہوئے مہاتما گاندھی کی قیادت میں مارچ کرنے والے لاکھوں ہندوستانیوں کا سب سے نمایاں نعرہ بن گیا۔ سبھاش چندر بوس نے اپنی انڈین نیشنل آرمی کیلئے حوصلہ بخش فقرہ کے طور پر تین اُردو الفاظ ’’اتحاد، اعتماد، قربانی‘‘ منتخب کئے تھے۔شاعر و فلسفی محمد اقبال ؔ کی نظم برائے ہندوستان ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ عین ممکن تھا کہ قومی ترانہ کے طور پر اختیار کرلی جاتی۔ تحریک آزادی کے دوران ملک بھر میں اس کے جوش و ولولہ پیدا کرنے والے اشعار کی گونج سنائی دیتی رہی جیسے ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا؛ ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘‘۔ یہ نظم کو قومی ترانہ کے طور پر پیش کیا گیا جب ہندوستان آزادی سے قریب تر ہوچلا تھا، اور اسے ڈسمبر 1946ء میں دستورساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں پڑھا گیا۔ اگر پاکستان نے اقبالؔ کو مسلم مادروطن کے اصل نظریہ ساز کے طور پر پیش نہ کیا ہوتا تو یہ نظم جو اپنے سادہ پن اور شدتِ جذبہ کیلئے بے نظیر ہے، یقینا قومی ترانہ کی حیثیت سے اختیار کرلی جاتی۔
اُردو شاعری کا حب الوطنی کے اظہار اور برطانوی راج کی مزاحمت کیلئے بڑا کردار رہا ہے۔ رام پرساد بسمل کے شعر ’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے…‘‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ بھگت سنگھ نے تختہ دار کو جاتے ہوئے اسے پڑھا تھا۔ جوش ملیح آبادی کے ’’میرا نعرہ: انقلاب، انقلاب، انقلاب‘‘ نے بھی زمانے کے جذبے کو اختصار میں پیش کیا۔ اقبالؔ نے ایک عمدہ نظم ’’نیا شیوالا‘‘ بھی لکھی جو دیگر نظموں کے برخلاف زیادہ مقبول نہیں ہوئی۔ اس نظم میں اقبالؔ کا استدلال ہے کہ ہندوستانیوں کو اپنے اختلافات فراموش کرتے ہوئے ایک ایسا مندر بنانا چاہئے جو کسی مخصوص بھگوان کے بجائے ہندوستان کے نام وقف ہو۔ تخیل میں ایک برہمن سے گفتگو کرتے ہوئے اقبالؔ ہم وطنوں کے تئیں کینہ پیدا کرنے پر اول الذکر کو ڈانٹ پلاتے ہیں۔ وہ ساتھ ہی مسلم مبلغ کو بھی مورد الزام ٹھیراتے ہیں کہ خدا کی طرف سے اچھی اچھی باتوں کو پیش کرنے کے بجائے اُس نے خود کو تشدد کی باتوں میں اُلجھا رکھا ہے۔ اقبالؔ نے گفتگو کا اختتام دو ٹوک الفاظ میں کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا: ’’میں نے آخرکار تنگ آکر مندر اور مسجد دونوں سے امید چھوڑ دی؛ میں نے مسلم مبلغ کے خطبات اور تمہاری داستانوں پر کان دھرنا ترک کردیا ہے؛ تم سمجھتے ہو کہ بھگوان پتھر اور گارے کی بنی تمہاری مورتیوں میں بستا ہے؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ میرے وطن کے ذرے ذرے میں خدا اپنا کرشماتی وجودرکھتا ہے‘‘۔اب وقت ہے کہ ہندوستان کی تمام طبقات پر مبنی قومی شناخت کی تعمیر میں اُردو کے منفرد حصے کو ازسرنو اُجاگر کیا جائے، جبکہ اس شناخت کو موجودہ طور پر فرقہ پرستی اور جنونی حب الوطنی کی انتشار پسند قوتوں سے خطرہ لاحق ہے۔