گلبرگہ۔ 21 جولائی (محمد احمد خان ، بنگلور)اوقاف ،مذہب اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اوقاف کے قیام کا مقصد عام مسلمانوں کی سماجی ،تعلیمی اور اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے اور انھیں مسائل اور پریشانیوں سے بچانے اور ان کی بروقت امداد کے لیے قائم کیا گیا ایک ایسا ادارہ ہے جس سے ملی ضروریات کو بحسن و خوبی اور بغیر کسی دقت و پریشانی کے پورا کیا جاسکتا ہے۔وقف کی اسلام میں شروعات اس وقت ہوئی جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خیبر میں اپنی غیر منقولہ قیمتی جائیداد کو قوم و ملت کی بھلائی کے لیے محض اس لیے وقف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تا کہ اللہ کو راضی کیا جاسکے ۔پیغمبر اسلام ﷺ نے جب اس معاملہ کو دیکھا تو انھوں نے حضرت عمر ؓ کو مشورہ دیا کہ وہ اس جائیداد کو وقف کردیں۔جب انھوں نے اس مقصد کے تحت وقف ادارہ قائم کیا تو اس کو بہت ہی قلیل عرصے میں اتنی پذیرائی ملی کہ اس کا شمار ممکن نہیں ہے۔یہ ادارہ بہت تھوڑے عرصہ میں مقبول عام ہو گیا۔جلد ہی اس ادارے کو ملت کی اقتصادیات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل ہو گیا۔اسی شاندار روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ملت کے مخیر اور دردمند دل رکھنے والے حضرات نے اپنی جائیدادیں وقف للہ کردیں تا کہ ملت کے مسائل کو حل کیا جائے ۔نیز مختلف اقتصادی اور مالی مسائل سے بھی نمٹا جائے تا کہ ہر غریب اور محروم شخص بھی اپنے حقوق کو حاصل کر سکے۔آزادی سے قبل ہندوستان مختلف ریاستوں میں منقسم تھا اور یہاں مسلمانوں کی کافی جائیدادیں تھیں جو آزادی سے قبل اور اس کے بعد بھی وقف للہ کی جاچکی تھیں۔آزادی کے بعد کی افراتفری اور نامساعد سماجی حالات نے عرصہ دراز تک ہندی مسلمانوں کو اپنے حالات سے باہر نہیں ہونے دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بے شمار اسلامی وقف جائیدادیں جن کی مالیت کروڑ ہا روپیے ہے اور اب شاید اس کی مالیت ارب ہا روپیوں تک جا پہنچی ہوگی کا کوئی پُر سان حال نہ رہااور اس پر ناجائز قابضین نے اپنا تسلط جما لیا۔ افسوس اس بات کا رہا کہ جتنا نقصان موقع پرستوں اور غیروں نے وقف جائیدادوں کو پہنچایا اس سے زیادہ نقصان اپنوں نے پہنچایا اور ان کی چشم پوشی نے پہنچایا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ملی ترقی رک گئی اور بے شمار جائیدادوں پر غیر مجاز قابضین کا قبضہ ہو گیا جن کی برخاستگی صرف اور صرف قانون میں ترمیم کے ذریعے ہی ممکن تھی جس کا اقدام مرکزی حکومت نے 2013میں اٹھایا اور اس طرح وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے مزید بااختیار قانون جس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کی کمی پوری ہو گئی۔سوال یہ ہے کہ آیا سابقہ قوانین یا ترامیم کمزور تھے ۔اگر اس سوا کے جواب میں حالات کو سامنے رکھا جائے تو اس بات کا ہمیں بخوبی احساس ہو گا کہ وہ قوانین بھی کافی طاقتور تھے مگر ان کا حشر کیا ہوا ہم نے ان قوانین کو بنا تو لیا مگر اس پر عمل آوری ہمارے لیے ممکن نہیں رہی کیوں کہ ہم نے ان قوانین کو صرف کاغذوں پر ی رکھا اور اصلاً ہمارا کام کرتے رہے۔اب نئے ترمیم شدہ قانون پر بھی اگر عمل آوری نہ ہوئی تو ملی مسائل مزید بڑھ جائیں گے اور رہی سہی وقف جائیداد کا تحفظ تک مشکل ہو جائے گا۔جب کہ واگزری ٔ جائیداد کا معاملہ تو دور رہا۔وقف جائیدادوں پر جہاں غیر مسلموں کا بھی قبضہ ہے وہیں مسلمانوں نمائندہ لیڈروں کا بھی ہاتھ رہا ہے۔کیا محکمہ وقف ان کے خلاف کوئی کارروائی کرے گا ۔کیا نئے ترمیم شدہ قانون کو سابقہ کی طرح کاغذوں پر ہی رکھا جائے گا یا اسے عملی میدان میں آنے کا موقع دیا جائے گا۔ان سارے سوالات کے جوابات ہوٹل للت اشوک بنگلور میں 25اور26جولائی 2015کو منعقد شدنی کل ہند دو روزہ ہندوستان میں اوقاف کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار میں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اس سیمینار کا اہتمام کے کے ایجوکیشن اینڈ چیرٹیبل ٹرسٹ بنگلور،کرناٹک اسٹیٹ بورڈ آف اوقاف اور انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی کے مشترکہ تعاون سے کیا جانے والا ہے۔اس کانفرنس میں جن عنوانات پر تبادلہ خیال اور بحث و مبحث ہوں گے وہ ذیل میں درج کیے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے تو وقف ایکٹ1995مین ہوئی حالیہ ترامیم کا جائزہ لیا جائے گا اور اس پر عمل آوری اور اس کے فوائد و امکانات پر غور کیا جائے گا۔وقف جائیدادوں پر غیر مجاز قبضوں اور اس کی واگزاری کے متعلق تجاویز پر غور کیا جائے گا۔وقف جائیدادوں کا سروے،ان کی شناخت اور ان کے لیے اعلامیات کی اجرائی پر بھی فیصلہ لیا جائے گا۔وقف جائیدادوں کے تنازعات کو نمٹانے کے لیے کثیر ارکان پر مشتمل ٹرائیبونلس کی تشکیل اوران کے کردار و اختیارات کے بارے میں بھی غور کیا جائے گا۔جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے وقف انتظامیہ کو مزید طاقتور اور اہل و کاکرد بنائے جانے سے متعلق عملی اقدامات کو قطعیت دی جائے گی۔اوقاف کے لیے شریعت کے قانون کا نفاذ اور متولیان کی شرعی حیثیت کا تعین بھی کیا جائے گا یا اس پر غور کیا جائے گا۔ہندوستان میں وقف جائیدادوں کی ترقی اور اس کے لیے خصوصی اقدامات اور تجاویز کی پیش کشی یا وقف ڈیولپمنت کارپوریشن کا پراسپیکٹس،نئے کرایہ قانو ن کے تحت وقف جائیدادوں کو کرائے پر اٹھانا،وقف جائیدادوں سے متعلق قانونی معاملات کی شنوائی اور اس کے صائب فیصلے،وقف جائیدادوں کے لیے لاگو ایکٹ کے تحت ری سیٹلمنٹ ،باز آباد کاری،اور اراضی کی واگزاری کے عمل میں شفافیت اورجائز معاوضہ کے حق کو یقینی بنانے کے اقدامات پر مشتمل تجاویز ،وقف کی آمدنی کو ملت کے سماجی ،اقتصادی اور تعلیمی مسائل سے نمتنے کے لیے استعمال کرنا کے علاوہ اور دیگر درپیش مسائل جس پر بحث کو لازمی سمجھا جائے اس پر بحث کی جائے گی اور ساتھ ہی ہر موضوع پر سیر حاصل مبحث کے لیے وافر وقت کی فراہمی اور صائب آرا کو یکجا کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔تاکہ عام آدمی اور وقف کے ذمہ داروں میں اپنی ذمہ داریوں سے بحسن و خوبی عہدہ برا ہونے اور عام بیداری پیدا ہونے نیز شریعت کے متعلقہ اصولوں اور ضوابط سے بھی سب کو وقفیت حاصل ہونے کا موقع مل سکے اور سب لوگ موجودہ وقف اور اس کے مسائل سے کماحقہ واقفیت حاصل کر سکیںتا کہ ہندوستان میں موجود کروڑ ہا روپیوں کی وقف جائیدادوں کا تحفظ ہو سکے اور ان کا امت کے حق میں بہتر استعمال کیا جاسکے۔ بنگلور میں منعقدشدنی وقف کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد کی جا رہی ہے جب کہ ہندوستانی مسلمان اپنے حق اپنی شناخت سے محرومی کے خطرے سے دو چار ہے۔ماضی میں بھی ایسی ہی کانفرنسیں اور کوششیں ہوئی تھیں جن کے نتائج صفر رہیں ۔یہ ساری کوششیں فائلوں میں بند ہو کر رہ گئیں اور انھیں سرد خانوں کے اہرام میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا۔محکمہ اوقا ف میں سارے ملی بھائی ہی ہیں اگر انھیں ملت کا واقعی درد ہے اور خوف خدا ہے تو پھر کسی قسم کا کوئی خدشہ کسی کے دل میں نہیں ہونا چاہیے۔2015کے وقف ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری اور اسکے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں آئی وقف جائیدادوں کے تحفظ کے حوالے سے بیداری خوش آئند ہے اور اس کو ہندوستانی مسلمان نیک شگون کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ہماری دعا ہے کہ بنگلور میں منعقدہ یہ کانفرنس اپنے اغراض و مقاصد کو لے کر کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو اور جن ممکنہ نکات و مسائل کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان کی گوشمالی ہو اور ان پر عمل آوری بھی ہو۔یہ قانون کارکرد رہے اور اس سے ملی مسائل کا حل ہو سکے گا۔