کے این واصف
آج دنیا کا ہر کام آن لائن یا نیٹ پر ہونے لگا ہے جس نے عوام کی زندگی بڑی سہل بنادی ہے اور پچھلے وقتوں میں جو کام مہینوں اور ہفتوں میں ہوا کرتے تھے وہ اب منٹوں میں بلکہ لمحوں میں انجام پاتے ہیں اور یہ آسانی ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں حاصل ہے ۔ جہاں ہم زندگی کے ہر شعبہ کا کام نیٹ ورک پر آسانی سے انجام دے رہے ہیں وہیں دھوکہ باز لوگ بھی عوام کو لوٹنے اور ٹھگنے کیلئے نیٹ ورک کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ آپ اپنا ای میل کھولے تو ہر روز دو چار ایسے پیام آپ کو اپنے میل میں نظر آئیں گے جن میں آپ کو یہ خبر دی جاتی ہے کہ آپ کے ای میل اکاؤنٹ، موبائیل نمبر یا دوسرے کسی شخص شناختی کارڈ وغیرہ کے نمبر پر آپ کو قرعہ اندازی میں اتنے ہزار یا لاکھ ڈالرز یا ریال وغیرہ کا انعام نکلنے کی اطلاع دی جاتی ہے اور پھر یہ دھوکہ باز آپ کو انعام حاصل کرنے کے طریقہ کار بتاتے ہوئے اپنے جال میں پھانس لیتے ہیں۔ یہ کام نہ صرف ای میل پر ہوتا ہے بلکہ دھوکہ باز آپ کے موبائیل پر بھی طرح طرح کے دھوکے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ بھولے بھالے لوگ ان کے جال میں پھنس کر ہزاروں ریال کا نقصان اٹھاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل فون پر انعام کا لالچ دیگر لوٹنے کا سلسلہ زوروں پر تھا ۔
پھر ان پر سیکوریٹی اداروں کی چوکسی سے کچھ روز روک لگی، لیکن یہ سلسلہ اب ایک بار پھر شروع ہوا ہے۔ پچھلے ہفتہ ایک مقامی اخبار نے اس پر ایک تفصیلی خبر میں بتایا کہ موبائیل فون پر خطیر انعامی رقم کا لالچ دیکر عوام کو لوٹنے کا سلسلہ از سر نو شروع ہوگیا ہے ۔ یہاں کے محکمہ ٹیلی فون کے ذرائع نے عوام کو متنبہ کیا کہ صارفین اس قسم کی کالس کو قطعی اہمیت نہ دیں۔ دریں اثناء متاثرین کا کہنا ہے کہ کال کرنے والے ان کی سم (Sim) پر درج سیریل نمبر بھی بتاتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ان کا انعام حقیقت میں نکلا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق ٹیلی فون پر انعام نکلنے کا بتاکر صارفین سے رقم اینٹھنے کا سلسلہ کافی پرانا ہے مگر لالچ میں مبتلا افراد آج بھی اس کا شکار ہورہے ہیں ۔ ابتداء میں دھوکہ باز بیرون مملکت سے کالس کرتے تھے جن میں کہا جاتا تھا کہ وہ ٹیلی کمیونکیشن کے ذیلی ایجنٹ (کال سنٹر) سے بول رہے ہیں، قرعہ اندازی میں آپ کا 5 لاکھ ریال کا انعام نکلا ہے ۔ دھوکہ باز انعام کی مبارکباد دینے کے بعد صارف کو اس کی سم پر درج سیریل نمبر بتانے کے بعد یہ کہا کرتے تھے کہ وہ 5 منٹ بعد دوبارہ کال کرے گا ۔ اسی دوران آپ اپنی سم نکال کر اس کا سیریل نمبر چیک کرلیں۔ جسے انعامی رقم حاصل ہونے کی کال موصول ہوتی تھی وہ کال کرنے والے کی بات کی صدیق کیلئے سم نکال کر اس کے عقب میں درج سیریل نمبر چیک کرتا تھا تو نمبر واقعی وہی ہوتا جو اسے اس دھوکہ باز نے بتایا تھا ۔ ماضی میں بے شمار لوگوں کو اس طرح لوٹا گیا جس کے بعد ٹیلی کمیونکیشن تک یہ شکایات گئیں جنہوں نے دیگر ممالک میں ٹیلی فون کے اداروں سے رابطہ کر کے اس طرح کی کالس کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اس ضمن میں بین الاقوامی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کیا ۔ کچھ عرصہ تک یہ معاملہ رک گیا تھا مگر اب موبائیل کالس کے ذریعہ دھوکہ دینے کا سلسلہ بڑی شدت سے شروع ہوگیا ہے ۔
عوام کو کالس موصول ہورہی ہیں جن میں کال کرنے والا مقامی نیٹ ورک استعمال کر رہا ہے ۔ ایسے ہی ایک نیٹ ورک سے منسلک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ جس نیٹ ورک سے منسلک ہے، وہ بڑا منظم گروپ ہے جس کے ارکان انہیں مختلف نیٹ ورک کی سم فراہم کرتے ہیں ۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ انہیں موبائیل نمبرس ، سم کے سیریل نمبر اور دیگر معمولی معلومات بھی فراہم کی جاتی ہیں اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جسے کال کرنی ہے اس کی شہریت کیا ہے ۔ اس شخص نے طریقہ واردات کے بارے میں مزید بتایا کہ وہ اپنے شکار کو خطیر رقم انعام میں نکلنے کی اطلاع پر اس حد تک قائل کرتے اور اعتماد میں لیتے ہیں کہ وہ ان کی بات پر سو فیصد یقین کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کی فائل مکمل کر کے ادارے میں جمع کروانی ہے ۔ اس کیلئے تین ، تین سو ریال کے 4 موبائیل ریچار جنگ کارڈز کے پن کوڈ ارسال کریں تاکہ ان سے بیلنس لوڈ کر کے آپ کی فائل مکمل کی جائے ۔ جونہی لالچ میں مبتلا شحص مطلوبہ رقم کے کارڈز مہیا کرادیتا ہے اسے تسلی دی جاتی ہے کہ دو دن صبر کریں جیسے ہی فائل کی تکمیل ہوجائے گی، آپ کو مطلع کردیا جائے گا ۔ دوسرے ہی دن وہی شخص کال کر کے اس سے مزید کارڈز طلب کرتا ہے کچھ اور نئی کہانی سناکر ایک متاثرہ شخص کا کہنا تھا کہ وہ تین ہزار ریال تک کے کارڈز دے چکا ہے مگر انعام کا ایک ریال بھی اسے نہیں ملا۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے بتایا کہ اگرچہ اسے اس دھوکہ دہی کی اس کارروائی کا علم تھا اور جب پہلی بار اسے اس بارے میں کال موصول ہوئی تو اس نے کال کرنے والے کی باتوں کو رد کردیا ۔ دوسرے دن اسی شخص نے کال کر کے میرے بارے میں ایسی معلومات دیں جن کا صرف مجھے ہی علم تھا جن میں میرے بینک اکاؤنٹ کا نمبر اور سال میں کتنی رقم موبائیل میں لوڈ کی، کہاں کہاں کالس کیں، اس طرح کی معلومات دینے کے بعد اس نے کہا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا ہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ اتنی خاص معلومات سننے کے بعد مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میری قسمت مہربان ہوچکی ہے ، اس لئے میں وقتاً فوقتاً اسے کئی دن تک موبائیل چارجنگ کارڈز کے نمبر ارسال کرتا رہا ۔ جب میں اسے 4 ہزار ریال بھیج چکا تو اس نے مزید مجھ سے رقم طلب کی جب میں نے دینے سے انکار کیا تو اس نے کال بند کردی۔ اس کے بعد میں اسے کال کرتا رہا مگر اس نے فون بند کردیا۔ میں مسلسل کوشش کرتا رہا مگر وہ نمبر مستقل طورپر بند ہوچکا تھا۔
ایک دکاندار نے بتایا کہ یہ سلسلہ گزشتہ برس زوروں پر تھا تو اکثر لوگ 300 ریال والے کارڈز خریدنے آتے تھے جنہیں میں اپنے طور پر سمجھا دیتا تھا کہ انعامی چکر میں نہ پڑنا ، بعض لوگ سمجھ جاتے تھے اور اکثر یہ کہہ کر چلے جاتے تھے کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ دکاندار کا کہنا تھا کہ جب سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے اب پھر لوگ کارڈز خریدنے آرہے ہیں جنہیں میں اپنے طور پر سمجھاتا ہوں ، اب دیکھیں کہ کس کی قسمت میں کیا ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں ریجنل پولیس کے ترجمان کا بھی کہنا ہے کہ اس طرح کی کالس پر قطعی توجہ نہ دی جائے جس میں انعامی رقم کا سناکر آپ سے موبائیل کارڈز کے پن نمبرس طلب کئے جائیں۔ دوسری جانب ٹیلی فون کمپنی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انعامی اسکیم مصروف ہوتی ہے ، کسی بھی کمپنی کی جانب سے انعام نکلنے کی صورت میں کبھی بھی رقم طلب نہیں کی جاتی۔ اس لئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ خواہ کال کرنے والا کتنی ہی اہم معلومات آپ کو کیوں نہ فراہم کرے، اسے کسی بھی صورت میں کوئی رقم یا ریچارجنگ کارڈز کے پن نمبرس ارسال نہ کئے جائیں۔ واضح رہے کہ دھوکہ باز نیٹ ورک اپنے شکار سے موبائیل ریچارجنگ کے پن کوڈ لے کر انہیں فوری طور پر اپنے اکاونٹ میں منتقل کرلیتے ہیں۔ بعد ازاں ایزی لوڈ کے ذریعہ اسے ارزاں داموں فروخت کرتے ہیں جو انہیں تو مفت میں ہی ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ جو افراد آپ کو ارزاں نرخوں پر موبائل بیلنس لوڈ کرواتے ہیں کہیں وہ بھی تو اسی نیٹ ورک کا حصہ نہیں ؟
بہرحال آج قدم قدم پر ہمیں دھوکہ بازوں کا سامنا ہے۔ اس لئے ہمیں ای میل پر موصول ہونے والی انعامی اطلاع کے پیامات یا موبائیل پر آنے والے دھوکہ بازوں کے کالس پر خوش فہمی میں مبتلا ہوکر فوری کوئی رد عمل کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ۔ ’’لالچ بری بلا ہے‘‘ کی پرانی کہاوت کو ذہن میں رکھتے ہوئے خوش فہمی میں مبتلا ہوکر اپنی محنت کی کمائی نہیں گنوانی چاہئے ۔ میڈیا بھی آپ کو انتباہ دیتا رہتا ہے کہ آپ پر نشانہ لگاکر کمین گاہوں میں بیٹھے دھوکہ بازوں کے جال میں نہ پھنس جائیں۔