نفیسہ خان
کئی سال پہلے میں سرکاری نوکری سے سبکدوش ہوچکا ہوں ایک مصروف ترین زندگی گزارنے کے بعد یکدم روزمرہ کے معمول سے قطع تعلق کرلینا اتنا آسان تو نہیں تھا لیکن آہستہ آہستہ حالات سے سمجھوتہ کرلینا ہی پڑتا ہے گھر کی چار دیواری میں تنہائی کا احساس اس لیے بھی نہ ہوسکا کہ میرا نہ صرف بیٹا فرمانبردار ہے بلکہ میری بہو آفرین بھی اعلی تعلیم یافتہ برسر روزگار، اطاعت گزار خاتون ہے جو اپنی سرکاری نوکری کے ساتھ گھریلو فرائض ایک بیوی، بہو اور تین نوجوان لڑکیوں کی ماں کی حیثیت سے بخوبی نباہ رہی ہے۔ میری دونوں بیٹیاں کویت میں اپنے شوہروں و بچوں کے ساتھ آسودہ حال میں ہیں میں اپنی بہو آفرین میں اپنی بیٹیوں کی محبت محسوس کرتا ہوں میری بیوی کا انتقال ہوئے ڈھائی سال کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس غم کو بھلانے اور اس مرحلے سے گزرنے اور فراموش کرنے میں آفرین نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔ کبھی میں نے اس کی پیشانی پر زائد کام ذمے داری کے بوجھ کی شکن نہیں دیکھی ایک روبوٹ کی طرح وہ سارے کام کاج پکوان کی نگرانی کرتے ہوئے وقت پر میرا، شوہر بچیوں کا ناشتہ چائے پانی کی تکمیل کرکے ٹفن باکس باندھ کر پاٹ باکس میں میرا دو پہر کا کھانا۔ تھرماس میں گرماگرم چائے۔ کچھ پھل، سب میز پر اس طرح جمع کرجاتی ہے کہ مجھے نوکر کو آواز دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ حد یہ کہ میرے دوست احباب بھی آجائیں تو تھرماس میں اتنی چائے ضرور ہوتی ہے کہ دو چار پیالیوں سے میں ان کی تواضع کرسکوں۔ دوستوں سے گپ شپ، اخبار بینی کچھ رسالے کتابیں مل جائیں تو ان کا مطالعہ، ٹی وی، دن بھر کا ساتھی اسمارٹ فون وقت گزاری کا بہترین ساتھی ہیں۔ معقول وظیفہ ہے جو تنگ دستی کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ ایک بیٹا ہے جو کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز ہے۔
آفرین کالج میں لیکچرر ہے، تین پوتیوں میں بڑی والی بی فارمیسی مکمل کرچکی ہے۔ منجھلی اور چھوٹی ابھی کالج میں ہیں۔ تینوں بہت ذہین بہت سمجھدار اور خاموش طبعیت کے ہیں یا یوں کہیئے کہ اب ہوگئے ہیں۔ پہلی جیسی دھماچوکڑی، شرارتیں اب نہیں رہیں کالج سے لوٹتی ہیں تو اپنا اپنا اسمارٹ فون سنبھالے گھر کے کسی کونے میں بیٹھ جاتی ہیں۔ ماں لاکھ آوازیں لگاتی رہتی ہے وہ بڑے حدوادب کے ساتھ ’’جی ۔ جی ابھی آئی مما‘‘ کی سدا میرے کانوں میں پڑتی رہتی ہے نہ آفرین آوازیں دینا بند کرتی ہے نہ تینوں کے جواب کا سلسلہ ٹوٹتا ہے پتہ نہیں کون کس کی بات مانتا ہے۔ جب تک یہ بچیاں اسکول میں تھیں تو صبح کی گھر سے نکلیں چار بجے شام لوٹتیں تو گویا گھر میں ایک بھونچال سا آجاتا۔ بھاگم دوڑی، چیخ و پکار؟ چھینا جھپٹی اور ایک دوسرے کی شکایتوں کا لامتناہی سلسلہ رات دس بجے تک چلتا رہتا اور بیچاری آفرین رونہا ہوجایا کرتی تھی غصہ ہوتی تو تینوں میرے کمرے میں گھس کر چھپ جاتیں اور آج یہ عالم ہے کہ اب انہیں ایک دوسرے سے زیادہ سمارٹ فون کی ضرورت ہے۔ اب ٹی وی کا شور شرابا بھی کم ہوگیا ہے۔ اب انگریزی گرامر سمجھنے یا حساب کا مشکل سوال حل کرنے میرے پاس نہیں آتیں وہ تو کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون، اپنے ماں باپ کے آئی فون کی اتنی ماہر ہوگئی ہیں کہ بیشتر اوقات میں اپنے فون کو لاحق مسائل کا حل تلاش کرنے بڑی سعادت مندی سے ان کی شاگردی قبول کرنے پر مجبور ہوجاتا ہوں اور وہ پوری مستعدی و سنجیدگی سے ایک ماہر ٹیچر کی طرح اپنے اس نالائق شاگرد کو نہ صرف سمجھانے بلکہ مشق کروانے کی پوری کوشش کرتی ہیں لیکن چند دنوں سے میں گھر کے ماحول میں کچھ تنائو محسوس کررہا ہوں لیکن مجھے ہرفکرو پریشانی سے دور پرسکون زندگی گزارنے کا بھر پور موقعہ دینے کے خواہشمند میرا بیٹا اور بہو مجھ سے صرف اپنی کمپنی اپنے کالج کے روز مرہ کے خوشگوار واقعات کا ذکر کرکے سننے سنانے کی کوشش کرتے ہیں اس سے ہٹ کر درپیش مسائل کا تذکرہ میرے سامنے کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن کبھی کبھار ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ایک آدھ جملہ میرے کانوں میں پڑجاتا ہے یا پھر فکر مندی کے آثار ان کے چہروں پر ہویدا ہوتے ہیں تو میرے اندر کا باپ پریشان ہواٹھتا ہے میں تو اپنی دمہ داریوں سے سبکدوش ہوچکا ہوں لیکن میرا بیٹا تین بیٹیوں کا باپ ہے اور جس گھر میں نوجوان بیٹیاں ہوں ان کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم وہ بھی اعلی تعلیم دینا وقت کا تقاضہ ہے ان کی تربیت ان کا تحفظ ان کے مستقبل کو حتی الامکان تابناک بنانے کی کوشش کرنا ہر ماں باپ کا نہ صرف خواب ہوتا ہے بلکہ فرض بھی ہوتا ہے میری بڑی پوتی سحرؔ کی شادی ہم اسی سال کردینا چاہ رہے ہیں کیوں کہ وہ بی فارمیسی کرچکی ہے اس سے آگے پڑھانے کا ہمارا ارادہ نہیں ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ڈگریوں کے حصول میں اس کی عمر بڑھتی جائے اور پھر نوکری کرنے کا شوق شادی کی راہ میں حائل ہوجائے اچھے رشتے ہاتھ سے نکل جاتے تو پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔ سحراؔ کے بعد ابھی دو لڑکیوں کو بھی تو وداع کرنا ہے۔ اب ہمارے جیسا زمانہ تو نہیں رہا کہ خاندان، شرافت، دنیا داری، بڑوں کا احترام و اطاعت، محلے داری، ہر ایک کا خوف زبان کھولنے نہیں دیتا تھا نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی اب اپنی بات منوانے پر مصر بلکہ بضد ہیں۔ میں نے گھر کی کسی قدر بدلتی ہوئی فضاء سے متاثر ہوکر اس کی وجہ جاننی چاہی۔
آفرین پہلے تو چونک گئی پھر کہنے لگی کہ سحرؔ کے لیے اچھے سے اچھے رشتے آرہے ہیں اللہ کے فضل سے شادی کی تیاریں مکمل ہیں اور اخراجات کا بھی کوئی مسئلہ نہیں لیکن اچھا لڑکا گھر انہ ڈھونڈھنا مشکل لگ رہا ہے بابا…‘‘ میں نے شفقت سے بہو کے سرپر ہاتھ رکھ دیا کہ بیٹا اس طرح پریشان نہیں ہوتے رشتے تو آسمانوں میں بنتے ہیں ہم لاکھ کوشش کرلیں نصیب کا جوڑا بن کر ہی رہتا ہے بس دعا کرو کہ وہ شاد و آباد رہیں۔ دالان سے گزرتے ہوئے سحرؔ نے اپنی ماں کو مجھ سے ہمکلام ہوتے ہوئے سن لیا۔ جب میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا تو وہ دوڑتی ہوئی میری چوکھٹ تک آئی پلٹ کر دیکھا کہ ماں سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے تک پہونچ گئی ہے ہلکے سے دروازہ بند کیا اور میرے قدموں میں بیٹھ کر میرے گھٹنوں پر اپنا سر رکھ کر زار و قطار رونے لگی بس ایک ہی جملہ درمیان میں دہرائے جارہی تھی کہ ’’دادو… آپ میرا ساتھ دیجئے…‘‘ میں اس کے بے اختیار رونے سے حواس باختہ ہوگیا میری بیوی کی بیماری و موت کے بعد ساری پریشانیوں۔ غم آنسوئوں کو ہم نے وقت کے ساتھ فراموش کردیا تھا۔ اب اس بچی کے آنسوئوں کے سیلاب میں میں ڈوبنے لگا اسے پچکارا۔ اس سے سب کچھ جاننے کی کوشش کی اس نے بتایا کہ جس لڑکے کو اپنا شریک حیات بنانا چاہتی ہے۔ وہ مما کی دوست کا بیٹا ہے۔ ایم ٹیک ہے ہائی ٹیک سٹی میں معقول تنخواہ پر کام کرتا ہے۔ اچھے لوگ ہیں لیکن مما و بابا کو اعتراض ہے تو بس یہ کہ ان کا مشترکہ خاندان ہے جس میں ان کی دادی، بڑا بھائی بھاوج ان کے دو بچے ایک غیر شادی شدہ ہیں اور ایک بڑی بہن بہنوئی اور تین بچے ہیں جو پڑوس ہی میں رہتے ہیں اور ان کا دن رات کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ان سب کے ساتھ معاشی حالت بھی اتنی مستحکم نہیں جیسی یہ لوگ چاہتے ہیں۔ میں حیران اس بچی کی باتیں سنتا رہا کہ میرے اعلی تعلیم یافتہ بہو بیٹا ایسا کیسے سونچ سکتے ہیں۔ میرے سامنے ہر بات پر سوال کا مدلل جواب دے رہی تھی اور میں ماہر نفسیات ہوتے ہوئے لاجواب تھا۔ کتنی پر اعتمادی سے بے جھجک وہ بولے جارہی تھی یہ آج کی نسل تھی اور ہم اپنے زمانے میں مرد ہوتے ہوئے زبان کھولنا دور کی بات ہے سراٹھانے کی ہمت بھی نہ جٹاپاتے تھے۔ اپنی محبت اپنی پسند کا اظہار تک بھی نہ کرپاتے تھے کہ خاندان کی عزت سے کھلواڑ کا الزام لگ جایا کرتا تھا بیشمار لڑکے لڑکیوں نے اپنے سینے میں اپنی محبت کو دفن کرکے تادم حیات اس مزار کی مجاوری کرتے رہے ہیں۔ میں نے محرؔ کو دلاسہ دیا کہ میں خود اس گھر پر جاکر حالات کا اندازہ کرنا چاہوں گا تاکہ ہم بھی مطمئن ہوں اور تمہاری آرزو کی تکمیل بھی ہوسکے۔ دوسرے دن کسی کو کچھ بتائے بغیر میں گھر سے روانہ ہوا اور محرؔ کے بتائے ہوئے پتہ کے داخلی دروازہ کی کال بیل پر انگلی رکھ دی۔ کچھ دیر بعد اپنے دوپٹے سے سرڈھانپتے ہوئے شلوار سوٹ میں ملبوس ایک معمر خاتون نمودار ہوئیں۔ یہ میرے تخیلات میں زندگی بھر رقصاں وہی تھی جو مجسم حقیقت بن کر میرے سامنے کھڑی تھی۔ پینتالیس سال کا طویل عرصہ ایک لمحے میں گزرگیا۔ سب سے لالتعلق سی وہ لڑکی مجھ سے ذرا فاصلے پر جس کی منتظر تھی میری نظریں والہانہ انداز میں اس کا طواف کررہی تھیں۔ ہم دونوں کے درمیان نہ کبھی کوئی تعلق تھا نہ ہی ربط و تکلم کا سلسلہ تھا تحریر کا تبادلہ تو بہت دور کی بات ہے ہم روز ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر کھڑے رہتے اور زندگی بھر یہ فاصلے قربتوں میں بدل نہ سکے حالانکہ بیشتر مواقعے ایسے آئے کہ ہم آر ٹی سی بس میں آمنے سامنے ہوتے رہے۔ بھٹکتی، سلگتی نظریں وقفے وقفے سے ہم کلام ہوتی رہیں۔ لیکن مدعا کو الفاظ کا پیرہن نصیب نہیں ہوا۔ ہمارے دل کے نہاں خانوں میں برسوں سے پرورش پانے والا جذبہ عیاں ہونے کے لیے بیقرار تھا۔ نظروں کا تصادم یا ٹکرائو فطری تھا لیکن میری کم ہمتی کہ بس دردیدہ نظریں ایک دو لمحوں کے لیے اس چہرے کا صدقہ اتارلیا کرتی تھیں کبھی لگتا تھا کہ اس کی ایک خموشی میں ہزار تکلم پنہاں ہیں مہربہ لب ہوکر بھی تکلم کا سلسلہ چل رہا ہے اور وہ راز محبت فاش نہ ہونے کی سعی لا حاصل کررہی ہے اس کے ظاہر و باطن کی کشمکش مجھے محسوس ہوتی اور میں بے چین ہوجایا کرتا تھا۔ ہر روز ہم ایک ہی وقت پر ایک ساتھ ایک ہی بس میں اپنا سفر شروع کرتے اور واپسی پر بھی اسی بس اسٹاپ پر ہمارے سفر کا اختتام ہوتا ہم ایک ہی یونیورسٹی کے طالب علم تھے لیکن بس اتر کر ہم کو دو علیحدہ راستے اپنانے پڑتے کیوں کہ ہمارے مضامین ہماری عمارتیں الگ تھیں اور واپسی میں اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے مخالف سمت کو جانے والے راستوں پر گامزن ہوجاتے۔ شومئی قسمت کہ ہم زندگی میں ایک دوسرے کے ہمسفر نہ بن سکے۔ اظہار خیال کی جرأت جب میں ہی نہ کرسکا تو لڑکی سے پہل کی امید ایک مبہم خیال بن کر رہ گیا اور آج وہ پوری سنجیدگی و بصداحترام سے میرے سامنے تھی میرے چہرے پر نظریں جمائے سراسیمگی کے عالم میں پہلی بار اس کے لب ہلے۔ ’’آپ‘‘ گویا میں ہی نہیں بلکہ اس نے بھی پینتالیس سال کے اتنے طویل عرصے میں بدلے ہوئے خدوخال اور پیرانہ سالی کے ایک دوسرے کو پہچان لیا تھا۔ میری کتاب زندگی کے پینتالیس اوراق کو اس نے ایک لمحے میں پلٹ کر رکھ دیا تھا میں نے محسوس کیا کہ میرے ماضی کے افق پر محبت کا وہ چمکتا ستارہ کبھی ڈوبا ہی نہ تھا۔ آج میں یونیورسٹی کا بے فکر منچلا نوجوان نہیں ہوں جب تھا تب بھی اپنا مدعا بیان کرنے سے قاصر رہا اور آج اپنی پوتی کے معمر دادو میں کہاں تاب سخن تھی کہ اس کی دہلیز پر کھڑا اس سے محوکلام ہوپاتا۔ آج پہلی بار اس نے پہل کی تھی اس کے لب ہلے تھے۔ پہلی بار میں نے اس کی آواز سنی تھی ’’آپ‘‘ … اس لفظ ’’آپ‘‘ کی بازگشت اپنے کانوں میں لیے میں بناء کچھ کہے سنے سیڑھیاں اترگیا۔
ایک للکار سا یاد کا جھونکا
زخم سارے ٹٹول دیتا ہے