7 چینائی دھماکے…مودی کے پھٹے غبارہ میں ہوا بھرنے کی کوشش
7 قومی سطح پر تیسرے متبادل کی سرگرمیاں
رشیدالدین
اب جبکہ ملک میں عام انتخابات کی رائے دہی کے صرف دو مرحلے باقی ہیں، مرکز میں اقتدار کا خواب دیکھنے والی بی جے پی انتخابی فائدہ کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتی۔ وزارت عظمی کیلئے بی جے پی امیدوار کی بناوٹی مقبولیت کے زینے سے وہ اقتدار کی کرسی تک پہنچنا چاہتی ہے۔ مودی پر معمولی تنقید کی صورت میں بی جے پی اور سنگھ پریوار آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ ملک کے کسی گوشہ میں کوئی واقعہ پیش آئے تو اسے مودی کی سیکوریٹی سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں چینائی ریلوے اسٹیشن پر بنگلور۔گوہاٹی ایکسپریس ٹرین میں کم شدت والے دو بم دھماکے ہوئے جس میں ایک خاتون ہلاک اور بعض دوسرے زخمی ہوگئے۔ ان دھماکوں کے ساتھ ہی بی جے پی نے اسے مودی کو خطرہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ۔ حالانکہ جس وقت یہ دھماکے ہوئے مودی چینائی میں موجود نہیں تھے۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ نریندر مودی سیما آندھرا میں تلگو دیشم بی جے پی اتحاد کی مہم کے سلسلہ میں نیلور میں تھے اور ٹرین کا اگلا اسٹیشن آندھرا کا انگول علاقہ تھا ۔ ٹرین دو گھنٹے تاخیر سے چل رہی تھی اور اگر وہ ان ٹائم ہوتی تو دھماکے کے وقت انگول میں ہوتی۔ دھماکوں کے ساتھ ہی ٹی وی چیانلس اسے دہشت گرد کارروائی کے طور پر پیش کرنے لگی بلکہ بعض ممنوعہ تنظیموں کی طرف شک کی سوئی گھمادی گئی۔
بعض چیانلس نے سیما آندھرا میں نریندر مودی کے دورہ کے موقع پر بم دھماکوں کا اندیشہ ظاہر کیا تو بعض نے دو دن قبل چینائی میں گرفتار کئے گئے سری لنکن ٹامل محمد ذاکر حسین کو ان دھماکوں سے جوڑنے کی کوشش کی ۔ اس شخص کو سری لنکا میں پاکستانی ہائی کمیشن کیلئے کام کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ بعض قومی اخبارات جو مودی کے تائیدی ہیں انہوں نے دھماکے کو مودی کی انتخابی مہم سے جوڑنے کی کوشش کی اور شبہ ظاہر کیا کہ مودی کی ریالی کے قریب ان دھماکوں کی منصوبہ بندی تھی۔ ان اخبارات میں الامہ اور دیگر مسلم تنظیموں پر شبہ ظاہر کیا ۔ یہ ٹرین چینائی سے انگول ، نیلور ، گنٹور اور وشاکھاپٹنم جانے والی تھی۔ الغرض جب دھماکوں کی تحقیقات کا آغاز ہوا تو جن افراد کو پوچھ تاچھ کیلئے حراست میں لیا گیا، ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ تحقیقات کو پھر ایک بار مسلمانوں کی سمت موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ٹرین میں دھماکہ کے ساتھ ہی مرکزی حکومت نے این آئی اے ، این ایس جی اور فارنسک ماہرین کی خدمات کا پیشکش کیا لیکن جیہ للیتا حکومت نے مرکز کی پیشکش کو قبول نہ کرتے ہوئے واضح کردیا کہ حکومت اسے دہشت گرد کارروائی کے طور پر نہیں دیکھتی۔
ظاہر ہے کہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کی خدمات حاصل کی جاتیں تو پہلے پاکستانی تنظیموں پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جاتا۔ تحقیقات کی ابتداء میں ٹاملناڈو حکومت نے مرکزی حکومت کے تعاون کو قبول نہیں کیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ تحقیقات کس نتیجہ پر پہنچیں گی اور کسے ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ کم شدت کے دھماکے اور پھر دھماکوں کی ٹائمنگ کو دیکھتے ہوئے اسے سنگھ پریوار کی منصوبہ بندی بھی کہا جاسکتا ہے تاکہ عام انتخابات کے آخری دو مرحلوں میں بی جے پی کے امکانات میں اضافہ کیا جاسکے۔ ماہرین کے مطابق سنگھ پریوار کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اس کے سیاسی سازش ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعہ سچائی کو منظر عام پر لائیں۔ ویسے بھی ٹاملناڈو میں اس طرح کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ 1984 ء میں چینائی ایرپورٹ پر دھماکہ ، 1993 ء میں تین ٹرینوں میں دھماکے ، 1998 ء میں کوئمبتور بم دھماکہ اور چند سال قبل آر ایس ایس دفتر میں دھماکہ ہوا۔ کوئمبتور دھماکہ کے بعد ایل کے اڈوانی کو نشانہ بنانے کے الزام میں کیرالا کے عبدالناصر مدنی کو ماخوذ کیا گیا اور یہ مقدمہ ابھی زیر دوراں ہے۔
اب چینائی دھماکوں سے نریندر مودی کو خطرہ سے جس طرح جوڑنے کی کوشش کی گئی کہیں ایسا تو نہیں کہ اڈوانی کے بعد مودی کی مقبولیت میں اضافہ کیلئے ٹاملناڈو کی سرزمین پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ سابق میں مکہ مسجد ، اجمیر شریف ، مالیگاؤں اور دیگر بم دھماکوں کے بعد بڑے پیمانہ پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ تاہم تحقیقات میں سنگھ پریوار کی تنظیموں کے ملوث ہونے کی حقیقت آشکار ہوئی ۔ ہوسکتا ہے کہ چینائی ریلوے اسٹیشن کی ان دھماکوں میں بھی کسی سازش کا تحقیقات میں انکشاف ہو۔ ان تمام باتوں کے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلم آسان نشانہ ہیں اور کسی بھی واقعہ کے ساتھ ہی سب سے پہلے شبہ کی سوئی ان کی طرف گھمادی جاتی ہے۔ عام انتخابات کے 8 مرحلے مکمل ہوگئے ۔ 7 اور 12 مئی کو آخری اور فیصلہ کن مرحلوں کی رائے دہی ہوگی۔ اب تک کے مرحلوں میں بی جے پی کو بہتر مظاہرہ کی امید نہیں لہذا رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ نویں مرحلہ کی رائے دہی میں وارانسی بھی شامل ہے جہاں نریندر مودی سے اروند کجریوالی کی راست ٹکر ہے ۔ مودی کی کامیابی کو یقینی بنانے ہوسکتا ہے کہ چینائی دھماکوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ تاکہ مودی کے پھٹے ہوئے غبارہ میں ہوا بھردی جائے ۔ اچھا تو یہ ہوا کہ ٹرین دو گھنٹے لیٹ چل رہی تھی۔ اگر وہ آندھراپردیش میں داخل ہوجاتی تو قومی میڈیا میں اسے مودی پر حملہ کی سازش کے طور پر پیش کیا جاتا۔ اس طرح ٹرین کی تاخیر نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
وارانسی میں سیکولر ووٹ کی تقسیم روکنے کیلئے بعض اہم پارٹیوں نے اپنے امیدوار کھڑا نہیں کئے ۔ جنتا دل یونائٹیڈ نے کجریوال کی تائید کا اعلان کرتے ہوئے مودی کی مشکلات میں اضافہ کردیا ۔ نریندر مودی جو وارانسی کے راستے دہلی تک کا سفر طئے کرنا چاہتے ہیں، اس وقت ان کے ہوش اڑ گئے جب پوری اور دوارکا کے شنکر آچاریہ نے مخالف مودی مہم میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔ پوری کے شنکر آچاریہ مودی کو گجرات فسادات کا ذمہ دار مانتے ہیں جبکہ دوارکا کے شنکر آچاریہ نے مودی حامیوں کی جانب سے مذہبی انداز کے نعرے ’’ہر ہر مودی‘‘ پر اعتراض کیا اور آر ایس ایس کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اس طرح مودی کیلئے گجرات سے براہ وارانسی دہلی کا سفر آسان نہیں۔ انتخابی مہم کے آغاز پر ملک کی انتخابی سیاست نریندر مودی کے حق میں دکھائی دے رہی تھی لیکن آخری مرحلوں تک صورتحال برعکس ہوچکی ہے۔ مودی کی تائید اور مقبولیت کو میڈیا بھلے ہی بڑھا چڑھا کر پیش کرے لیکن پارٹی اب این ڈی اے میں وہ تنہا دکھائی دے رہے ہیں۔ نتائج سے قبل ہی خود کو وزیراعظم کی طرح پیش کرنا اور حلیف جماعتوں کی تائید کو ان کی کمزوری تصور کرنے سے بھی حلیف جماعتیں دوری اختیار کرنے لگی ہیں۔ جس طرح توقع تھی کہ نتائج کے بعد این ڈی اے میں نئے حلیف شامل ہوں گے ، برخلاف اس کے موجودہ حلیفوں کی برقراری پر شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نریندر مودی سے جو توقعات وابستہ کی گئیں ان کا پورا ہونا ممکن نہیں۔ لوک سبھا میں پھر ایک مرتبہ کسی جماعت کو واضح اکثریت کے امکانات کم ہیں۔ لہذا نئی سیاسی صف بندیوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ تیسرے محاذ اور فیڈریل فرنٹ کی سرگرمیاں تیز ہوگئیں اور کانگریس پارٹی نے تیسرے محاذ کی تائید کا اشارہ دے کر سیکولر طاقتوں کے اتحاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بی جے پی کو مابعد نتائج جن جماعتوں سے تائید کی امید تھی انہوں نے مودی پر حملوں میں شدت پیدا کردی۔ ممتا بنرجی اور جیہ للیتا کے مخالف مودی موقف نے مرکز میں تیسرے متبادل کے امکانات کو روشن کردیا۔ متبادل حکومت کی تشکیل کی سرگرمیوں میں مودی تنہا دکھائی دے رہے ہیں۔
یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ فرقہ پرست طاقتیں اچھوت بن چکی ہیں اور صرف چند حلیف بی جے پی کے ساتھ ہے۔ ان حالات میں جبکہ سیکولر جماعتیں مودی کی تائید کیلئے تیار نہیں۔ لہذا ’’اب کی بار۔مودی سرکار‘‘ اور ’’یہ دل مانگے مور‘‘ کی جگہ مودی کی زبان پر ’’دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے‘‘ کا گیت آجائے گا۔ اگر وہ لوک سبھا کی دو نشستوں پر کامیاب ہوجائیں تب بھی انہیں یہ نشستیں چھوڑ کر گجرات میں چیف منسٹر کی کرسی بچانے واپس ہونا پڑے گا۔ دہلی کی گدی کا خواب لیکر گجرات سے نکلنے والے نریندر مودی کو لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کے مصداق گاندھی نگر میں بیٹھ کر کنول کے پھول کی خوشبو سونگھنی پڑے گی۔ مودی اپنے ساتھ اپنے سپہ سالار امیت شاہ کو یو پی سے واپس طلب کرلیں اور ساتھ میں دل بہلانے بہار کے گری راج سنگھ بھی موزوں رہیں گے جنہوں نے مودی کیلئے نفرت کے پرچار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ورنہ یہ دونوں سیاسی بیروزگار ہوجائیں گے۔ گری راج سنگھ نے مودی کے مخالفین کو پاکستان بھیجنے کی بات کہی۔ لالو پرساد یادو نے مودی کو ہی پاکستان بھیجنے کا مشورہ دے ڈالا۔ ایسے میں ہمارے ایک پاکستانی صحافی دوست نے ریمارک کیا کہ پہلے پاکستان سے پوچھ لیا جائے کہ وہ قبول کرے گا یا نہیں۔ الغرض ملک کی سیکولر اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے سیکولر اور ترقی پسند جماعتیں متحد ہورہی ہیں جو ملک کی بھلائی اور عوام کے عین مفاد میں ہے۔ بنگلور ۔گوہاٹی ایکسپریس ٹرین میں دھماکوں کو جس طرح مودی کی مقبولیت کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس پر منظر بھوپالی کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
ان سیاسی لوگوں کو آپ لوگ کیا جانیں
قتل بھی یہ کرتے ہیں دوسروں کے ناموں سے