اولاد کی تربیت میں ماں کا کردار

سید شاہ محمد خضر نقشبندی مجددی

ماں کی گود کو اولاد کی پہلی درسگاہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اولاد کی تربیت میں ماں کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ وہ نیک اور پاکیزہ سیرت مائیں ہی ہیں، جنھوں نے ملت اسلامیہ کو عظیم مصلحین، علماء و فضلاء اور اولیاء کرام سے نوازا۔ جن کی علمی، اصلاحی اور دعوتی جدوجہد نے مختلف ادوار میں ملت اسلامیہ کو بحر ظلمات سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن فرمایا۔ جب بھی عالم اسلام کو معاشرتی، تہذیبی، اخلاقی اور مذہبی زوال نے گھیرا، یا پھر اغیار کی مخالف اسلام سازشیں کامیاب ہونے لگیں، انھیں پاکیزہ سیرت ماؤں کے صالح فرزندوں نے عالم اسلام کی رہبری و رہنمائی کی، قرآن اور صاحب قرآن کی تعلیمات کو عام کیا اور اسلام کے خلاف اٹھنے والی ہر آندھی کو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کردیا۔
تاریخ اسلام میں کئی ایسی خواتین بھی گزری ہیں، جنھوں نے اپنے علم و فضل، زہد و عبادت اور عرفان و سلوک سے اسلام کی بہت خدمت کی ہے۔ عالم اسلام کی سب سے اعلی و ارفع جماعت صحابہ کرام کی ہے۔ خواتین میں صحابیات بھی گزری ہیں، جنھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح کئی صحابیات احادیث مبارکہ کی راویہ بھی گزری ہیں، جن میں ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سب سے زیادہ احادیث مروی ہیں۔ آپ کے علاوہ حضرت بی بی سیدہ فاطمہ زہرا، حضرت ام سلمہ، حضرت حفصہ، حضرت میمونہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر، حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہن اور دیگر کئی صحابیات سے متعدد احادیث مروی ہیں۔علم فقہ میں بھی خواتین نے خدمات انجام دی ہیں، جن میں سے پانچ کا تذکرہ حضرت علی بن سلطان محمد القاری نے ’’الاثمار الجنیۃ فی اسماء الحنفیہ‘‘ میں کیا ہے۔ اسی طرح کئی ایک عارفات بھی گزری ہیں، جو درجہ کمال کو پہنچ چکی تھیں، جن کا تذکرہ حضرت جامی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ تصنیف ’’نفحات الانس‘‘ میں اور حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ’’اخبار الاخیار‘‘ میں ملتا ہے۔
اسی طرح ملت اسلامیہ کے بعض جلیل القدر اہل اللہ کی تعلیم و تربیت اور ان کی شخصیت کی نشوو نما میں ان کی ماؤں کا بڑا دخل رہا ہے۔ ان صالحہ، عابدہ، زاہدہ، عالمہ اور فاضلہ بیبیوں نے اپنے فرزندوں کی ایسی تربیت فرمائی کہ ایک عالم نے ان صالح فرزندوں سے استفادہ کیا۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ اوصاف حمیدہ سے متصف صاحب عالم خاتون تھیں۔ والدین کے ابتر معاشی حالات حضرت سفیان ثوری کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے، لیکن آپ کی والدہ نے فرمایا ’’اے میرے بیٹے! تم حصول علم میں مشغول رہو، میں چرخہ کات کر تمہارے اخراجات پورا کروں گی‘‘ اور اپنے فرزند کو نصیحت فرمائی کہ ’’علم، اخلاق و کردار کو سنوارنے کا سبب ہو نہ کہ ان کے بگاڑ کا باعث ہو، عبادت ہو تجارت نہ ہو‘‘۔
حضرت غوث اعظم دستگیر رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ حضرت سیدہ فاطمہ ام الخیر متقی و پرہیزگار خاتون تھیں۔ آپ کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ کی اور آپ کو اعلی تعلیم کے لئے بغداد روانہ فرمایا۔ حضرت غوث اعظم دستگیر رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بے شمار اشخاص نے کلمہ پڑھا اور بے شمار اشخاص نے اپنے گناہوں سے توبہ کی۔ آپ کی ذات بابرکت سے ایک طریقہ معرفت کی بنیاد پڑی، جس کا نام ’’سلسلہ قادریہ‘‘ ہے۔ اس سلسلے سے وابستہ افراد اقطاع عالم میں آپ کی تعلیمات کو عام کر رہے ہیں۔

حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ بی بی قرسم خاتون جو نہایت عابدہ، زاہدہ اور متقی خاتون تھیں۔ آپ کے فرزندان ابھی کمسن ہی تھے کہ آپ کے شوہر حضرت شیخ جمال الدین سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہو گیا۔ بی بی صاحبہ نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت بڑے اہتمام سے کیا۔ حضرت شیخ فرید کو مزید تعلیم کے لئے ملتان بھیج دیا۔ جب آپ اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر واپس آئے تو والدہ صاحبہ بے حد خوش ہوئیں اور آپ کو بہت دعائیں دیں۔ بی بی صاحبہ کے ایک اور فرزند حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے، جن کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ خلق خدا نے آپ سے خوب فیض پایا۔
حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ پانچ سال کی عمر میں ہی سایہ پدری سے محروم ہو گئے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی زلیخا نے ،جو بڑی عابدہ زاہدہ خاتون تھیں، سوت کات کر اپنے فرزند کی پرورش کی۔ کبھی گھر میں فاقہ ہوتا تو اس دن آپ اپنے سعادت مند فرزند سے فرماتے ’’بابا محمد! آج ہم لوگ خدا کے مہمان ہیں‘‘۔ والدہ محترمہ نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی اور آپ کو اپنے وقت کے نامور علماء کے سپرد کیا۔ حضرت بی بی زلیخا اپنے پیارے فرزند کا حصول علم کا ذوق اور جستجو دیکھتیں تو بہت خوش ہوتیں اور انھیں دعائیں دیتیں۔ آپ مستجاب الدعوات خاتون تھیں، خشیت الہی کے غلبہ سے ہر وقت روتی رہتی تھیں۔
حضرت خواجہ رضی الدین باقی باللہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ عابدہ، زاہدہ اور عارفہ خاتون تھیں۔ اپنے لخت جگر کے لئے بہت سی خادماؤں کی موجودگی کے باوجود آپ خود تنور میں روٹیاں لگاتیں اور سالن بھی خود پکاتی تھیں۔ حضرت خواجہ باقی باللہ فرماتے ہیں کہ پکانے والا باوضوء ہو اور کھانا پکنے کے وقت حضوری اور جمعیت میں مشغول رہے، اس وقت کلام دنیاوی میں مصروف نہ ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ جو لقمہ بے حضوری اور بے احتیاطی میں پکایا جائے، اس کے کھانے سے دھواں اٹھتا ہے، جو فیض کے راستوں کو بند کردیتا ہے۔

آج جب ہم تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دختران ملت کی دین حق کی خدمات کا اندازہ ہوتا ہے۔ صنف نازک میں بھی بہت سی عارفہ، زاہدہ، عالمہ اور فاضلہ گزری ہیں۔ موجودہ دور کی خواتین کو ان پاکیزہ سیرت خواتین کی حیات اور تعلیمات سے واقف کروانا چاہئے، تاکہ ان کی حیات اور تعلیمات سے سبق حاصل کرسکیں۔ آج عالم اسلام کو کئی چیلنجس کا سامنا ہے، جن میں اپنی تہذیب و تمدن اور اخلاق و کردار کی بقاء بھی ہے۔ آج کے اس پراگندہ ماحول میں اولاد کی تعلیم و تربیت میں ماں کا کیا کردار ہونا چاہئے؟۔ بعض محققین کے بقول ’’مائیں قوموں کو بناتی اور بگاڑتی ہیں‘‘۔ دراصل اولاد کی کردار و گفتار پر والدین کے کردار و گفتار اور اخلاق کا گہرا اثر پڑتا ہے، بالخصوص ماں کے کردار کا بچے کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے اور یہ اسی وقت شروع ہوجاتا ہے، جب بچہ مادر شکم میں اپنی زندگی کے مراحل طے کرنا شروع کرتا ہے۔ اسی لئے ماں کی گود کو اولاد کی پہلی درسگار کہا گیا ہے۔
موجودہ دور میں صنف نازک خاص طورپر ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اسلامی ماحول میں تربیت کا انتظام کریں۔ انھیں اپنے اسلاف کی تاریخ سے واقف کروائیں، ان کے ہرعمل پر نظر رکھیں، اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ سے واقف کروائیں، ان کے کردار و گفتار اور لباس، گویا ہر چیز پر اسلامی رنگ چڑھائیں۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ مرد کی تعلیم ایک فرد واحد کی تعلیم ہے، جب کہ عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں ایک خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ جب عورت یعنی ماں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوگی تو پورا خاندان تعلیم پائے گا، پھر پورا معاشرہ تعلیم یافتہ ہوگا اور جب پورا معاشرہ تعلیم یافتہ ہوگا تو پوری قوم تعلیم یافتہ ہوگی۔ اسی لئے نپولین بونا پارٹ نے بھی کہا ہے کہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمھیں بہترین قوم دوں گا‘‘۔

اگر عورت ہی میں بگاڑ پیدا ہو جائے، اسلامی تعلیمات، معاشرت، تمدن اور تہذیب سے دوری ہو جائے تو اس طرح پوری قوم میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا، جو ہمارے آج کے مسلم معاشرے میں ہو رہا ہے، جس کی اہم وجہ ہماری ماؤں اور بہنوں کی اسلامی تعلیمات سے دُوری ہے۔ ہماری بہنیں جو آنے والی ہماری نئی نسل کی معمار ہیں، ہماری تہذیب کی جڑ ہیں۔ اگر وہی اسلامی تعلیمات سے دور ہو جائیں تو آنے والی نئی نسل کی وہ کس طرح تربیت کرسکیں گی۔سطور بالا میں جن نیک بیبیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان کی زندگی سے ہم کو درس لینے کی ضرورت ہے۔ ان کے علم و فضل، زہد و تقویٰ اور بارگاہ رب العزت میں پوری عاجزی و انکساری کے ساتھ نیک اور صالح اولاد کی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا کہ اللہ رب العزت نے انھیں ایسے نیک اور صالح فرزندوں سے نوازا، جن پر ساری ملت اسلامیہ رشک کرتی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو     صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)