انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا

کشمیر اسمبلی میں دادری ریہرسل
بیف کی سیاست … ملک کیلئے تباہ کن

رشیدالدین
بیف کے مسئلہ پر جارحانہ فرقہ پرستی کی سیاست اترپردیش سے کشمیر پہنچ چکی ہے۔ جموں و کشمیر اسمبلی میں بی جے پی ارکان نے آزاد رکن شیخ عبدالرشید انجنیئر کے ساتھ جو غنڈہ گردی کی ہے، یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا بلکہ ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے تاکہ سارے ملک کو جارحانہ فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیا جائے۔ ملک میں نفرت کے پرچارکوں اور ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھنے والوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوچکے ہیں کہ انہوں نے ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست میں مسلم رکن اسمبلی پر حملہ کرنے کی ہمت کی۔ وہ اسمبلی جہاں اکثریت مسلم ارکان کی ہے، وہاں بی جے پی ارکان کی یہ حرکت دراصل ملک کی دیگر ریاستوں کی مذہبی اقلیتوں کو پیام دینا ہے کہ وہ جہاں چاہے اور جو چاہے کرسکتے ہیں۔ کشمیر اسمبلی میں بی جے پی ارکان نے دادری واقعہ کا ریہرسل کیا ہے۔ اترپردیش کے دادری میں بیف کے نام پر سنگھ پریوار کے غنڈوں نے محمد اخلاق کو اہل خانہ کے روبرو قتل کردیا تھا جبکہ کشمیر اسمبلی میں بی جے پی ارکان خود غنڈہ گردی پر اتر آئے۔ کشمیر اسمبلی میں یہ حرکت اچھی علامت نہیں ہے کیونکہ یہ سرحدی ریاست کے ساتھ ایک حساس صوبہ ہے جہاں عوام کے جذبات کافی شدید ہیں۔ وادی کے عوام نے بی جے پی کو مسترد کردیا اور جموں سے کامیابی حاصل کر کے وہ اقتدار میں شامل ہوئی ہے۔ ایسی پارٹی کے ارکان نے وادی میں غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے جارحانہ تیور ملک کو نراج  اور افراتفری کے راستہ پر گامزن کردیں گے۔ اس طرح کے حملے جمہوریت میں فاشزم کو پروان چڑھانے کی کوشش ہے۔ اگر ان طاقتوں کو برداشت کیا گیا تو ملک کے اتحاد و یکجہتی کو سنگین خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ دراصل یہ نفسیاتی کارروائی ہے تاکہ مذہبی اقلیتوں کی قوت مزاحمت کی جانچ کی جاسکے۔ حکومت کی سرپرستی میں گزشتہ دیڑھ سال میں مذہبی اقلیتوں کو مختلف عنوانات کے تحت پے در پے نشانہ بنایا گیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کے آزاد رکن اسمبلی کا قصور کیا تھا ؟ کشمیر میں ذبیحہ گاؤ اور بیف کھانے پر کوئی پابندی نہیں ہے

کیونکہ اس قانون پر سپریم کورٹ نے حکم التواء جاری کردیا ہے۔ جب بیف پر کوئی پابندی نہیں ہے تو پھر کسی کو نشانہ بنانے کا کیا جواز ہے۔ پی ڈی پی کے سربراہ اور چیف منسٹر مفتی محمد سعید میں ذرا بھی حمیت ہو تو انہیں بی جے پی سے اتحاد کو فوری ختم کرنا چاہئے ۔ جارحانہ فرقہ پرستی کے اس رجحان کو فوری قابو نہیں کیا گیا تو دیگر ریاستوں میں بھی دادری جیسے واقعات کا اعادہ ہوگا۔ ہر سطح پر اس کا جواب ضروری ہے۔ افسوس کہ ملک کی سیکولر طاقتیں پوری سنجیدی اور قوت سے مزاحمت کے بجائے ان واقعات پر سیاست کر رہی ہیں۔ دادری کے بعد جموں و کشمیر اسمبلی کا واقعہ سیکولرازم قانون اور دستور کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کیلئے آئی اوپنر ہے۔ دادری واقعہ پر من کی بات بتانے سے گریز کرنے والے وزیراعظم کشمیر اسمبلی میں پارٹی ارکان کی غنڈہ گردی پر بھی خاموش ہیں۔ زبان سے نہ سہی ٹوئیٹر پر تو کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔ وزیراعظم کو ٹوئیٹر پر جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کو نمستے کہنے، آشا بھونسلے کے فرزند کے انتقال پر تعزیت کرنے اور سابق کرکٹر سدھو کی عاجلانہ صحت یابی کیلئے نیک تمناؤں کے اظہار کیلئے تو وقت ہے لیکن سنگھ پریوار کی درندگی کے شکار محمد اخلاق کے ارکان خاندان سے تعزیت اور اظہار ہمدردی کی فرصت نہیں۔ جرمنی کی چانسلر اور سدھو سے زیادہ اخلاق کا خاندان توجہ کا محتاج ہے۔ وزیراعظم نے حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی اخلاقی ذمہ داری کو تک محسوس نہیں کیا۔ دستور پر لئے گئے حلف کو انہوں نے فراموش کردیا۔ مودی نے صدر جمہوریہ کی نصیحت کے حوالے سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بات کہی جو محض رسمی کارروائی ہے۔ آخر دادری اور محمد اخلاق کا نام لینے سے گریز کیوں؟ شائد اس لئے سنگھ پریوار کہیں ناراض نہ ہوجائے۔ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے دعوؤں کا کیا ہوا؟ وزیراعظم کم از کم ریڈیو کے آئندہ پروگرام من کی بات کا موضوع دادری اور کشمیر اسمبلی کے واقعہ کو رکھیں۔ مساوی ترقی اور حقوق کی بات کرنے والی حکومت اخلاق کے خاندان کو تحفظ فراہم نہیں کرسکی۔ برخلاف اس کے ہندوتوا کے پرچارکوں نے سارے علاقہ میں دہشت کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ سادھوی پراچی، ادتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج اور دوسروں نے زہر اگلنے کا کام کیا اور مودی سرکار تماشائی بنی رہی ۔ بیف کھانے والوں کو ہلاک کرنے  کی دھمکی ، اخلاق کے قتل ناحق کو درست قرار دینے کی کوشش اور ہندوؤں کو بندوق سربراہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔

دادری 30 ستمبر تک دنیا کی عظیم جمہوریت ہندوستان کے نقشہ پر محض ایک گمنام آبادی کا نام تھا جو آج بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے ماتھے پر ایسا کلنک بن چکا ہے جس سے دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کو ایک غیر مہذب اور مذہبی رواداری سے عاری ملک کے طور پر دیکھا جارہا ہے جہاں مذہبی اقلیتوں کو برداشت کرنے کیلئے فرقہ پرست طاقتیں تیار نہیں ہیں۔ نریندر مودی جو بیرونی دوروں کے موقع پر بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا کرتے ہیں ، آج وہی میڈیا نریندر مودی کی خاموشی پر سوال اٹھا رہا ہے ۔ مغربی ممالک سے شائع ہونے والے تمام اخبارات اور نیوز چیانلس نے یہاں تک کہہ دیا کہ سیکولر اور انسانیت کے نظریات رکھنے والوں کیلئے ہندوستان میں زندہ رہنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ عالمی میڈیا نے سب کا ساتھ، سب کا وکاس نعرہ کو محض فریب قرار دیا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فسادات کے وقت عالمی میڈیا نے اس طرح کے سخت تبصرے کئے تھے ، اس کے بعد دادری واقعہ پر عالمی میڈیا نے ہندوستان میں اقلیتوں کے تحفظ پر سوال اٹھائے ہیں۔ نریندر مودی اب کس صورت سے بیرونی ممالک کا دورہ کریں گے۔ ان حالات میں اگر اعظم خاں اقوام متحدہ سے رجوع ہوتے ہیں تو اس پر واویلا کیوں؟ اقوام متحدہ دنیا کے تمام ممالک کا متفقہ مرکز ہے جس سے رجوع ہونا کوئی جرم نہیں۔ اعظم خاں نے کسی پاکستانی ادارہ سے دادری واقعہ کی شکایت نہیں کی کہ ان پر پاکستانی کا لیبل لگادیا جائے۔ سابق میں ہندوستان سے جڑے کئی مسائل اقوام متحدہ سے رجوع کئے گئے۔ ہندوستان میں بچہ مزدوری اور مزدوروں کے مسائل کو پیش کرتے ہوئے کیلاش ستیارتھی نوبل انعام کے مستحق قرار پائے۔

بدائیوں نے دو بہنوں کی پھانسی کے واقعہ پر سکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے حکومت اترپردیش سے جواب مانگا تھا۔ گجرات کے فسادات ، انسانی حقوق کی پامالی اور ہندوستان میں صحت سے متعلق امور پر اقوام متحدہ کی کمیٹیوں کی رپورٹ موجود ہے لیکن سنگھ پریوار کو کبھی بھی  اعتراض نہیں ہوا۔ چونکہ ایک مسلمان کے قتل سے متعلق مسئلہ کو دوسرے مسلمان نے اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کی بات کی ہے ، لہذا بی جے پی اور سنگھ پریوار کو یہ ہضم نہیں ہورہا ہے ۔ ملک میں جب ظلم انتہا کو پہنچ جائے اور انصاف ملنے کی کوئی  امید باقی نہ رہے تو ایسے میں آعظم خاں کا یہ ردعمل فطری ہے ۔ دوسری طرف اترپردیش میں سماج وادی پارٹی حکومت کے مکھیا ملائم سنگھ یادو نے کہا کہ دادری واقعہ میں وہی افراد ملوث ہیں جو مظفر نگر فسادات میں ملوث تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خاطیوں کو جانتے ہوئے بھی  اکھلیش یادو حکومت نے کارروائی کیوں نہیں کی۔ آخر حکومت کی کیا مجبوری ہے؟ جب مذکورہ ملزمین مظفر نگر فسادات میں ملوث تھے تو پھر وہ آزاد کیوں ہیں اور آج تک انہیں سزا کیوں نہیں دی گئی؟ حکومت تو آپ کی ہے پھر خاطیوں کو کھلی چھوٹ کیسی؟ ملائم سنگھ یادو کو بیان بازی کے بجائے عمل سے اپنی سنجیدگی اور سچائی کو ثابت کرنا ہوگا۔ فرقہ پرستی کے خاتمہ کیلئے حکومت کی قربانی دینے کی بات کرنا آسان ہے لیکن حکومت کی بے عملی ان کے دعوؤں کی نفی کر رہی ہے۔ اگر نفرت کے سوداگروں کی  سرگرمیوں کو روکا نہیں گیا تو 2017 ء کے اسمبلی انتخابات ملائم سنگھ کیلئے مہنگے ثابت ہوں گے۔ اب جبکہ مقتول محمد اخلاق کے گھر سے ضبط کئے گئے گوشت کی جانچ مکمل ہوگئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ یہ بیف نہیں ہے۔ لہذا اخلاق کا خاندان بے قصور ثابت ہوچکا ہے۔ حملہ آوروں نے یہ کہنے کے باوجود گھر میں گائے کا گوشت نہیں ہے، انہوں نے اخلاق کو افراد خاندان کے روبرو ہلاک کردیا۔

افسوس تو اس بات پر ہے کہ پولیس نے مقتول کو ملزم ثابت کرنے کیلئے قاتلوں کے ثبوت اکھٹا کرنے کے بجائے اخلاق کے گھر سے گوشت ضبط کیا۔ اب جبکہ اخلاق کا خاندان بے قصور ثابت ہوچکا ہے، مرکز اور اترپردیش حکومت اس مظلوم خاندان کو کیا جواب دے گی۔ صرف شبہ کی بنیاد پر کسی کی جان لینا کہاں کا انصاف ہے۔ اخلاق کی زندگی کو تو کوئی لوٹا نہیں سکے گا لیکن ہندوستان کے ماتھے پر لگا یہ بدنما داغ شائد ہی کبھی دھل پائے۔ سوال یہ ہے کہ سنگھ پریوار کو کس نے اس بات کا حق دیا کہ وہ یہ طئے کرے کہ کسے کیا کھانا چاہئے ۔ آج بھی لاکھوں نہیں کروڑوں ہندو بھائی روزانہ بیف کھاتے ہیں اور بعض دوسرے سوائے ہفتہ کہ عام دنوں میں گوشت کا استعمال کرتے ہیں ۔ سنگھ پریوار کو پہلے اپنے لوگوں پر کنٹرول کرنا چاہئے۔ ملک میں زعفرانی ایجنڈہ پر عمل آوری کا رجحان اب ادبی اور ثقافتی شعبوں میں بھی دکھائی دینے لگا ہے۔ دادری جیسے واقعات فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ نے ادبی شخصیتوں اور فنکاروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی رشتہ دار نامور مصنفہ نین تارا سہگل اور ممتاز شاعر اشوک واجپائی نے ساہتیہ اکیڈیمی کے ایوارڈس کو واپس کر دیا۔ شیوسینا نے ممبئی میں پاکستانی فنکار غلام نبی کے پروگرام کو روک دیا۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی آخر کار اپنی حلیف جماعت کے دباؤ میں آگئی۔ شعر و ادب اور ثقافت کو ہمیشہ سیاست سے بالاتر سمجھا جاتا ہے  لیکن غلام علی کے پروگ رام کو روکنا ملک کی روایتی رواداری کے جذبہ کے مغائر ہے ۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ۔
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا