انکاؤنٹر ، وہی بات جو نہ وہ کہہ سکا

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
بھونگیر نعیم کے انکاؤنٹر پر سوالات تو اور بھی بہت ہیں مگر یہ کوئی بریکنگ نیوز والی خبر نہیں ہے کیوں کہ پولیس کا آدمی پولیس کی ہی گولی سے مارا جاتا ہے تو اصل سچائی سے آنکھیں چرانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔ کبھی نعیم کو پولیس کا مخبر کہا گیا، کبھی حکمراں طبقہ کے آدمیوں کو دھمکیاں دینے کی سزا دی جانے کا انکشاف ہوا۔ گجرات میں سہراب الدین شیخ انکاؤنٹر کی طرح تلنگانہ میں اس کا حشر کردیا گیا۔ سمجھا جاتاہے کہ سہراب الدین کو پکڑانے میں بھی اس کا اہم رول تھا۔ آندھراپردیش کے پولیس عہدیدار کے ذریعہ اس نے گجرات پولیس کو مطلع کردیا تھا کہ سہراب الدین شیخ اپنی اہلیہ کوثر بی کے ہمراہ فلاں بس میں سوار ہے اور سہراب الدین کی خبر نعیم کو کس طرح تھی یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس نے سہراب الدین کو دعوت دے کر 2005 ء میں اپنے ہاں مدعو کیا تھا۔ گجرات میں اس وقت کے وزیر داخلہ امیت شاہ کو سہراب الدین اور اس کی بیوی کے انکاؤنٹر میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ 2010 ء میں امیت شاہ کی گرفتاری کے بعد عدالت نے الزامات سے باعزت بری کردیا۔ سہراب الدین کیس کی جانچ کرنے والی سی بی آئی نے اس سارے معاملہ میں بھونگیر نعیم کے رول کو دانستہ یا غیر دانستہ نظرانداز کردیا۔ سہراب الدین جس بس میں سوار تھا اس بس میں نعیم الدین بھی سوار تھا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گجرات پولیس نے نعیم الدین کے نام کی جگہ اپنی تحقیقات میں کلیم الدین بتادیا جبکہ سی بی آئی نے گجرات پولیس کے اس دعویٰ کو متنازعہ بنادیا اور کلیم الدین کی جگہ تیسرے فرد تلسی رام پرجاپتی کا نام ظاہر کیا جس کو ڈسمبر 2006 ء میں پولیس انکاؤنٹر میں مار دیا گیا۔

گجرات کی ایک اور پولیس عہدیدار گیتا جوہری نے انکاؤنٹر کی تحقیقات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ 2003 ء میں گجرات کے سابق وزیرداخلہ ہرین پانڈیا کے قتل میں نعیم ملوث تھا۔ سپریم کورٹ میں داخل کردہ کیوریٹو پنشن میں بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا۔ ہرین پانڈیا کیس میں مفرور ملزم نعیم الدین کو اگر گجرات پولیس نے کلیم الدین بتایا تھا تو یہ بھی ایک چال تھی۔ پیپلزوار گروپ لیڈر سے پولیس کا مخبر بننے کے بعد نعیم کے پولیس سے مراسم بہت ہی رازدارانہ اور اعلیٰ سطح کے ہوگئے تھے۔ پولیس نے نعیم کے انکاؤنٹر تک یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ پولیس کی گرفت سے دور ہے۔ پولیس کی یہ کہانی کسی بھی زاویئے سے قابل قبول نہیں تھی کیوں کہ پولیس اور تحقیقاتی ٹیم نے بھی ازخود انکشاف کیا ہے کہ نعیم ہزاروں ایکر اراضی کا مالک تھا۔ اس کی بھی ایک جاگیر تھی۔ تقریباً 15000 کروڑ روپئے کی مالیت کے اثاثہ جات تھے اور ایک چوکس پولیس محکمہ کے سامنے یا ہوشیار سیاستدانوں کی آنکھوں سے بچ کر نعیم اپنی سلطنت پر راج کررہا تھا تو یہ بھی ناقابل یقین بات ہے۔ جو پولیس کل تک یعنی انکاؤنٹر سے تھوڑی دیر پہلے تک نعیم کو دبوچ لینے میں خود کو قاصر ثابت کررہی تھی، انکاؤنٹر کے فوری بعد اس کے مکانات اور خفیہ ٹھکانوں پر دھاوے کرتی ہے۔ آخر چند منٹوں میں پولیس کو ان ٹھکانوں کا پتہ کس طرح چلا۔ یہ کہانی پولیس، حکومت اور ایک مجرم کی ایک ایسا مجرم جو اپنے وقت تک پولیس اور حکمرانوں کا نور نظر بنا تھا، متحدہ آندھراپردیش کی پولیس نے نعیم الدین کے تعلق سے کئی راز پوشیدہ رکھے تھے۔ کیوں کہ وہ حکومت کے ایوانوں اور پولیس کے ہیڈ کوارٹرس اور اعلیٰ عہدیداروں کا مائی باپ تھا۔ جب تک پیسہ بولتا تھا، سیاستدانوں کو اس کی ضرورت تھی وہ زندگی کے تمام مزے حاصل کرتا۔ پولیس کے تمام اعلیٰ عہدیدار اپنی غرض یا سیاستدانوں کی مرضی کے خاطر نعیم کے ایک وقت معینہ تک تمام خاطیوں کو نظرانداز کرتے رہے جبکہ نعیم کے ہاتھ کئی لوگوں کے خون سے رنگے تھے۔ انہی ہاتھوں سے پولیس کے اعلیٰ عہدیدار اپنے حصہ کا نوالہ کھاتے رہے۔ پولیس کے سینئر عہدیدار کے ایس ویاس کے قتل کا ذمہ دار سمجھے جانے والا نعیم اپنی ہلاکت سے چند گھنٹوں قبل تک بھی محکمہ پولیس کو انگلیوں پر نچاتا رہا تھا۔

پولیس نے اس کا انکاؤنٹر کرکے یہ ثبوت چھوڑ دیا ہے کہ آخر انکاؤنٹر کیا ہوتا ہے اور یہ کیوں کر کیا جاتا ہے۔ اس سارے معاملے میں تین باتیں غور طلب ہیں۔ پہلی بات لوگوں کی اکثریت نے اس انکاؤنٹر پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ دوسری بات جن سیاستدانوں سے اس کے تعلقات تھے وہ کون ہیں۔ تیسری بات حکومت نے اب تک چشم پوشی اختیار کیوں کی تھی۔ بہرحال حیدرآباد کے مضافات شاد نگر میں ہونے والا انکاؤنٹر سیاسی آقاؤں کی بے رخی یا ناراضگی کا نتیجہ ہے۔ اختیارات جس کے پاس ہوتے ہیں وہ فلمی انداز میں فیصلے بھی کرتے ہیں۔ قانون اور سرکار کی سرپرستی سے خرابیوں کا جو الاوا پھٹ پڑتا ہے اس کا ایک دن خود سیاستدانوں کو شکار ہونا پڑتا ہے۔ بہرحال پولیس جو مجرموں کے خلاف جنگ ہمیشہ خیالات سے لڑتی ہے ایک دن عملی قدم بھی اٹھاتی ہے۔ ایک نعیم کو ہمیشہ کے لئے چپ کراکے کئی راز بھپی دفنا دیئے گئے ہیں۔ نئی لائن اس انکاؤنٹر کے سارے شور نے وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ تلنگانہ اور چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی مہمان نوازی کو لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل کردیا۔ عوام اس بات سے بے خبر رہے کہ وزیراعظم نے اپنے دورہ میں حکومت تلنگانہ کو مایوس کردیا۔ اس کے باوجود چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے وزیراعظم کی مدح سرائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ریاست کے خاص مہمان کا اتنا زیادہ خیال رکھا گیا کہ چیف منسٹر نے اپنے آبائی گجویل اسمبلی حلقہ کے کومٹی بنڈہ میں جلسہ عام کو کامیاب بنانے سے زیادہ حیدرآباد میں فتح میدان پر بی جے پی ورکرس کے جلسہ کو کامیاب بنانے کی فکر کے ساتھ تمام مؤثر انتظامات کئے تھے۔ مودی کے دورہ کے ذریعہ ریاست تلنگانہ کے حق میں خاص پراجکٹس اور فنڈس حاصل کرنے کی کوشش کے بجائے چیف منسٹر نے دورہ کو بہرحال کامیاب بنانے کی فطری کوشش کی۔ بلاشبہ مودی کے دورہ اور بی جے پی لیڈرس کو خوشیاں فراہم کرنے کا سہرا چیف منسٹر کے سر جاتا ہے۔ مودی اور ان کی حکومت کی کے سی آر نے جس حد تک ستائش کی ہے وہ ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کو ایک مضبوط مقام بنانے میں زبردست معاون ثابت ہوگی۔ مودی کے نظم و نسق کی تعریف میں چیف منسٹر نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا اور کہاکہ انھوں نے (کے سی آر) اپنی 40 سالہ سیاسی زندگی میں اتنی صاف ستھری حکومت پہلی مرتبہ دیکھی ہے۔ اس کے جواب میں وزیراعظم مودی نے بھی کے سی آر کی حکمرانی کی پیٹھ تھپتھپائی۔ مودی کو فتح میدان اسٹیڈیم میں ہی تلنگانہ کا روشن مستقبل دکھائی دیا

۔ اس لئے انھوں نے ایک اپوزیشن پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے چیف منسٹر کے سی آر کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا جبکہ وہ بی جے پی کے کیڈرس سے خطاب کررہے تھے۔ البتہ کے سی آر کے مہمان ہوکر تلنگانہ میں 2019 ء کو بی جے پی کے لئے اقتدار کا سال قرار دیا۔ تلنگانہ کی مقبول شخصیت کے سی آر ہی جب مودی نے کے مدح ہوں تو بی جے پی کو اپنی ساکھ مضبوط بنانے یا شناخت پیدا کرنے کی تیاری کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مودی کے اس دورہ کے بعد ٹی آر ایس حلقوں میں جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ اگرچیکہ مودی کے دہلی واپس ہونے کے بعد کے سی آر کے لوگوں نے یہ صفائی دینے کی کوشش کی کہ ٹی آر ایس کا این ڈی اے میں شامل ہونے کا امکان نہیں ہے اور نہ ہی ٹی آر ایس بی جے پی میں ضم ہونے والی ہے۔ جب ایسی بات ہرگز نہیں ہے تو پھر صفائی دینے کی کیا ضرورت تھی۔ شائد چور کی داڑھی میں تنکہ کی مثال ایسی ہی صورتحال کے لئے تیار کی گئی ہے۔ بہرکیف عالمی فرینڈشپ کے دن علاقائی سطح پر وزیراعظم مودی اور کے سی آر کے درمیان نئی فرینڈشپ ہورہی ہے تو پھر اس دوستی کو ان کے حامی اور حریف کیا نام دیں۔ کے سی آر کے حامیوں کو یہ بات یاد نہیں ہوگی کہ کے سی آر نے اگسٹ 2014 ء میں مودی کو فاشسٹ قرار دیا تھا اور بی جے پی لیڈروں نے زبردست احتجاج کیا تو بعدازاں انھوں نے بیان دیا تھا کہ ان کے بیان کا غلط مطلب نکالا گیا۔ مودی کا دورہ تلنگانہ اور کے سی آر سے قربت کا مظاہرہ ایک ایسے وقت ہوا جب سیاسی پنڈتوں نے یہ قیاس آرائی کی کہ تلگودیشم آئندہ 2019 ء کے انتخابات سے قبل بی جے پی سے ناطہ توڑ لے گی۔ تلنگانہ میں وزیراعظم نے جن پراجکٹس کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ ان کو سال 2019 ء سے قبل مکمل کرلئے جائیں گے۔ ان پراجکٹس کی تکمیل میں تلنگانہ کے رائے دہندوں کو بی جے پی کے قریب کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔