اورنگ آباد میں منصوبہ بند فرقہ وارانہ تشدد ، سامنا کا اداریہ

حساس شہر کیلئے کمشنر پولیس کا عدم تقرر اور محکمہ داخلہ کی سکیورٹی کوتاہی ،دیویندر فڈنویس پر شیوسینا کی تنقید

ممبئی 14 مئی (سیاست ڈاٹ کام) مہاراشٹرا کے ضلع اورنگ آباد میں دو افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والی جھڑپوں کا نوٹ لیتے ہوئے بی جے پی کی حلیف شیوسینا نے اِس واقعہ کو ’فرقہ وارانہ‘ اور ’منصوبہ بند‘ تشدد قرار دیا اور چیف منسٹر دیویندر فڈنویس کے زیرقیادت ریاستی محکمہ داخلہ کو انتہائی حساس سمجھے جانے والے شہر اورنگ آباد کے لئے کمشنر پولیس کے تقرر میں ناکامی اور دیگر سکیورٹی کوتاہیوں کے لئے تنقید کا نشانہ بنایا۔ علاقہ مرہٹواڑہ میں واقع اِس شہر میں آبرسانی کے غیرقانونی کنکشنس کے مسئلہ پر جمعہ کی شب عوام کے دو گروہوں میں تصادم کے نتیجہ میں ایک 65 سالہ شخص ، 17 سالہ نوجوان ہلاک ہوگئے تھے۔ شیوسینا کے ترجمان مرہٹی روزنامہ ’سامنا‘ کے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ واضح ہے کہ فسادات فرقہ وارانہ نوعیت کے تھے اور محض دو گروہوں میں تصادم نہیں تھا۔ فسادات کے پہلے 15 منٹ کے دوران جس انداز میں پٹرول بم استعمال کئے گئے یہ نتیجہ اخذ کرلینے کے لئے کافی ہے کہ حملہ منصوبہ بند تھا‘‘۔ اورنگ آباد میں پولیس کمشنر کا عہدہ کچھ عرصہ سے مخلوعہ ہے حالانکہ یہ شہر انتہائی حساس علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ’سامنا‘ نے مزید لکھا ہے کہ چیف منسٹر کے زیرقیادت محکمہ داخلہ کی ناکامی ہے یا پھر چیف منسٹر یہ چاہتے ہیں کہ آیا اِس عہدہ پر بی جے پی کے حامی کسی آئی پی ایس افسر کا تقرر کیا جائے۔ اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ پولیس کے مطابق تشدد میں بشمول پولیس متعدد پولیس اہلکار زائداز 60 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تقریباً 100 دوکانوں کو نذر آتش کیا گیا اور 40 گاڑیاں تباہ کی گئیں۔ ذرائع نے قبل ازیں کہا تھا کہ اورنگ آباد کے علاقہ موتی کارنجا میں گزشتہ چند دن سے کشیدگی میں اضافہ ہورہا تھا کیوں کہ بلدی کارپوریشن اِس علاقہ میں آبرسانی کے غیر قانونی کنکشنس کے خلاف مہم چلارہا تھا اور ایک عبادت گاہ سے غیر قانونی کنکشن منقطع کئے جانے کے بعد یہ کشیدگی فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرگئی۔ ’سامنا‘ نے سڑے ہوئے آم کی فروخت کے مسئلہ پر دوکان مالک کے ہاتھوں گاہک کی پٹائی، ’پان‘ کی غیرقانونی دوکانوں کی برخاستگی، کسی گیریج میں موبائیل فون کے تبادلہ پر جھگڑا اور پھر آبرسانی کے غیرقانونی کنکشنوں کے خلاف مہم جیسی وجوہات کا مذاق اُڑاتے ہوئے لکھا کہ ایسے ہی معمولی واقعات فرقہ وارانہ تشدد کا سبب بن رہے ہیں جو سکیورٹی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں۔