انسداد فرقہ وارانہ تشدد قانون ’’تباہی کامسالہ‘‘

احمدآباد 5 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) انسداد فرقہ وارانہ تشدد قانون پیش کرنے کے وقت پر اعتراض کرتے ہوئے بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے آج وزیراعظم منموہن سنگھ کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے مجوزہ قانون سازی کو ’’بیمار نظریہ‘‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہاکہ اِس کا مسودہ انتہائی ناقص ہے اور یہ ’’تباہی کا مسالہ‘‘ ثابت ہوگا۔ اُنھوں نے اِس قانون کو ریاست کے دائرۂ اختیار پر قبضہ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہاکہ مختلف دلچسپی رکھنے والوں سے اِس بارے میں وسیع تر تبادلہ خیال کی ضرورت ہے جیسے کہ ریاستی حکومتیں، سیاسی پارٹیاں، پولیس اور صیانتی محکموں سے اِس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا جانا چاہئے۔ نریندر مودی کا مکتوب پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں انسداد فرقہ وارانہ تشدد قانون مباحث اور منظوری کے لئے پیش کئے جانے سے عین قبل منظر عام پر آیا ہے۔ چیف منسٹر گجرات نے کہاکہ یہ مسودہ قانون منظوری کے لئے پیش کرنے کا وقت بھی مشتبہ ہے کیونکہ یہ سیاسی مفادات اور ووٹ بینک سیاست سے وابستہ ہے۔ حکومت کو اقلیتوں پر تشدد کی حقیقی فکر نہیں ہے۔ اُنھوں نے گہری فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ مجوزہ قانون عوام کو مذہبی اور لسانی خطوط پر اور بھی زیادہ تقسیم کردے گا اور معمولی معمولی واقعات پر تشدد پھوٹ پڑے گا کیونکہ اِس سے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جائے گا۔ اِس طرح اس قانون کے جو مقاصد ہیں نتائج اُس کے برعکس حاصل ہوں گے۔ اُنھوں نے کئی عملی مسائل بھی ظاہر کئے اور کہاکہ مثال کے طور پر دفعہ 3(F) دشمنی کے ماحول کی تعریف وسیع تر پیمانے پر کرتا ہے جو واضح نہیں ہے۔ چنانچہ اس کا استحصال ممکن ہے۔ دفعہ 4 کئی سوالات پیدا کرتا ہے جیسے کہ مرکزی حکومت کا ہندوستانی فوجداری دائرۂ کار کے بارے میں انداز فکر مجرمانہ قرار پاتا ہے کیونکہ یہ ریاستوں کے دائرہ کار میں شامل ہے۔ جس پر مرکز ناجائز قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ اِس اقدام سے صیانتی محکموں جیسے پولیس، سرکاری ملازمین وغیرہ کو جوابدہ بنایا جائے گا جس سے اُن کے حوصلے پست ہوں گے اور وہ سیاسی استحصال کا شکار بننے کے سلسلہ میں مخدوش ہوجائیں گے۔ قومی انسانی حقوق کمیشن اور ریاستی انسانی حقوق کمیشنوں کو بااختیار بنانے کے بارے میں اُنھوں نے کہاکہ منتخبہ حکومت کی ایک عاملہ بھی ہے۔ یہ ادارے پہلے ہی موجودہ موقف کے اعتبار سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں کافی بااختیار ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کے دوران اگر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوں تو قومی اور ریاستی انسانی حقوق کمیشنوں کو کارروائی کا اختیار حاصل ہے۔