انصاف رسانی کی آس لگائے صحافیوں کو حکومت سے مایوسی

جرنلسٹ ہیلت اسکیم پر ناقص عمل آوری، ڈبل بیڈ مکانات اور دیگر مراعات کی بھی عدم فراہمی، جمہوریت کے چوتھے ستون پر خصوصی توجہ ضروری
سنگاریڈی۔/17جولائی، ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) تحریک تلنگانہ میں صحافیوں نے ناقابل فراموش رول ادا کیا۔ تشکیل تلنگانہ پر صحافیوں نے بھی اپنے مسائل کی یکسوئی اور انصاف رسائی کی آس لگائی لیکن ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے 4 سال بعد ان کی امیدیں اور نقصانات پورے نہیں ہوئے۔ حکومت تلنگانہ نے سنہرے تلنگانہ کی تشکیل کیلئے کئی اسکیمات کا آغاز کیا اور کوشش کررہی ہے کہ سماج کا ہر طبقہ اور ہر فرد حکومت کے فلاحی اور ترقیاتی اسکیمات سے مستفید ہوں لیکن حکومت کی ان کاوشوں میں صحافی شامل نہیں ہیں۔ صحافیوں کے کئی ایک مسائل حل طلب ہیں حکومت ان مسائل کی یکسوئی پر توجہ دے رہی ہے۔ سربراہ ٹی آر ایس پارٹی کے سی آر نے وعدہ کیا تھا کہ ٹی آر ایس اقتدار میں آنے پر ریاست کے تمام صحافیوں کو اکریڈیشن کارڈ منظور کئے جائیں گے۔ ہیلت اسکیم، ڈبل بیڈ روم مکانات اور دیگر مراعات دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان وعدوں کو تاحال مکمل نہیں کیا گیا۔ حکومت تلنگانہ نے ملازمین سرکار کی ایمپئز ہیلت اسکیم کے خطوط پر جرنلسٹ ہیلت اسکیم شرع کی جو کچھ عرصہ اچھا چلی لیکن بعد میں جرنلسٹ ہیلت اسکیم مسائل کا شکار ہوگئی اور کارپوریٹ ہاسپٹلس جرنلسٹ ہیلت اسکیم کے تحت علاج کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ صحافیوں کے پاس ہیلت اسکیم کارڈ ہے لیکن خانگی دواخانوں میں اس پر عدم عمل آوری کے باعث انہیں کارڈ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہورہا ہے اور اپنے صرفہ سے علاج کروانا پڑ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کارپوریٹ ہاسپٹلس کو 100کروڑ روپئے سے زائد باقی ہیں جس کی وجہ سے کارپوریٹ ہاسپٹلس ہیلت اسکیم کارڈ پر علاج سے گریز کررہے ہیں۔ کارپوریٹ ہاسپٹلس میں علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے نمس جیسے سرکاری دواخانہ میں مریضوں کا اژدھام دیکھا جارہا ہے۔ دور حاضر میں علاج بہت مہنگا ہوچکا ہے اور کمزور معاشی موقف کے حامل صحافی مہنگے علاج کے متحمل نہیں ہیں جس کی وجہ سے صحافیوں کو صحت کے حوالے سے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش میں سالانہ 900 روپئے پریمیم کی ادائیگی پر ہیلت انشورنس اسکیم پر عمل کیا جارہا تھا جس کو حکومت تلنگانہ ختم کرتے ہوئے بغیر کسی پریمیم فری ہیلت اسکیم کو شروع کیا جو صحافیوں کیلئے مددگار ثابت نہیں ہوئی۔ ایک ذرائع کے بموجب تشکیل تلنگانہ کے بعد گزشتہ 4 سال کے دوران تلنگانہ میں 221 صحافیوں کی اموات ہوئی ہیں۔ چند ایک اموات حادثات میں ہوئیں جبکہ اکثریت کی موت مختلف عوارض بالخصوص ہارٹ اٹیک کے باعث ہوئی ہیں۔ 9 جولائی کو ایک دن میں 4صحافیوں کی موت نے صحافتی برادری میں تشویش کی لہر دوڑا دی ماہ مئی میں کونڈا پاک کے ایک صحافی نے مالی پریشانیوں سے عاجز آکر اپنے دو کمسن بچوں اور بیوی کے ہمراہ خود کشی جیسے انتہائی اقدام کرتے ہوئے صحافیوں کے آنکھوں کو اشکبار کردیا۔ صحافیوں کی اموات کی کئی وجوہات ہیں جس میں سے ایک وجہ بہتر طبی سہولیات اور جرنلسٹ ہیلت اسکیم پر ناقص عمل آوری بھی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ جرنلسٹ ہیلت اسکیم پر صد فیصد عمل آوری کے اقدامات کرنے اور تمام خانگی و کارپوریٹ ہاسپٹلس میں جرنلسٹ ہیلت اسکیم کے تحت علاج کی سہولت کو یقینی بنائے۔ وزیر اعلیٰ کے سی آر اپنے وعدے کے مطابق تمام ورکنگ جرنلسٹوں کو اکریڈیشن کارڈ منظور کرنے جی او 239 کو منسوخ کرتے ہوئے نیا جی او جاری کرے۔ صحافیوں کیلئے ڈبل بیڈ روم مکانات منظور کرنے احکام جاری کئے جائیں ۔ ڈبل بیڈ روم مکانات کی منظوری کیلئے اکریڈیشن کارڈ کو نہیں بلکہ ادارہ کے شناختی کارڈ کو بنیاد بنایا جائے۔ صحافیوں کے بچوں کو خانگی تعلیمی ادارہ جات میں کے جی تا پی جی مفت تعلیم کیلئے خصوصی احکام جاری کئے جائیں۔ اس کے علاوہ کیرالا، تاملناڈو، اڑیسہ ، آسام اور دیگر ریاستوں میں رائج جرنلسٹ پنشن اسکیم کے خطوط پر تلنگانہ جرنلسٹ پنشن اسکیم بھی شروع کی جائے۔ حکومت تلنگانہ صحافیوں کے دیرینہ مسائل پر غور کرتے ہوئے یکسوئی کیلئے اقدامات شروع کرے۔