قاری ایم ایس خان
گزشتہ ڈھائی سو برسوں میں فسطائی طاقتوں نے ہندوستان کی تاریخ کو زہر آلود کرنے کا کام بڑے منصوبہ بندطریقہ اور بڑی قوت و تیزی کے ساتھ انجام دیا ۔ انہوں نے تاریخی حقائق کو بڑی چابک دستی سے سیاسی اور فرقہ وارانہ تعصب کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا ہے۔ انگریزوں نے ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت تاریخ کی صورت بگاڑ کر ہندوؤں ، سکھوں ، راجپوتوں، مراٹھوں اور دیگر قوموں کو مسلمان کا دشمن بنانے کاکام کیا تاکہ یہ قومیں آپس میں ٹکراتی رہیں اور یہ اطمینان سے ان پر حکومت کرتے رہیں، یوں بھی انہوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینتی تھی ، مسلمانوں ہی کو اپنی حکومت کے چھینے جانے کا غصہ تھا ، وہی بغاوت اور مقابلہ کرتے تھے، انگریزوں کو انہی سے خطرہ تھا۔ انگریز کے تنخواہ دار دیسی مؤرخین نے بھی اپنے غ یر ملکی آقاؤں کو نمک حلالی کے طور پر خوش کرنے اور ان کے اقتدار کو مستحکم بنانے کیلئے اپنی تاریخ نویسی کی صلاحیت و قابلیت کو ایک زہر آلود حربہ کے طور پر استعمال کیا، انہیں بھی ا یک ہزار سال تک مسلمانوں کے محکوم بن کر رہنے کا غصہ تھا ، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ فاشسٹ عناصر تاریخ کو اپنی ہوس ، غلبہ اور اقتدار کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے کی کوشش مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخیں سیاسی جماعتوں کے مکروہ عزائم کی ترجمان بنتی جارہی ہیں۔ آزادی کے بعد سے اب تک نصاب تعلیم میں شامل تاریخی کتب ذہنوں میں فساد اور اس ملک کی مختلف قوموں میں نا اتفاقی اور بغض و عناد کی آگ بھڑکاتی رہتی ہیں جس کے نتیجہ میں خوفناک فسادات اور قتل و غارت گری کا سلسلہ برابر چلا آرہا ہے ۔
تعلیمی اداروں میں استاد کی پر وقار اور واجب الاحترام کرسیوں پر براجمان راکشسی ذہنیت کے لوگ اور اکثریتی طبقہ کے طلباء مسلم طلباء کو طرح طرح سے کچوکے لگاتے رہتے ہیں جس سے اس زہریلی تاریخ اور شرپسند میڈیا تک محدود حقائق سے بے خبر مسلمان احساس کمتری کے شکار ہیں۔ یہاں تک کہ پوری زندگی ذہنی مرعوبیت کے ماحول میں گزارنے پر مجبور رہتے ہیں۔ اس فتنہ اور زہر آلود تاریخ نویسی کا سب سے بڑا شکار اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت ہوئی ہے جس پر ہر بد دیانت مورخ نے اپنے ظرف اور حوصلہ کے مطابق طبع آزمائی اور افسانہ طرازی کی ۔ تاہم اس صدی کے آخری دہائیوں میں حقائق پر پڑے ہوئے پردوں کو اٹھانے والے بہت سے ہاتھ آگے آچکے ہیں۔ پروفیسر بی این پانڈے، پروفیسر عرفان حبیب ، رومیلا تھاپر ، پروفیسر ستیش چندرا اور پروفیسر اوم پر کاش پرساد وغیرہ نے عالمگیر کے بارے میں کی گئی بہت سی الزام تراشیوں کا مدلل جواب دیا ہے ۔ افسوس ہے کہ بہت کم مسلم دانشور اور پروفیسر صاحبان نے مسلم قوم کی الزام تراشیوں ، لعن طعن کی نشانہ بازی اور مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونے سے بچانے کیلئے کوششیں کی ہیں جبکہ تنخواہوں ، نذرانوں ، ایوارڈوں اور اسکالر شپس وغیرہ کے ذریعہ ان کے پاس وسائل و ذرائع کے انبار ہیں۔ ان کے پاس وقت کی بھی فراوانی ہے اور اس وقت کو گزارنے کیلئے وہ تنقید و تنقیص کے تیر و نشتر بھی چلاتے رہتے ہیں، جن سے زخموں سے چور و لہو لہان ملت مزید مجرموں کے کٹہرے میں پابند سلاسل ہوکر کھینچی رہتی اور مرعوبیت کے گڈھے میںد ھنستی چلی جاتی ہے۔
فرقہ وارانہ تعصب کی آگ بھڑکانے میں سب سے زیادہ اورنگ زیب کے حوالہ سے تاریخ کو زہر آ لود کرنے کا کام کیا گیا ہے ۔ مسلمانوں اور دوسرے فرقوں کے درمیان نفرت اور بغض و عناد کی سب سے بڑی خلیج اس حوالہ سے پائی جاتی ہے ۔ اگر اس سلسلہ میں مستند حوالوں اور مدلل طریقوں سے حقائق پرمبنی تاریخ پیش کر دی جائے تو فتنہ و فساد کی پوری عمارت آن واحد میں ز مین بوس ہوجائے۔
یہ قدم تاریخ میں سب سے پہلے مولانا محمد علی جوہر کی درخواست پر علامہ شبلی نعمانی نے اٹھایا تھا ، علامہ شبلی کی ذات گرامی گوناگوں کمالات کی جامع تھی ۔ آپ کی شخصیت سے علم و فن کی وہ خوشبو پھوٹی اور تحقیق و تدقیق کی وہ موجیں رواں ہوئیں جو رہتی دنیا تک گلستان فکر و نظر کو معطر اور نزہت گاہ علم و ادب کی آبیاری کرتی رہیں گی ۔ مولانا نے علم و فن کے تقریباً تمام ہی شعبوں میں کچھ نہ کچھ خامہ فرسائی ضرور کی ہے ۔ تاریخ ہو یا سوانح نگاری ، شعر گوئی ہو یا نقد شعر، کلام ہو یا فلسفہ ، قرآن ، حدیث ، فقہ جس موضوع پر قلم اٹھایا حق ادا کردیا ۔ تاریخ کے میدان میں آپ کی تصنیفات روایت کے مطابق محض مغازی اور فتوحات کی داستانیں نہیں علمی ، ادبی ، سیاسی ، اقتصادی اور سبھی مشرقی کارناموں کا دلآویز مرقع ہیں، آپ کی شخصیت کسی بھی طرح محتاج تعارف نہیں ہے۔ اورنگ زیب کے سلسلہ میں آپ نے 1906 ء اور 1908 ء کے درمیان مضامین کا ایک سلسلہ سپرد قلم کیا تھا ، وہ زمانہ خاص قسم کی اردو ، اور عربی و فارسی کا دور تھا ۔ چنانچہ علامہ نے طویل عبارتیں اور اقتباسات بطور حوالہ پیش کردیئے ۔ اب تو وہ اردو ہی نہ رہی فارسی کو سمجھنے والے تو عنقاہی ہوگئے ۔ مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں عالمگیر کے عہد حکومت کا سب سے بڑا روشن کارنامہ اس کا عدل و انصاف ہے جس میں عزیز و بیگانہ ، غریب و امیر ، دوست و دشمن کی تمیز نہ تھی ، ایک رقعہ میں خود لکھتا ہے کہ معاملات انصاف میں شہزادوں کو میں عام آدمیوں کے برابر سمجھتا ہوں ، یہ محض دعوے نہیں بلکہ غیروں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے ۔ لین پول صاحب نے عالمگیر کی سوانح میں یہ سب لکھاہے۔
عالمگیر نے اپنی زندگی کا مقصد سلطنت کے جاہ و جلال ، شان و شوکت ، ناز و نعم کے بجائے صرف رعایا کی خدمت اور راحت رسانی قرار دیا تھا ، وہ بڑھاپے تک دربار کھڑے ہوکر رعایا کی عرضیاں لیتا تھا اور خود اپنے ہاتھ سے ان پر حکم لکھتا تھا ۔ وہ دن میں دو تین دفعہ دربار عام کرتا تھا اور مطلق کسی کی روک ٹوک نہ تھی ، ادنیٰ سے ادنیٰ جو چاہتا تھا کہتاتھا اور عالمگیر نہایت توجہ سے سنتا تھا ۔ مرزا کام بخش عالمگیر کا نہایت چہیتا بیٹا تھا ، اس کے کو کہ پر قتل کا الزام قائم ہوا۔ عالمگیر نے حکم دیا کہ عدالت میں تحقیقات کی جائے ، کام بخش نے اس کی حمایت کی عالمگیر نے دربار میں کام بخش کو بلا بھیجا کام بخش اس کو بھی ساتھ لاتا تھا اور اپنے آپ سے جدا نہیں کرتا تھا ۔ عالمگیر نے حکم دیا کام بخش بھی کوکہ کے ساتھ قید کیا جائے ۔ چنانچہ اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔
عالمگیر نے تعلیم اور درس و تدریس کو جس قدر ترقی دی تھی ہندوستان میں کبھی کسی عہد میں نہیں ہوئی تھی ۔ ہر ہر شہر اور قصبے میں علماء اور فضلاء کے وظائف اور روزینے مقرر تھے جس کی وجہ سے وہ مطمئن ہوکر تعلیم میں مشغول رہتے تھے ، اس کے ساتھ ہر جگہ طالب علموں کے وظائف مقرر تھے ۔ اس کی تفصیلات مآثر عالمگیری کے صفحہ 529 پر درج ہیں ۔ اورنگ زیب کی زندگی بالکل سادی اور زاہدانہ تھی ، لوڑیز نے اس کو 1665 ء میں دیکھا تھا وہ لکھتا ہے۔ ’’وہ نحیف و نزار ہوگیا تھا اور اس لاغری میں اس کی روزہ داری نے اور اضافہ کردیا‘‘۔
سلام علیک کا طریقہ
1082 ھ میں سلام مسنون کاطریقہ جاری کیا اور حکم دیا کہ عام طور پر مسلمان آپس میں ملنے جلنے کے وقت یہی طریقہ برتیں۔
فتاویٰ عالمگیری :
سب سے مقدم کام یہ تھا کہ شرعی مقدمات کے فیصلے کیلئے کوئی ایسی جامع کتاب فقہ کی موجود نہ تھی جس میں تمام مفتی یہ مسائل جمع کردیئے گئے ہوں اور جن سے ہر شخص بآسانی مفتی یہ مسائل جمع کردیئے گئے ہوں اور جن سے ہر شخص بآسانی مسائل کا اخراج کرسکے۔ عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ نے تمام علماء و فضلاء کو جمع کر کے تصنیف کا ایک مستقل محکمہ قائم کیا جس کے افسر ملا نظام تھے ، اس کام کیلئے شاہی کتب خانہ جس میں بے شمار کتابیں فراہم تھیں، وقف کردیں۔ کئی برس کی لگاتار محنت کے بعد وہ کتاب تیار ہوئی۔ جو آج فتاویٰ عالمگیری کے نام سے مشہور ہے اور عرب و روم میں فتاویٰ ہند یہ کہلاتی ہے، باوجود اس کے کہ علماء کی تنخوا ہیں کچھ بہت زیادہ نہ تھیں۔ چنانچہ ہم نے مآثر الامراء میں کسی کا روزینہ تین روپئے سے زیادہ نہیں دیکھا تاہم دو لاکھ روپئے صرف ہوگئے۔ اس کتاب کا یہ خاص امتیازی وصف ہے کہ جو مسائل تمام کتب فقہ میں پیچیدہ الفاظ میں پائے جاتے تھے ۔ ان کو اس قدر آسان کر کے لکھا ہے کہ ایک بچہ تک سمجھ سکتا ہے ۔
عالمگیر تیغ و قلم دونوں کا مالک تھا۔ اس کی انشاء پردازی کی داد مخالفوں تک نے دی ہے۔
عالمگیر کے عام اخلاق و عادات یہ تھے کہ نہایت سنجیدہ اور متین تھا ، کبھی نامناسب لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا تھا۔ نہایت رحیم اور وسیع الظرف تھا، اہل کمال کا نہایت قدرداں تھا، لوگوں سے نہایت اخلاق سے پیش آتا تھا ۔ نہایت خشک زاہدانہ زندگی بسر کرتا تھا۔ لہو و لعب کی باتوں سے قطعاً محترز تھا ۔ مزاج میں سخت کفایت شعاری تھی۔
غرض عالمگیر کی جو تصویر اس کے مخالفوں نے کھینچی ہے اس میں تو تمام تر تعصب اور عداوت کو بھرا گیاہے لیکن یہ کہنا بھی بالکل مبالغہ ہے کہ وہ انسانی کمزوریوں سے پاک تھا تاہم عام اسلامی دنیا میں اس کے بعد آج تک کوئی اس کے برابر کا شخص بھی نہیں پیدا ہوا۔ سکندر علی وجد کے اس شعر پر میں اپنا مضمون ختم کرتا ہوں کہ
جن سے دنیائے دل منور تھی
ان اجالوں کی یاد آتی ہے