ڈاکٹر مجید خان
موجودہ حالات کے تعلق سے مسلمانوں کی صحیح آگہی ناگزیر ہوچکی ہے ۔ میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ اردوداں حضرات ہندوستان کی بدلتی سیاسی اور سماجی صورتحال سے پوری طرح واقف نہیں ہیں ۔ انگریزی صحافت کے نامور تجزیہ نگار اس پر خوب لکھ رہے ہیں ۔ بعض اہم اقتباسات میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ ان تجزیوں کی روشنی میں ہم کو اپنی غور و فکر میں ترمیم کرنا ہوگا ۔ میں انگریزی روزنامہ The Hindu پابندی سے پڑھا کرتا ہوں اور اکثر اس کے حوالے اپنے مضامین میں دیا کرتا ہوں ۔ جو لوگ دوسرے انگریزی اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں وہ ان کے اقتباسات شائع کریں تو ایک جامع منظر کشی آج کل کے حالات کی ہوسکتی ہے ۔ آج کل کا گرما گرم موضوع ہے تبدیلی مذہب کا ۔ عام لوگ اس کی گہرائیوں سے واقف نہیں ہیں ۔ 23 ڈسمبر کے ہندو اخبار میں Sunrith Parthasarthy کا مضمون بہ عنوان Conversion and Freedom of Religion شائع ہوا تھا ۔ پڑھنے کے قابل ہے ۔ اس سے سمجھدار غیر مسلموں کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے ۔ گذشتہ مئی 2014کے عام انتخابات میں نریندر مودی صرف معاشی سدھار کے مسئلے کو لیکر آگے بڑھے تھے ۔ ان کا کوئی اور ایجنڈا نہیں تھا ۔ مگر زمینی حقیقت یہ تھی کہ سارے ہندوستان میں جو انتخابی مہم چلائی گئی وہ علانیہ بٹوارے اور بھید بھاؤ کی تھی یعنی فرقہ واریت کا پرچار چلایا گیا ۔ کئی امیدواروں نے جو زہریلی انتخابی تقاریر کیں وہ انتخابات جیتنے کے بعد اچھے عہدوں سے نوازے گئے ۔ اس طرح بی جے پی کی دو متضاد شناختیں ابھر کر آئیں ۔ اب یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ حکومت کی پالیسی وہ نہیں تھی جس کا پرچار انتخابات میں کیا جارہا تھا بلکہ ہندوتوا ہی ان کا بنیادی ایجنڈا رہا ہے اور رہے گا ۔
گو کہ مودی جی معاشی سدھار کے گن گاتے ہیں مگر وہ فرقہ پرست اپنی ہی دوست تنظیموں پر آنکھیں لگانے پر مجبور ہیں ۔ بی جے پی کی حکومت خاموشی سے اخلاقیات اور دوسروں کے مذہبی اختیارات میں بھی اپنا زعفرانی رنگ چھپا نہیں پارہی ہے ۔ ایسی چھپی ہوئی تائید سنگھ پریوار کے فرقہ وارانہ ارادوں کو تقویت دے رہی ہے اور روزانہ یہ لوگ ایک نیا شوشہ نکال رہے ہیں جس میں مذہبی تبدیلی ایک خطرناک موضوع بن گیا ہے ۔
دلچسپی رکھنے والے حضرات اس مضمون کو جس کے مختصر اقتباسات میں نے اوپر پیش کئے ہیں ، ضرور پڑھیں اور مذہب کی تبدیلی کے تعلق سے صحیح معلومات سے لیس ہوجائیں کیونکہ اس پر قانونی پابندیاں لازماً آئیں گے جیسا کہ اس وقت مدھیہ پردیش ، اڑیسہ وغیرہ میں ہورہا ہے ۔ ہر تبدیلی مذہب کی درخواست ڈسٹرکٹ کلکٹر کے پاس دینی ہوگی اور وہ دفتریت کا شکار ہوجاتی ہے اور اجازت نہیں ملتی ۔
جہاں تک مجھے علم ہے آندھرا اور تلنگانہ میں مذہب کی تبدیلی پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ بہتر ہوگا ہم مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کی صورتحال پر ایک جامع رپورٹ تیار کریں تاکہ مستقبل میں آنے والے مسائل کے تعلق سے ایک مدلل رپورٹ تیار ہوسکے ۔
چیدہ چیدہ میں انگریزی اخبارات کے چند مضامین کے اقتباسات میرے تاثرات کے ساتھ پیش کررہا ہوں ۔ یہ وہ صحافی یا سماجی نفسیات کے ماہر ہیں جو بے لاگ حقیقی سیاسی و سماجی حالات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ دانشوروں کی ایک ایسی تنظیم تشکیل دیں جن میں ایسے حق پسند اور غیر جانبدار تجزیہ نگار ہوں جو فرقہ وارایت کے زہر کو زائل کرنے کی کوشش کریں ۔ فی الحال افسوس کی بات ہے کہ ہمارے شہر حیدرآباد میں ایک بھی ایسی غیر سیاسی تنظیم نہیں ہے جو تمام مذاہب کے دانشوروں کیساتھ مل کر غیر جذباتی انداز میں عوامی جلسے منعقد کریں اور فرقہ واریت کی نئی بڑھتی ہوئی فضا کے اثرات کو کم کریں ۔ سب جانتے ہیں کہ انتخابات میں اس قسم کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں اس لئے نئی غور وفکر اور حکمت عملی کی نئی تحریک کاتعلق نہ تو سیاست سے ہونا چاہئے نہ کسی سیاسی جماعت سے ۔
ہمارے نوجوان ایسی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں ۔
Shiv Vishwanatham مشہور ماہر سماجیات ہیں اور پابندی سے انگریزی اخبارات میں لکھتے ہیں ۔ تبدیلی مذہب کے موضوع پر وہ اس طرح رقمطراز ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی اقسام کے تبدیلی مذہب کے واقعات ہوا کرتے تھے ۔ پہلے نچلے طبقے کے ہندوؤں کا اسلام یا عیسائیت کو قبول کرنا ۔ گھر واپسی کی نئی مہم میں سنگھ پریوار کے حامی پیش پیش ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ پرانے زمانے میں سب ہندوستانی ہندو تھے اور بعد میں اسلام اور عیسائیت پھیلی اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ تبدیلی مذہب کی مہم کی شرارت کے پیچھے فرقہ پرستوں کی تشدد پسندی ہے ۔ وہ اس بہانے قانون اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں اور نقص امن اور فسادات کرواتے ہیں ۔ یہ بڑے خطرناک عزائم ہیں اور ان کے ہر پہلو سے صحیح واقفیت بہت ضروری ہوتی جارہی ہے ۔ اس کو بھی اب خاموشی سے ایک انتخابی مسئلہ بنادیا گیا ہے ۔ شیو وشواناتھم کا کہنا ہیکہ جب بجرنگ دل بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کروانا چاہتی ہے تو وہ اقلیتوں کی کمزور طاقت کو اکثریت کے زور سے کچل دینا چاہتی ہے ۔ ظاہر ہے سنجیدہ لوگ جو دستور ہند کی غیر جانبداری پر ایقان رکھتے ہیں دنگ ہوگئے ہیں ۔ نت نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔
کیا کوئی مسلمان سنجیدہ جماعت ان مسائل پر غور کررہی ہے ۔ جماعت ہو نہ ہو والدین کم ازکم ان کمپیوٹر سے جڑی ہوئی خیالی دنیا کے تعلق سے سمجھیں تاکہ انکے ہاں کوئی مسرور پیدا نہ ہو ۔ اب پڑھئے مسرور کی کہانی ۔ مسلمان نوجوانوں کا موقف انتہائی نازک ہوتا جارہا ہے ۔
اسکا پورا نام مہدی مسرور بسواس ہے ۔ انجینئرنگ گریجویٹ ہے اور بنگلور میں عزت دار لوگوں کے محلے میں ایک کمرے کے فلیٹ میں رہا کرتا تھا ۔ کسی کو اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں تھی ۔ والدین بنگال میں تھے اور روزانہ ان سے بات چیت ہوا کرتی تھی ۔ مگر اپنا خالی وقت Twitter پر گذارتا تھا ۔ اگر کوئی صاحب Twitter سے واقف نہیں ہیں تو یہ مضمون مزید پڑھنا ان کے لئے فضول ہے ۔ فیس بک اور ٹوئٹر سے لوگ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے دستیاب ہونے والی ایک خیالی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں جس کو Digital World کہا جاتا ہے ۔ اس دلچسپ دنیا میں جب کوئی لڑکا داخل ہوتا ہے تو پھر وہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی بھی سیر کرنے لگتا ہے ۔ یہ معمولی سیر نہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو اسکا ایک سرگرم کارکن سمجھنے لگتا ہے ۔ سنا کہ مسرور کی دوڑ صرف کمپیوٹر کی حد تک تھی اور اس کا میل ملاپ کسی گروہ سے نہیں تھا ۔ آہستہ آہستہ یہ نوجوان داعش کے جال میں چلا گیا ۔ اس کو انگریزی میں cyberspace کہا جاتا ہے ۔ دنیا کی ساری خفیہ ایجنسیاں ان خاموش حرکات پر نظر رکھی ہوئی ہیں ۔ کیونکہ ساری دنیا کے امن کو ایسے خطرناک ارادے رکھنے والوں سے خطرہ ہے ۔
انگلستان کے ایک ٹیلیویژن چیانل نے یہ انکشاف کیا کہ مہدی داعش سے ربط پیدا کیا ہوا ہے ۔ اس کے بعد اسکی گرفتاری عمل میں آئی ۔ ہیمنت تمبالکر جوائنٹ پولیس کمشنر بنگلورو کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان بنیاد پرست یا دہشت گرد نظر نہیں آتا ۔ اس میں سعودی عرب کی وہابیت کی بھی کوئی جھلک نظر نہیں آتی ۔ انگریزی اسکول میں تعلیم حاصل کیا اور اپنے فیس بک پر لطیفے اور ہنسی مذاق کیا کرتا تھا ۔ سوپر ہیرو کی فلموں پر تبصرے کیا کرتا تھا اور پیزا ڈنر اور پارٹیوں کے تعلق سے لکھا کرتا تھا ۔ اس کے پیامات میں کوئی بھی انتہا پسندی کی تحریک یا علامت نظر نہیں آتی ۔ اس کی تعلیم کسی مدرسے میں نہیں ہوئی ۔ یہ تمام تفصیلات اتوار 28 ڈسمبر 2014 کے The Hindu میں شائع ہوچکی ہیں ۔ گھر والے سب مل کر اس کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے اور اپنی کالج جانے والی اولاد کو سمجھایئے کہ انٹرنیٹ کی دنیا بغیرکسی جرم کے آپ کو سولی پرلٹکا سکتی ہے ۔ اب نہ صرف مشکوک لوگوں کے حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے بلکہ آپ کے خیالات بھی اب پوشیدہ نہیں رہ سکتے ۔ غلطی سے ایک انگلی دبایئے اور اس سے کوئی خطرناک ویب سائٹ کھل جائے تو آپ اس کو دیکھنے سے ہی شک کی نظر میں آجائیں گے ۔ ایسے ہزاروں ویب سائٹس اس وقت رواں دواں ہیں ۔ آپ کی اور آپ کے خاندان والوں کی حفاظت اور عزت و ناموس آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ ایک معمولی لغزش آپ کی زندگی کو تباہ و برباد کرسکتی ہے ۔کمپیوٹر کے دلدل میں نوجوانوں کو پھنسے سے پہلے ان کو بچایئے ۔ اس کے لئے صحیح صورتحال سے مسلسل واقفیت حاصل کرتے رہیئے ۔ اس غلط فہمی میں مت رہئے کہ آپ کا ہونہار لڑکا گھر کے باہر نہیں جاتا اس لئے معصوم ہے ، ایک مغالطہ ہی رہے گا ۔ اس کی کمپیوٹر کی دنیا کی نگرانی کرتے رہئے ۔
نوٹ : ابھی یہ اطلاع آئی ہے کہ جوائنٹ پولیس کمشنر ہیمنت تمبالکر جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے ان کا تبادلہ کردیا گیا ہے ۔ اب وہ مہدی مسرور بسواس کے کیس سے دستبردار کردئے گئے ، جووہات واللہ علم ۔