انسداد رشوت ستانی کا نیا قانون نافذالعمل ،رشوت دینے والوں کو 7 سال کی جیل ہوسکتی ہے

نئی دہلی۔ 31 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ایک نئے انسداد رشوت ستانی قانون کے تحت جسے صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند نے منظوری دے دی ہے ، اب رشوت دینے والوں کو زیادہ سے زیادہ 7 سال کی جیل ہوسکتی ہے۔ سرکاری ملازمین کے علاوہ سیاست دانوں ، بیورو کریٹس اور بینکرس ان دیگر افراد میں شامل ہیں جنہیں اس قانون میں قانونی کارروائی سے ایک ڈھال فراہم کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت یہ لازمی ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیاں جیسے سی بی آئی ان کے خلاف تحقیقات کرنے سے قبل عہدیدار ِ مجاز سے پیشگی اجازت اور منظوری حاصل کرے۔ صدرجمہوریہ نے حال میں قانون انسداد رشوت ستانی (ترمیمی) 1988 کو منظوری دی ہے۔ ایک سرکاری حکم میں یہ بات بتائی گئی۔ اس میں کہا گیا کہ مرکزی حکومت نے 26 جولائی 2018ء کی تاریخ سے اس قانون کے نافذالعمل ہونے سے متعلق فیصلہ کیا ہے۔ اس حکم میں کہا گیا کہ اس قانون کے تحت کوئی پولیس عہدیدار کسی سرکاری ملازم کے خلاف کسی مبینہ جرم کے سلسلے میں جو ڈیوٹی انجام دینے کے دوران اس کے فیصلے سے متعلق ہو، متعلقہ عہدیدارِ مجاز سے منظوری حاصل کئے بغیر کوئی انکوائری یا تحقیقات نہیں کرے گا، تاہم اس قانون میں کہا گیا کہ نامناسب فائدہ حاصل کرنے کی کوشش یا رقم قبول کرنے کے الزام پر برسرموقع گرفتار کئے جانے والے شخص کے کیسیس میں اس طرح کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ اس قانون کے مطابق یہ تحفظ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کیلئے بھی قابل اطلاق ہوگا۔ مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے حال میں کہا کہ قانون انسداد رشوت ستانی میں ترمیم سے یہ بات یقینی ہوگی کہ سرکاری ملازمین کی نیک نیتی کے کام پر سوال نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس ایکٹ (انسداد رشوت ستانی یا پی سی ایکٹ1988) کی قدرے لوز لینگویج سے تحقیقاتی ایجنسیوں کو ان کے پروفیشنلزم کو چھوڑ کر چارج شیٹ داخل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ رشوت کو روکنے کیلئے کسی قانون میں رشوت دینے والوں کو سزا مقرر نہیں کی گئی تھی۔30 سال پرانے قانون انسداد رشوت ستانی 1988 میں کرپشن پر قصوروار کو سزا دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس نئے قانون میں اس قانون میں بعض ترمیمات کئے گئے ہیں۔