اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ترقی پر مسلمانوں کی غربت کا خاتمہ

حیدرآباد۔/30مئی، ( سیاست نیوز) اسیپشل آفیسر وقف بورڈ جناب شیخ محمد اقبال (آئی پی ایس ) نے کہا کہ اگر حکومتیں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ترقی کے سلسلہ میں دلچسپی کا مظاہرہ کریں تو مسلمانوں کی غربت کا خاتمہ اور تعلیمی و معاشی ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ریاست میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں تمام اضلاع کے وقف انسپکٹرس اور دیگر عہدیداروں کا اجلاس منعقد کیا۔ گذشتہ دو دن متواتر اجلاس جاری رہے جس میں ضلع واری سطح پر اوقافی جائیدادوں اور ان کے موجودہ موقف کا جائزہ لیا گیا۔

جناب شیخ محمد اقبال نے بعد میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی نئی حکومتیں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ان کی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کریں گی۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اگر حکومت اوقافی جائیدادوں کی ترقی کیلئے کم از کم پانچ برسوں تک وقف بورڈ میں سرمایہ کاری کرے تو نہ صرف وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ اقلیتی بہبود کیلئے حکومت کو علحدہ بجٹ مختص کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اوقافی اُمور کے سلسلہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور وقف بورڈ کی شفاف کارکردگی کو یقینی بنانے کیلئے بہتر میکانزم تشکیل دیا جائے۔ اسپیشل آفیسر نے کہا کہ حکومت، ضلع نظم و نسق اور وقف بورڈ کے درمیان بہتر تال میل کے ذریعہ ہی وقف بورڈ کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آندھرا پردیش وقف بورڈ ملک میں سب سے زائد اوقافی اراضیات کا حامل ادارہ ہے لیکن افسوس کہ ضلع واری سطح پر آج تک جائیدادوں کے موقف کے بارے میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اوقافی جائیدادوں کے سروے کا کام بھی آج تک مکمل نہیں کیا گیا۔ اوقافی جائیدادوں کے سروے، اراضیات اور جائیدادوں کے تحفظ اور بورڈ کے استحکام کیلئے زائد اسٹاف کا تقرر ضروری ہے۔ وہ اس سلسلہ میں حکومت کو سفارشات پیش کررہے ہیں۔ ہر ضلع میں صرف ایک وقف انسپکٹر خدمات انجام دے رہا ہے جو کہ ضلع کی ضرورتوں کے اعتبار سے انتہائی ناکافی ہے۔ وقف بورڈ کے ہیڈ آفس میں عملے کی تعداد تقریباً 120ہے جن میں 50سے زائد اٹینڈرس ہیں۔ انہوں نے وقف انسپکٹر پر زور دیا کہ وہ جائیدادوں کے کرایہ میں اضافہ کیلئے توجہ دیں کیونکہ گذشتہ کئی برسوں سے کرایوں میں کوئی تجدید نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف اللہ کی جائیدادیں ہیں اور منشائے وقف کو وسیع تر نظریہ کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔

وقف بورڈ کو مسلمانوں کی غربت کے خاتمہ اور تعلیمی ومعاشی ترقی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے کہ بشرطیکہ حکومت مکمل تعاون کرے۔ آندھرا پردیش میں ایک لاکھ 50ہزار ایکر وقف اراضی ہے لیکن وقف بورڈ میں ضلع واری سطح کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ گذشتہ چند ماہ سے وہ ہر ضلع میں جائیدادوں، ناجائز قبضوں، آمدنی، مقدمات اور دیگر اُمور کی تفصیلات طلب کررہے ہیں لیکن ابھی تک تمام تفصیلات یکجا نہیں ہوسکیں۔ وہ اس بات کے کوشاں ہیں کہ ہر وقف جائیداد اس کے موجودہ موقف، کرایہ، مقدمات اور دیگر تفصیلات کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے تاکہ ان اداروں کے تحفظ میں مدد مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ اگرچہ حکومت کا زیر نگران ادارہ ہے تاہم وقف ایکٹ کے مطابق اس کی کارکردگی کو یقینی بنانے حکومت کو توجہ دینی چاہیئے۔ حکومت کی بار بار اور غیر ضروری مداخلتوں کے سبب بھی بورڈ کی کارکردگی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ گذشتہ پندرہ تا بیس برسوں سے اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں تنازعات متعلقہ آر ڈی اوز کے پاس زیر التواء ہیں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں ضلع کلکٹرس اور سپرنٹنڈنٹس آف پولیس کی توجہ مبذول کروائی ہے۔ حکومت نے ہر ضلع میں ٹاسک فورس تشکیل دی جس کے صدرنشین ضلع کلکٹر ہیں۔ اس ٹاسک فورس کو ہر ضلع میں متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ شیخ محمد اقبال نے وقف بورڈ میں چیف ایکزیکیٹو آفیسر کے عہدہ کو زائد اختیارات دیئے جانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ وقف ایکٹ کے تحت اس عہدہ پر آئی اے ایس عہدیدار کا تقرر کیا جانا چاہیئے۔ چیف ایکزیکیٹو آفیسر کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ وقف بورڈ کے فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے حکومت کو رپورٹ پیش کرے۔

اسپیشل آفیسر نے کہا کہ اگر حکومت اوقافی جائیدادوں کی ترقی کیلئے 500تا1000کروڑ کی سرمایہ کاری کرے تو اس سے وقف بورڈ کی صورتحال تبدیل ہوجائے گی۔ انہوں نے ضلع کلکٹرس کو مشورہ دیا کہ وہ غیر مجاز قبضوں کے خلاف از خود پولیس میں شکایت درج کروائیں اس کے علاوہ متعلقہ آرڈی اوز کو بھی متحرک ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ جن اراضیات پر حکومت قابض ہے ان کی بازیابی کیلئے بورڈ اقدامات کررہا ہے۔ حکومت سے ان اراضیات کا معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وہ سنٹرل وقف کونسل کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں پر اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں دباؤ بنانے کی خواہش کررہے ہیں۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ منی کونڈہ میں واقع درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کی وقف اراضی سے متعلق سپریم کورٹ میں جاری مقدمہ میں وقف بورڈ کو کامیابی حاصل ہوگی۔انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اوقافی اراضیات کے مسئلہ پر بورڈ کے خلاف عدالت سے رجوع نہ ہو کیونکہ اس سے اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا بنیادی مقصد فوت ہوجائے گا۔