ریاض ،31جنوری(سیاست ڈاٹ کام )سعودی عرب میں جاری وسیع تر انسداد بدعنوانی مہم سے حکومت کو اب تک چار سو ارب ریال یا ایک سو سات ارب امریکی ڈالر کے برابر فائدہ ہوا ہے ۔ گرفتار کیے گئے کل 400 کے قریب بہت سے امیر سعودی شہریوں میں سے 65 ابھی زیر حراست ہیں۔ اٹارنی جنرل شیخ سعود المجیب نے آج بتایا کہ حکومت نے ملک بھر میں بدعنوانی کے خلاف گزشتہ برس کے اواخر میں جو وسیع تر مہم شروع کی تھی، اس دوران کل 381 انتہائی امیر اور بہت بااثر سعودی شخصیات کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں بہت بڑی بڑی کاروباری شخصیات اور موجودہ اور سابقہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھی شامل تھے ۔ شیخ سعود المجیب کے مطابق اب تک ان میں سے 316 ارب پتی اور کھرب پتی سعودی باشندوں کو دوبارہ رہا کیا جا چکا ہے جبکہ 65 تاحال حکام کے حراست میں ہیں۔ ان تمام شخصیات کو رشوت اور بدعنوانی کے الزامات یا کرپشن کے شبہ میں حراست میں لیا گیا تھا۔ شیخ سعود المجیب نے بتایا کہ ان مشتبہ افراد میں سے جو بے قصور پائے گئے ، انہیں تو ویسے ہی رہا کر دیا گیا جبکہ جن پر کرپشن کے الزامات ثابت ہو گئے اور جنہوں نے اپنے مالی بے قاعدگیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کر لیا تھا، ان میں سے کئی کو حکومت کو مالی ادائیگیوں سے متعلق تصفیے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ لیکن انہی میں سے بہت سے افراد ابھی تک حکام کی حراست میں ہیں۔ سعودی اٹارنی جنرل کی طرف سے ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ سینکڑوں زیر حراست سعودی شہریوں میں سے جن کو ادائیگیوں کے تصفیوں کے بعد رہا کیا گیا، ان سے ریاض حکومت کو نقد رقوم یا مختلف اثاثوں کی صورت میں مجموعی طور پر 400 ارب ریال یا 107 ارب امریکی ڈالر کے برابر آمدنی ہوئی۔ ان اثاثوں میں غیر منقولہ املاک، تجارتی نوعیت کی جائیدادیں اور حصص یا مالیاتی بانڈز بھی شامل ہیں۔ جو 65 سعودی شہری تاحال حراست میں ہیں، ان کے ساتھ حکومت کا ابھی تک کوئی مالی تصفیہ اس لیے نہیں ہو سکا کہ ان کے خلاف تحقیقات یا تو ابھی جاری ہیں یا پھر ان کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات التوا میں ہیں۔ کرپشن کے الزام میں زیر حراست سعودی شہریوں میں سے جن کو گزشتہ ویک اینڈ پر رہا کیا گیا، ان میں شہزادہ الولید بن طلال بھی شامل ہیں، جو دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ الولید بن طلال ان کم از کم 11 سعودی شہزادوں اور درجنوں انتہائی کامیاب کاروباری شخصیات میں سے ایک تھے ، جنہیں اس ملک گیر انسداد بدعنوانی مہم کے آغاز پر گزشتہ برس چار نومبر کو حراست میں لیا گیا تھا۔ یہ رپورٹیں بھی ملی ہیں کہ جن انتہائی بااثر اور سعودی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی درجنوں شخصیات کو نومبر 2017میں اس مہم کے آغاز پر حراست میں لے کر دارالحکومت ریاض کے انتہائی مہنگے رٹز کارلٹن ہوٹل میں نظر بند کر دیا گیا تھا، اب وہ تمام مشتبہ افراد بھی رہا کر دئیے گئے ہیں۔