ڈاکٹر سید داؤد اشرف آرکائیوز کے ریکارڈ سے
سابق ریاست حیدرآباد کے آخری حکمراں آصف سابع کی فراخ دلی اور فیاضی بلکہ فیض رسانی کی شہرت نہ صرف سارے برصغیر ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بلاوجہ نہیں تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں سے بھی اور جس نے بھی علمی و تہذیبی نقطہ نظر سے کسی اہم مقصد کے لئے امداد کی درخواست کی آصف سابع کے بڑھ چڑھ کر مدد کی ۔ مجوزہ اعانت میں کمی نہیں بلکہ اس میں اضافہ کیا ۔ یوروپ کے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک بھی حکومت ریاست حیدرآباد سے اس سلسلے میں رجوع ہوئے اور انھیں اس ریاست اور اس کے والی سے ناامید نہیں ہونا پڑا ۔
آصف سابع کی علمی فیاضیوں سے نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، بنارس ہندو یونیورسٹی ، آندھرا یونیورسٹی ، شانتی نکیتن ، جامعہ ملیہ بھنڈارکر اورینٹل انسٹی ٹیوٹ ، پونا ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ، بنگلور اور ملک کے دوسرے مقامات سے تعلق رکھنے والے ادارے اور افراد فیض یاب ہوئے بلکہ یوروپ انگلستان اور ہالینڈ کے علمی اداروں نے بھی استفادہ کیا ۔ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اس تعلق سے جو مواد بکھرا پڑا ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس مضمون میں انگلستان اور ہالینڈ کے دو اہم اداروں کو دی گئی امداد کی کارروائیوں کے مختصر خلاصے پیش کئے جارہے ہیں جن سے علمی دنیا پوری طرح آگاہ نہیں ہے یا جن کی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ امداد و اعانت اور یہ فیاضی کس درجہ اہم اور وقیع کہلاسکتی ہے ۔
آرم اسٹرانگ کالج نیوکیاسل (یونیورسٹی آف ڈوہم) کے پرنسپل سرتھیوڈ اور مورلین نے میر عثمان علی خان آصف سابع کے نام اپنی ایک درخواست مورخہ 10 جون 1926 ء میں لکھا کہ لندن کے باہر انگلستان کے لوگوں میں ہندوستان کے بارے میں بڑی لاعلمی پائی جاتی ہے ۔ آبادی کے بڑے مراکز میں تعلیم یافتہ اور متمول طبقہ بھی ہندوستان کے بارے میں کچھ واقف نہیں ہے ۔ اس لاعلمی کو دور کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ کتب خانوں کو ہندوستان کے بارے میں کتابیں فراہم کی جائیں۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر وہ ہندوستان پر کتابوں کی ایک لائبریری قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اس لائبریری میں وہ ہندوستانی مصوری اور ہندوستان کے فن تعمیر کے علاوہ ہندوستان کی تاریخ پر کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ ہندوستان کی تاریخ کی کتابوں میں وہ خصوصیت کے ساتھ عہد وسطی کی اہم معاصر تاریخ کی کتابوں کے ترجمے جیسے ابوالفضل کا اکبر نامہ ، آئین اکبری ، عبدالقادر بدایونی کی منتخب التواریخ ، ابوالقاسم کی تاریخ فرشتہ ، تزک بابری اور تزک جہانگیری وغیرہ اس لائبریری میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ سر تھیوڈور مورلین نے متذکرہ بالا کتابوں کے ذحیرے کی خریدی کے لئے ایک ہزار پونڈ کی ضرورت ظاہر کرتے ہوئے درخواست کی کہ ہہندوستان پر کتابوں کی خریدی اور کتب خانے کے قیام کے لئے ایک ہزار پونڈ کا عطیہ منظور کیا جائے ۔
جب باب حکومت کے اجلاس میں یہ کارروائی پیش ہوئی تو یہ غلبہ آرا قرارداد منظور کی گئی ’’سرکار میں عرض کیا جائے کہ خاص حالات کے لحاظ سے پانچ سو پونڈ چندہ دیا جائے تو نامناسب نہ ہوگا بلکہ لطف الدولہ بہادر کو اس رائے سے اختلاف ہے ۔ ان کی رائے میں یا تو کچھ نہیں دینا چاہئے اور اگر دیں تو پوری رقم جس کی استدعا سرتھیوڈور مورلین نے کی ہے یعنی ایک ہزار پونڈ دینا چاہئے‘‘ ۔ جب یہ کارروائی ایک عرض داشت کے ذریعے آصف سابع کے ملاحظے میں پیش ہوئی تو انھوں نے فرمان مورخہ 26 اگست 1926ء کے ذریعے کتب خانے کی امداد کے لئے ایک ہزار پونڈ کی منظوری صادر کی ۔
لیڈن یونیورسٹی (ہالینڈ) کے ڈاکٹر ووگل نے حکومت ریاست حیدرآباد کے نام ایک یادداشت روانہ کی جس میں انھوں نے لکھا کہ ہندوستانی علم آثار کو ترقی دینے کے لئے لیڈن یونیورسٹی (ہالینڈ) میں کرن انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا ہے جس کی جانب سے ببلوگرافی آف انڈین آرکیالوجی کی چھ جلدیں شائع ہوچکی ہیں جنھیں علمی دنیا میں کافی پسند کیا گیا ہے ۔ اب ساتویں جلد زیر ترتیب ہے لیکن اس کام کی تکمیل میں مالی مشکلات درپیش ہیں ۔ چونکہ حکومت کی تاریخ پر کتابوں نے ایسے کاموں کی امداد میں دریادلی سے کام لیا ہے اور یہ کام ہندوستان کے ارباب ذوق کو بھی فائدہ پہنچائے گا اس لئے اگر دو یا تین سو روپے سالانہ امداد جاری کی جائے تو مشکلات دور ہوجائیں گی اور یہ علمی کام بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہ سکے گا ۔ ناظم آثار قدیمہ نے اس یادداشت پر لکھا کہ چونکہ ڈاکٹر ووگل دو سو یا تین سو روپے سالانہ کی امداد مانگتے ہوئے اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ کتاب میں حکومت ریاست حیدرآباد کی مالی اعانت کا تذکرہ کیاجائے گا اور ریاست کے سررشتہ (محکمہ) آثار قدیمہ کی کارگزاری پر بھی نمایاں تبصرہ شامل ہوگا اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سررشتہ مذکور کی گنجائش سے پانچ سال کے لئے دو سو کلدار کی امداد منظور کی جائے اور ڈاکٹر ووگل کو لکھا جائے کہ وہ سررشتہ آثار قدیمہ کے علاوہ کتاب کے نسخہ کتب خانہ آضفیہ ، نظام کالج ، عثمانیہ یونیورسٹی اور باب حکومت کے کتب خانوں کو بھی بلاقیمت روانہ کریں ۔ معتمد و صدرالمہام (وزیر) آثار قدیمہ اور سررشتہ فینانس نے ناظم آثار قدیمہ کی رائے سے اتفاق کیا ۔ باب حکومت (کابینہ) نے جب رائے ناظم آثار قدیمہ مالی امداد کی منظوری کی سفارش کی اور آصف سابع نے فرمان مورخہ 8 جولائی 1934 ء کے ذریعے ببلوگرافی آف انڈین آرکیالوجی کی تیاری اور اشاعت کے لئے دو سو کلدار سالانہ کی امداد پانچ سال کے لئے منظور کی ۔ ان احکام کی تعمیل میں ادارہ مذکور کے پانچ سال تک (1934 تا 1938ء) امداد دی جاتی رہی ۔
دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے ببلوگرافی آف انڈین آرکیالوجی کی تدوین و اشاعت کا کام بند رہا ۔ جنگ کے ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر ووگل پروفیسر علم آثار لیڈن یونیورسٹی ہالینڈ نے حکومت ریاست حیدرآباد کے نام ایک درخواست میں لکھا کہ جنگ کے دوران جرمنی کے مظالم اور غارت گری کی وجہ سے ان کے ملک کی حالت بڑی خراب رہی ۔ خوش قسمتی سے انسٹی ٹیوٹ جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا اور اب وہ اپنا کام شروع کرسکتا ہے ۔ ان دنوں انسٹی ٹیوٹ مالی مشکلات سے دوچار ہے ۔ انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کو حسب سابق مالی امداد جاری کرنے کی درخواست کی ۔ سررشتہ آثار قدیمہ نے اس درخواست پر لکھا کہ ادارہ مذکورہ کا رسالہ انڈین ببلوگرافی یوروپ کے اہم اور مشہور رسالوں میں شمار کیا جاتا تھا ۔ اس میں ہندوستان کے آثار پر شائع ہونے والی مطبوعات پر عالمانہ تبصرے شائع کئے جاتے تھے ۔ اس رسالے میں سب سے پہلے سررشتہ آثار قدیمہ حکومت ریاست حیدرآباد کی سالانہ رپورٹوں اور دیگر مطبوعات پر اہم تبصرے شامل رہتے تھے ۔ چونکہ اس رسالے کو آرکیالوجی کے ماہر وقعت کی نظر سے دیکھتے تھے اس لئے امداد کو دوبارہ تین سال کے لئے جاری کیاجانا چاہئے ۔ سررشتہ فینانس نے سررشتہ آثار قدیمہ کی رائے سے اس صراحت کے ساتھ اتفاق کیا کہ ادارۂ مذکور کو آٹھ نسخے جات بلا قیمت سربراہ کرنا ہوگا ۔ باب حکومت نے حسب تحریک سررشتہ فینانس امداد جاری کرنے کے سلسلے میں قرارداد منظور کی ۔ ان سفارشات کی روشنی میں آصف سابع نے تین سال کے لئے مالی امداد جاری کرنے کی منظوری دی ۔ اس بارے میں انکا حسب ذیل فرمان مورخہ 13 جون 1946 ء جاری ہوا ۔
’’کونسل (باب حکومت) کی رائے کے مطابق اس ادارے کو دو سو کلدار سالانہ کی امداد تین سال تک جاری کی جائے اس صراحت کے ساتھ کہ یہ اس پرچے کے آٹھ نسخے بلاقیمت ہمارے ہاں سربراہ کرے گا‘‘ ۔